پچھلے کالم میں پچھترسال کی چیدہ چیدہ کامیابیوں اور کچھ بڑی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا تھا، کچھ کالم کی تنگ دامنی کے باعث تحریر ہونے سے رہ گئیں۔ یقیناً ہماری سب سے بڑی ناکامی مشرقی پاکستان کے باشندوں کے اعتماد سے محرومی تھی جس کے سبب ہمارے نااہل اور مفاد پرست حکمرانوں نے آدھا ملک گنوادیا۔
پھر یہ کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم، چینی اور سبزیاں تک درآمد کرتے ہیں جو شرم کی بات ہے، ہماری قومی زبان اردو، پچھترسال بعد بھی ہماری عدالتی اور دفتری زبان نہیں بن سکی جو ہمارے احساسِ کمتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر میں پھر دہراؤں گا کہ ہماری ہمالیہ جیسی ناکامی یہ ہے کہ ہم نے نئی نسل کی تربیت نہیں کی۔ اس لیے اسے نہ کردار کی فضیلت کا ادراک ہے اور نہ اخلاقی گراوٹ کی سنگینی کا احساس۔ یہ ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے مگر اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ میرِ کارواں بھی احساسِ زیاں سے تہی ہیں اور کارواں کے دل سے بھی احساسِ زیاں جاتا رہا ہے۔ پس چہ باید کرد یعنی اب کیا کیا جائے، اس کا حل اور way forwardکیاہے!
اگرچہ ہم سب کی غلطیوں اور جرائم نے پاکستان کو برباد کردیا ہے، مگر اب بھی بہتری ممکن ہے، اب بھی زوال کو کمال میں بدلا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے اصلاحِ احوال کی طرف لوٹنا ہوگا۔ نئی نسل کی تربیت کرکے انھیں ایک باکردار اورمفید شہری بنانا ہوگا۔ نوجوانوں کو ہنر مند بناکر انھیں قیمتی سرمائے میں بدلنا ہوگا۔
ایک قوم بنانے کے لیے یکساں تعلیم دینا ہوگی۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نے تحقیق کو فراموش کردیا تو پرِکاہ کی طرح روند دیے جائیں گے۔ زراعت کو ترجیح اول بنانا ہوگا کہ یہ ہمارا آخری سہارا ہے، قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی۔ میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا بے لگام رہا تو معاشرہ برباد ہوگا اورقوم ایک بے سمت ہجوم میں بدل جائی گی، ہماری قومی زبان اردو ہماری تہذیب اور اقدار کی پاسبان ہے اسے فوری طور پر عدالتی اور دفتری زبان بنانا ہوگااور حکومت کو ایکسپورٹرز کا ہاتھ تھامنا ہوگا۔
سب سے اہم اور سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ گھر اور اسکول کی تربیت گاہوں کو فعال کیا جائے۔ تجربہ کار ٹرینرز اورAnthropologists، والدین اور اساتذہ کو بچوں کی تربیت کا طریقہ اور ہنر سکھائیں، والدین اور اساتذہ کو یہ ہدف دیا جائے کہ وہ ایک مشن سمجھ کر بارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے، حرام، جھوٹ، چوری، قانون کی خلاف ورزی، نشہ، فراڈ اور cheating سے نفرت اور حلال، سچ، ڈسپلن، دین کی محبت، قانون کی پابندی، بڑوں کے احترام کی اہمیت اور محبت بچوں کے رگ و پے میں اتار دیں۔ محکمہ تعلیم کے افسران کے ذمے لگایا جائے کہ ماہرین سے ایک منٹ سے پانچ منٹ دورانیے کی سبق آموز اور motivational وڈیوز بنوائیں (بہترین وڈیوز بنانے والوں کو انعامات دیے جائیں) جنھیں والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت کے لیے استعمال کریں۔
حکومت میڈیا کو باور کرائے کہ وہ صرف infotainment تک ہی محدود نہ رہے بلکہ قوم کو educate کرنے کا کام بھی کرے۔ آج ہمارے بچوں اور نوجوانوں کی سوچ اور پسند و ناپسند بنانے اور بگاڑنے کی ذمے داری ٹی وی اور موبائل اسکرینوں کے پاس چلی گئی ہے۔
