اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ، کراچی کے بعد کوئٹہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اپوزیشن لیڈر مریم نواز نے بلوچستان کے مسنگ پرسن کا مسئلہ اٹھایا جبکہ جمعیت علماء پاکستان کے رہنما اویس نورانی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان آزاد ریاست ہو، آئین شکنوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ اویس نورانی کا یہ بیان کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہے۔ یہ بیان ملکی سالمیت کے خلاف ہے گو مولانا اویس نورانی نے اپنے اس بیان کی وضاحت کی ہے جو ناکافی ہے کیونکہ یہ بیان غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سردار مولانا فضل الرحمن نے ایوب سٹیڈیم میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس میں عدالتی فیصلے کے بعد صدر مملکت کے استعفے کا مطالبہ کیا جبکہ دیگر رہنمائوں کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن موجودہ اسمبلی کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ اپوزیشن اسمبلی میں موجود ہے اور اسی اسمبلی نے فاٹا نشستوں میں اضافے کا بل اور آرمی چیف کی مدت ملازمت کا بل اپوزیشن کی حمایت سے پاس ہوا ہے۔ اب اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ یہ اسمبلی جعلی ہے تو پھر اسمبلی نشستوں سے استعفیٰ کی پہل بھی خود اپوزیشن کرے۔
اپوزیشن کے جلسے کے رد عمل میں وفاقی وزیر اطلاعات سنیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ بنارسی ٹھگوں نے بلوچستان میں پڑائو ڈال رکھا، پی ڈی ایم کا ایجنڈا بھارت، اسرائیل سے ملتا ہے۔ شبلی فراز کی یہ بات ٹھیک ہے کہ پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے آزاد بلوچستان کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ شبلی فراز کا یہ کہنا کہ نوازشریف و دیگر کے خلاف کارروائی کریں گے، ملک سے بڑا کوئی نہیں، وزیر اعظم عمران خان ملک لوٹنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ اس بات میں اس لیے وزن نہیں کہ حکومت نے خود ہی نوازشریف کو باہر بھیجا ہے اور اب نہ چھوڑنے والی بات عجب لگتی ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ دھریجہ نگر میں میں نے ایک کاشتکار سے اپوزیشن کے جلسے بارے پوچھا تو اُس نے کہا کہ دفعہ کرو جلسے کو، ہم ایسے جلسے کو کیا کریں گے جس میں ہمارے دکھوں کی بات نہ ہو۔
پچھلے ایک ہفتے سے وسیب کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا خصوصاً دیہی علاقوں میں جانا ہوا۔ وہاں سب سے اہم ترین مسئلہ کپاس کی بربادی ہے۔ کپاس سرائیکی وسیب کی اہم فصل ہے اور ملک کی مجموعی پیداوار کا نصف سے زائد وسیب میں پیدا ہوتا ہے۔ سال کی گزر اوقات کا دارومدار کپاس پر ہے۔ یہ صرف وسیب کے کاشتکاروں کی نہیں بلکہ کپاس کی پیداوار ملک کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اسے وائٹ گولڈ کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی اس کے باوجود بنگلہ دیش ٹیکسٹائل کی صنعت سے کھربوں کما رہا ہے اور کروڑوں افراد کو روزگار بھی مل رہا ہے جبکہ پاکستان جس کا شمار کپاس پیدا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے اس کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ وسیب کے کاشتکار سخت پریشان ہیں کہ جن کاشتکاروں نے زمین ٹھیکے پر لی مہنگا بیج، کھاد اور ادویات، بھاری منافع یا سود پر حاصل کی ٹیوب ویل سے قیمتاً پانی لیا اور کپاس کو بیماری لگ گئی جس سے پیداوار میں خوفناک حد تک کمی ہوئی اور بعض جگہوں پر صرف دس فیصد پیداوار حاصل ہوئی، وہ کاشتکار کہاں جائے؟ حکومت اس بارے خاموش ہے کاشتکار کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ کپاس کی فصل بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دنیا بھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے خام مال کا واحد ذریعہ ہے۔ کپاس سے دھاگے سے لیکر کپڑے بننے تک کا عمل مکمل ہوتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والا بنولہ بناسپتی گھی کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ الغرض کپاس کی مانگ پوری دنیا میں ہے اور یہ دنیا کی چند بیش قیمت فصلوں میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ ملکی مجموعی پیداوار کا قریباً 72 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ کپاس اور اس کی مصنوعات کے ذریعے ملک کو کثیر زرِمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ کپاس کو ہماری ملکی معیشت میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ اس کا ہماری قومی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد اور معیاری زرعی مصنوعات کی تیاری میں 7 فیصد حصہ ہے۔ کپاس دنیا کی ایک اہم ترین ریشہ دار فصل بھی ہے۔ پاکستان میں 2015-16میں شدید بارشوں، سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے شدید حملے کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور ہماری کاٹن انڈسٹری تنزل پذیری کا شکار ہوئی اور کپاس کے کاشتکاروں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ عالمی منڈی میں بھی ہماری کپاس کا پرسانِ حال کوئی نہ تھا کیونکہ کپاس کی صاف چنائی پر توجہ نہ دی جا رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر کپاس کی مانگ بنیادی طور پر دو باتوں پر انحصار کرتی ہے۔ کپاس کی فصل پر بیماریوں اور کیڑوں کا کم سے کم حملہ ہوا ہو، اس کی چنائی آلائشوں اور بیرونی آمیزش سے پاک رہے۔ دیہی علاقوں کے دورے کے دوران وسیب کے کاشتکاروں نے نہایت درد مندی کے ساتھ بتایا کہ کپاس کو بیماری جعلی زرعی ادویات اور جعلی کھادوں سے ہوئی۔ ناجائز منافع خور اور ملک دشمن تاجر و صنعتکاروں نے اربوں کھربوں کما لیے لیکن غریب کاشتکاروں کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔ صرف میں نہیں بلکہ ملک بھر کے تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ ملک اس سال کپاس کی پیداوار کیلئے طے شدہ ہدف حاصل نہیں کر سکے گا اور ایک کروڑ 8 لاکھ ہزار گانٹھ کے مقابلے میں صرف 85 لاکھ 97 ہزار گانٹھ پیداہوں گی۔ وفاقی وزیر زراعت فخر امام نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ کپاس بیج کا ناقص معیار، نئی بیج کی ٹیکنالوجی کے فقدان، آب و ہوا میں تبدیلی، گرمی کی لہر، روئی کی پتیوں پر کرل وائرس، پنک بال وارم اور سفید مکھیوں کا حملہ کپاس کی کم پیداوار کی بنیادی وجوہات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کاشتکاروں کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ صرف تسلیم کر لینا کافی نہیں ہے۔ وسیب جو کہ بنیادی طور پر زرعی ریجن ہے اور پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے اور جس سے انڈسٹری کا پہیہ چلتا ہے کو نقصان سے بچانے کیلئے فوری اقدامات ہونے چاہئیں۔
آخر میں اخبارات میں شائع ہونیوالی چند خبروں کا ذکر کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر معروف گلوکار شوکت علی کو سی ایم ایچ منتقل کیا گیا ہے جو کہ اچھا قدم ہے۔ وہاڑی سے تعلق رکھنے والے پنجابی شاعر محمد مشتاق المعروف بابا اسحاق جالندھری گزشتہ روز فوت ہو گئے وہ بہت اچھے شاعر تھے ان کے لواحقین کی مدد ہونی چاہئیں۔