Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shafa Ullah Rokhri Aur Imran Khan

Shafa Ullah Rokhri Aur Imran Khan

شفاء اللہ روکھڑی اور عمران خان، اس عنوان کا مقصد تقابلی جائزہ نہیں ہے بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ دونوں کا تعلق میانوالی سے ہے اور میانوالی ایسی مردم خیز تہذیبی و ثقافتی سرزمین ہے جس نے بڑے بڑے سپوت پیدا کئے۔ عمران خان کا تعلق بھی میانوالی سے ہے، ان کو شفاء اللہ خان روکھڑی جیسے عظیم گلوکار کی وفات پر تعزیت کرنی چاہئے تھی۔ بلاشبہ شفاء اللہ خان روکھڑی کی وفات پورے ملک کیلئے صدمے کا باعث ہے کہ کسی بھی زبان کا شاعر ہو یا گلوکار، وہ قوم کا اثاثہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ فوک کی دنیا میں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے بعد جس سنگر کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ شفاء اللہ روکھڑی تھے۔

شفاء اللہ ایک عرصے سے شوگر کے مریض تھے اور انسولین پر تھے۔ اس کے ساتھ ان کو دل کا عارضہ لاحق ہوا، دو سال قبل ملتان کارڈیالوجی میں ان کی انجیوگرافی بھی ہوئی۔ ان کا بڑا کارنامہ اپنے گاؤں میں عالمی معیار کے فوک اسٹوڈیو کا قیام ہے۔ شفاء اللہ روکھڑی28 اگست 2020ء جمعہ کی شب اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے کہ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ پورا وسیب سوگوار ہو گیا۔ مرحوم کی نماز جنازہ ان کے گاؤں روکھڑی میانوالی میں ادا کی گئی، میانوالی کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوا۔

شفاء اللہ روکھڑی کی آواز شروع سے اچھی تھی، سکول میں وہ "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" کے ساتھ ساتھ نعتیں بھی پڑھتے تھے۔ آغاز میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے اور بعد میں پولیس کی ملازمت چھوڑ کر 1987ء میں مستقل طور پر شعبہ موسیقی سے وابستہ ہوئے۔ انہوں نے بہت محنت کی، سرائیکی کائیگی میں جدت پیدا کی۔ فوک موسیقی کے نئے ٹرینڈ متعارف کرائے، نئی دھنیں تیار کرائیں اور شعراء کرام سے اپنی پسند کی دھنوں پر کلام لکھوایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گیتوں نے بہت جلد مقبولیت حاصل کر لی اور وہ شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ بہت سے نئے گلوکاروں نے ان کے انداز کو اپنایا، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ بڑا فنکار ہوتا ہے جس کے اسلوب اور انداز کو دوسرے اپنائیں۔ شفاء اللہ خان روکھڑی نے معروف سرائیکی شاعر افضل عاجز کے گیت بہت زیادہ گائے۔ میں نے افضل عاجز سے شفاء اللہ روکھڑی کے استاد کے بارے میں پوچھا تو افضل عاجز نے بتایا کہ یقینا ان کے استاد بھی ہونگے، میرا قطعی طور پر یہ دعویٰ نہیں مگر روکھڑی صاحب کی پر خلوص محبت کا اس سے بڑھ کر اظہار کیا ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے استاد کہتے تھے۔