ترکی اور سنگاپور کی طرح غیراخلاقی اور ضرررساں مواد بلاک کردیا جائے۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے ڈرامے، فلم اورcomedy پروگراموں کے contents پر کوئی چیک نہیں۔ کل صبح ایک چینل کے رپورٹر نے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں سے مختلف ٹی وی ڈارموں کے بارے میں پوچھا تو 99% نے انھیں معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا، معروف ایکٹروں قوی خان اور ماہرہ خان نے بھی بعض ٹی وی ڈراموں کے مواد کو منفی اور ہماری اقدار کے منافی قرار دیا۔ میرے خیال میں جناب انور مقصود، عطاالحق قاسمی، مجیب الرحمن شامی، امجد اسلام امجد، نور الھدٰی شاہ، انیق احمد، قوی خان اور ماہرہ خان پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی جائے۔
جو ٹی وی ڈراموں کوmoniter کیا کرے۔ اسی طرح نئی نسل کو کیا پڑھانا ہے اس کا فیصلہ بھی دین اور ملک سے محبت کرنے والے صاحبانِ علم ودانش پر مشتمل کمیٹی کرے۔ یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ترکی یا ایران میں تعلیمی نصاب یورپ سے بن کر آتا ہو۔ بھارت میں تو اے لیول اور اولیول کے علیحدہ سسٹم کی سرے سے اجازت ہی نہیں دی گئی، تعلیمی نصاب کا فیصلہ صوبائی حکومتیں یا کیمرج یونیورسٹی نہیں کرتی بلکہ اس کا فیصلہ بھارت کی مرکزی حکومت کرتی ہے اور ملک کے تمام ہندی، انگریزی، فرانسیسی، اردو، بنگالی میڈیم اسکول پابند ہیں کہ وہی مواد نوجوانوں کو پڑھائیں گے جو ریاستِ ہندوستان کے زیرِ نگرانی صاحبانِ دانش تیارکریں گے۔
فوری طور پر کرنے کا کام یہ ہے کہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار اور نظریات کے وارثوں پر مشتمل نئی نصاب کمیٹی تشکیل دی جائے جوہر لیول کا نصاب تیار کرے جسے ملک کے تمام تعلیمی ادارے یعنی گورنمنٹ اسکول، دینی مدرسے اور انگلش میڈیم اسکول پڑھانے کے پابند ہوں۔
بھارت میں جب پنڈت نہرو سے پوچھا گیا کہ آپ کے ہاں درجنوں کلچر، درجنوں زبانیں اور بے شمار صوبے ہیں، سب کو اکٹھا کون رکھے گا تو ان کا جواب تھا "ہماری یکساں تعلیم ایک ایسی زنجیر ہوگی جو پورے ملک کو اکٹھّا رکھے گی اور ایک قوم بنائے گی۔ " تعلیم کے ضمن میں دوسرا اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ فوری طور پر مفکّرِ پاکستان علّامہ اقبالؒ کا حیات آفریں کلام جسے ماضی میں احساسِ کمتری کے مارے ہوئے حکمرانوں نے دباؤ کے تحت خارج کردیا تھا اسے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ نوجوان احساسِ کمتری سے باہر نکلیں اور ان کے دل ودماغ خودی، خودداری اور فکرِ بلند کے نور سے منور ہوسکیں۔
تیسرا یہ کہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کا انتخاب بہت چھان پھٹک کر کیا جائے، اُن کی ڈگریوں سے زیادہ ان کی انتظامی صلاحیتیں پیشِ نظر رکھی جائیں۔ یونیورسٹیوں کو ریسرچ کے لیے فراخدلی سے فنڈز دیے جائیں اور یونیورسٹیوں کا مقامی انڈسٹری کے ساتھ قریبی رابطہ استوار کیا جائے۔ آخری یہ کہ نوجوان طلبا وطالبات کو ہنرمند بنانا حکومت کی ترجیح اول بنے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح صرف 75 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے نوجوان ہی یونیورسٹیوں میں داخلے کے حقدار قرار پائیں، باقیوں کو ووکیشنل اور ٹیکنیکل اداروں میں بھیج کر ہنرمند بنایا جائے، اگر ہم ایسا کر پائیں تو ہماری یوتھ (جو ہماری آبادی کا 60 فیصد حصہ ہے) اس ملک کے لیے سونے اور تیل سے بڑا سرمایہ ثابت ہو گی۔
بہت سی باتیں ہمارے لیے باعثِ شرم ہیں مگر اس قدر ہموار اور زرخیز زمین کے ہوتے ہوئے زرعی اجناس درآمد کرنا ایک شرمناک ناکامی ہی نہیں ناقابلِ معافی جرم بھی ہے۔ ہماری زراعت مجرمانہ چشم پوشی کا شکار ہوئی ہے، اسے اٹھایا جاسکتا ہے مگر ضروری ہے کہ یہ صوبائی حکومتوں کی ترجیح اول بنے۔ سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ قابلِ کاشت رقبے پر ہاؤسنگ کالونی بنانا جرم قرار دیا جائے جس کی سات سال سزا ہو۔
کاشتکاروں میں یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر پیداوار بڑھانے کے مقابلے منعقد کرائے جائیں اور جیتنے والوں کو نقد انعام دیے جائیں۔ کاشتکاروں کو قرضوں میں الجھانے کے بجائے انھیں بھارت کی طرح بجلی، تیل اور کھاد سستے داموں فراہم کی جائے اور انھیں رسوا کیے بغیر ان کی جنس کھیت سے اُٹھالی جائے۔ کسی بھی ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے قانون کی حکمرانی پہلی اینٹ یا بنیاد کی حیثیّت رکھتی ہے۔
قانون کی بالادستی منوانے اور دلوں میں اس کا احترام پیدا کرنے کے لیے ایک تو بچپن سے ہی اسے ذہنوں میں جاگزیں کرنے کی ضرورت ہے، دوسراجج صاحبان اور سول سرونٹس کا معیار بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی صرف جوڈیشل سروس آف پاکستان کے ذریعے کی جائے۔ جوڈیشل کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی سب ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ فی الحال ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے نیک نام ریٹائرڈ جج صاحبان پر مشتمل سرچ کمیٹی کے ذریعے ججز کا انتخاب ہو اور اس کے لیے سب سے زیادہ اہمیت intigrity اور کردار کو دی جائے۔ انتظامی افسران میں ایمانداری کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے، عوام کو ان کی ذہانت یا انگریزی میں استعداد سے کوئی غرض نہیں ہے، انھیں ایک دیانتدار اور ہمدرد انتظامیہ کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ مستقبل کے با اختیار افسروں کے پس منظر کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے کس ماحول میں نشوونما پائی ہے۔ وہاں کا value system کیا تھا اور حلال اور حرام کی تمیز کس قدر تھی۔ یہ ملک تب رہنے کے قابل ہوگا جب کچھ جرائم ناقابلِ معافی قرار پائیں گے، جب معصوم بچوں کے اغوا اور گینگ ریپ کی طرح دوائیوں اور اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کرنے والوں کو سرِعام پھانسی دی جائے گی۔ بیرونِ ملک جرم کرکے ملک کو بدنام کرنے والوں کو واپس بلواکر سزائے عمر قید دی جائے گی اور اس کے سارے کنبے کے پاسپورٹ ہمیشہ کے لیے ضبط کرلیے جائیں گے۔
حکمران اور سرکاری حکام پر لازم ہوکہ وہ سادہ طرزِ زندگی اختیار کریں، پانچ سال تک وزیرِاعظم اور تمام وزراء اور فیڈرل سیکریٹری 1300CC کی کار استعمال کریں اور چھوٹے گھروں میں رہیں۔ گورنر ہاؤسز کے سامنے دو کنال اور ضلعی اور ڈویژنل حکام کی رہائش گاہوں کے سامنے ایک ایک کنال چھوڑ کر باقی زمین بیچ کر اُسی شہر کی سڑکوں اور سیوریج سسٹم کو ٹھیک کیا جائے۔
یہ سب کچھ کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوم، سیاست، عدالت اور عسکری اداروں کی قیادت کو ایک جگہ بٹھائے گی، گرینڈ ڈائیلاگ ہوگا، نیا چارٹر تشکیل پائے گا، جن کا تکبر اور انا آڑے آئے گی وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے۔ جناحؒ اور اقبالؒ کا پاکستان پھراُٹھے گا، ایک شاد و آباد، مستحکم اور خوشحال ملک کے طور پر پھر اُبھرے گا اور اپنا آپ منوائے گا۔