شفاء اللہ خان روکھڑی کا ہر گیت بہترین ہے اور ان کے سینکڑوں گیتوں کو شہرت دوام کا درجہ حاصل ہوا، ان میں " کالا جوڑا پا "، " پردیسی ڈھولا"، " کوئی روہی یاد کریندی "، " ارمان تاں لگدے "، " ہم وچ خواب دے آیا ماہی " بہت زیادہ مشہور ہوئے۔ ان کے گانے کا اپنا انداز اور اپنا اسلوب تھا۔ وہ گیت شروع کرنے سے پہلے سرائیکی ڈوہڑہ اور سرائیکی ماہیا گاتے اور محفل پر چھا جاتے۔ ان کی شہرت کی وجہ یہ بھی تھی کہ جس طرح استاد نصرت فتح علی خان نے مغربی اور مشرقی موسیقی کی آمیزش سے ایک نیا انگ اور نیا آہنگ تیار کیا، اسی طرح شفاء اللہ خان روکھڑی نے پرانے سرائیکی گیتوں کی جدید طرز پر دھنیں بنائیں جو کہ بہت مقبول ہوئیں۔ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بیٹے ذیشان روکھڑی کو موسیقی کی دنیا میں لے آئے اور ان کی خوب تربیت کی، ما شا اللہ آج ذیشان روکھڑی کا فوک موسیقی کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے، یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ شفاء اللہ خان کو اپنے تمام بیٹوں عمران خان، الطاف خان اور طاہر خان سے بھی محبت تھی مگر موسیقی کے حوالے سے وہ سب سے زیادہ پیار ذیشان سے کرتے تھے اور پیار کی وجہ سے وہ خوف میں بھی مبتلا رہتے کہ میرے بیٹے کو نظر نہ لگ جائے اور خدا کرے وہ موسیقی کی دنیا میں محنت اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ شفاء اللہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ ملتان کی ملکہ موسیقی محترمہ ثریا ملتانیکر نے شفاء اللہ روکھڑی کی وفات پر دلی صدمے اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ میٹھی آواز کے مالک تھے، ان کی عمر بھی اتنی زیادہ نہ تھی، ابھی ان کے گانے کے دن تھے کہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ سنگر عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے کہا کہ شفا اللہ خان روکھڑی اچھے سنگر کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے، ان کو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب کے ساتھ اپنی ماں بولی سے محبت تھی۔ اسی طرح وسیب کے دیگر فنکاروں احمد نواز چھینہ، شہزادہ آصف علی گیلانی، اجمل ساجد، ساجد ملتانی، رمضان، ثوبیہ ملک، حاجی غلام فرید کنیرہ، جمیل پروانہ، کوثر جاپانی، عظمت نیازی، شرافت علی خان، واجد بغدادی و دیگر نے شفا اللہ روکھڑی کی وفات پر دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت کیلئے دعا کی ہے۔

شفاء اللہ روکھڑی جس قصبے میں پیدا ہوئے، اس کا نام روکھڑی ہے، اسی بناء پر روکھڑی کہلائے۔ جس طرح گیلانی، بخاری، گردیزی، شہروں کی نسبت کے حوالے سے آج قومیت کا روپ دھار چکے ہیں، یہی حوالہ روکھڑی کا بھی ہے، نیو خان کمپنی کے مالک امیر عبداللہ روکھڑی بھی اسی قصبے سے تعلق رکھتے تھے۔ جس دن شفا اللہ روکھڑی فوت ہوئے، اسی دن اسی قصبے کے سیاسی شخصیت حمید اللہ خان روکھڑی کی بھی وفات ہوئی۔ بلاشب میانوالی کو شعر و نغمے کی سرزمین کہا جاتا ہے، وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے ساتھ ساتھ مولانا کوثر نیازی، مولانا عبدالستار نیازی، گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان، کرکٹ کے میدان میں ماجد خان، عمران خان، ادب کے میدان میں رام لعل، سید نصیر شاہ، عبدالقادر حسن، ڈاکٹر اجمل نیازی کے ساتھ ساتھ دیگر ہزاروں ادیبوں، شاعروں اور گلوکاروں کو جنم دیا۔ میرے عزیز جام منیر نریجہ جو شفاء اللہ خان روکھڑی کے قریبی دوست تھے، پروگرام بنا رہے تھے کہ میڈم ثریا ملتانیکر اور عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی طرح جھوک کی طرف سے شفاء اللہ خان کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کرتے ہیں مگر افسوس کہ موت نے مہلت نہ دی۔