Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aah, Amjad Islam Amjad Rukhsat Ho Gaye

Aah, Amjad Islam Amjad Rukhsat Ho Gaye

اہلِ علم و دانش روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں جو معاشروں کو حکمت اور دانائی کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ ان چراغوں کے بجھ جانے سے معاشرے تاریک ہوجاتے ہیں، محترم امجد اسلام امجد صاحب کے اُٹھ جانے سے بلاشبہ ہمارے ہاں تاریکیوں میں اضافہ ہوگا۔

وہ قوم کا قیمتی سرمایہ تھے، ان کا انتقال بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔ اشفاق احمد صاحب کے بعد ہمارا ملک سب سے بڑی ادبی شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔

احمد فرازؔ کو ان کی رومانوی شاعری کے باعث بہت مقبولیت حاصل ہوئی، خصوصاً نوجوانوں میں ان کی مقبولیت کا تو میں عینی شاہد ہوں۔ فراز ؔکے بعد عصرِ حاضر کے سب سے مقبول رومانوی شاعر امجد اسلام امجد تھے جو ہر عمر کے لوگوں میں پسند کیے جاتے تھے۔

کسی کالج یا یونیورسٹی کی تقریب ہو یا سنجیدہ قسم کے خواتین و حضرات کا مشاعرہ، امجد صاحب کو ہر جگہ یکساں پذیرائی ملتی تھی اور خوب داد ملتی تھی۔

ان کی شاعری میں محبت کے فطری جذبات کا اظہار ہوتا ہے اُس میں ایک فطری پاکیزگی نظر آتی ہے۔ جس میں ننگا پن اور بازاری پن بالکل نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں اظہار کی جدت ہے وہاں حب الوطنی کی حدت بھی فراواں ہے۔

وہ وطنِ عزیز سے، پاکستانی کلچر سے اور اپنی اعلیٰ اقدار سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں امید اور رجائیت کی روشنی بھی بہت نمایاں ہے۔

ان کے اشعار میں تازگی اور گفتگو میں شائستگی اور شگفتگی ان کی شخصیت کے وہ نمایاں پہلو تھے جن سے انھیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔

امجد صاحب کی شاعری بھی انھیں تادیر زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی، مگر انھوں نے ڈرامہ نگاری میں بھی بڑے معرکے سر کیے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اس میدان میں قدم رکھا تو سب کو مات دے دی۔

ان کے ٹی وی ڈرامہ "وارث" نے مقبولیت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ پی ٹی وی سے "وارث" کی قسط جس روز چلتی تھی اس روز باقی تمام پروگرام لاوارث ہوجاتے تھے، سڑکیں ویران اور بازار سنسان ہوتے میں نے خود دیکھے ہیں۔

سنا ہے کہ بھارت میں بھی وارث دیکھنے کے لیے سڑکوں اور بازاروں کا یہی حال ہوتا تھا۔ وہاں بھی لوگوں کی وارفتگی کا عالم دیدنی ہوتا تھا، ایسی مقبولیت پاکستان کی تاریخ میں کسی ٹی وی ڈرامے کو حاصل نہیں ہوسکی۔ امجد صاحب کا دوسرا ڈرامہ "سمندر" بھی بہت مقبول ہوا۔

امجد صاحب سے میرا تین دہائیوں کا تعلق تھا، عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کی ادبی دوستی بڑی معروف تھی، دونوں"جڑواں دوست" تھے۔ دونوں بڑے زندہ دل اور خوش گفتار تھے، ہر جگہ اکٹھے قہقہے بکھیرتے نظر آتے۔

راولپنڈی کے بعد میری تعیناتی لاہور ہوئی تو اِس ادبی جوڑی سے تعارف ہواجو بعد میں دوستی میں بدل گیا اورپھر یہ دوستی ہمیشہ قائم رہی۔ قاسمی صاحب سے ملاقاتیں کچھ زیادہ ہوتی تھیں مگر امجد صاحب سے بھی تعلق اسی طرح قائم رہا۔

انھوں نے اپنے ڈراموں کی تقریبات میں مجھے دوبار اظہارِ خیال کے لیے مدعو کیا جو میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی وہاں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں ظریفانہ گفتگو کی جس کی توقع سے زیادہ داد ملی، اس سے میرا جھاکا کھل گیا اور میں نے بڑی تقریبات میں بھی Light humrous گفتگو کرنا شروع کردی۔

سروس کے آخر میں جب میری پہلی کتاب چھپی تو میں نے دونوں دوستوں کو دعوت دی، عطاء الحق قاسمی صاحب تو پہنچ گئے اور اظہارِ خیال بھی کیا مگر امجد اسلام امجد صاحب ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے نہ آسکے۔

2018میں میری دوسری کتاب "دوٹوک" چھپی تو میں نے انھیں فون کیا اور کتاب کی تقریبِ رونمائی میں اظہارِ خیال کرنے کی درخواست کی، انھوں نے فوراً وعدہ کرلیا اور خوب نبھایا۔ کتاب پر کالم بھی لکھا، تقریب میں مضمون بھی پڑھا اور آخر تک الحمراء میں موجود رہے، اس کے علاوہ ہم اخبار فیلو بھی تھے، ہم دونوں کئی سالوں سے ایک ہی اخبار کے لیے کالم لکھ رہے تھے۔

وہ اپنی بدلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں تو مشہور تھے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اعلیٰ پائے کے روشن ضمیر دانشور تھے اور ملک کو درپیش مسائل پر بڑی معیاری گفتگو کرتے تھے۔

جب بھی کسی فورم پر نوجوانوں کے لیے تعلیمی نصاب یا میڈیا کے ذریعے کردار سازی کے لیے کسی کمیٹی کی تشکیل کی بات ہوتی تو فوری طور پر اس کے لیے امجد اسلام صاحب کا نام زبان پر آجاتا۔

وہ تعلیمی نصاب اور میڈیا میں انقلابی اصلاحات لانے کے لیے قومی سطح پر قائم کی جانے والی کسی بھی کمیٹی کی سربراہی کے لیے موزوں ترین شخصیت تھے۔

ان کا لبرل قسم کے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بہت تھا مگر انھوں نے اپنی شاعری یا دیگر تخلیقات کو دہرّیت وغیرہ کی آلودگی سے ہمیشہ پاک رکھا ہے۔

ایک بار ان کے ساتھ بڑے شاعروں کے بارے میں بات ہورہی تھی تو کہنے لگے کہ "بہت سے شاعر اچھے ہیں، کئی بہت اچھے بھی ہیں، کئی تو کمال کے شاعر ہیں مگر عظیم کا لفظ صرف اقبالؔ کے ساتھ ہی جچتا ہے، جسکی ہر نظم غیر معمولی ہے اور جس کی ہر کتاب ادبِ عالیہ کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ "

اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی یا فون پر بات ہوتی میں ان سے فوراً پوچھتا تھا کہ "امجد صاحب آپ نے ڈارامہ لکھنا کیوں چھوڑدیا ہے؟ قوم وارث، کے خالق سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس قسم کے چند مزید ڈرامے لکھے" مگر وہ کہتے تھے کہ پرائیوٹ چینل کھلنے سے فیصلہ کن پوزیشن سیٹھ کی بن چکی ہے۔

وہ جس طرح کا اسکرپٹ چاہے گا ڈراما نویس اسی طرح کی کہانی لکھے گا، اور وہ رائٹرز سے ایسی کہانیا ں لکھواتا ہے جو معاشرے کے پست ترین طبقے کے گھٹیا ذوق کی تسکین کا باعث بن سکے۔

اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ پرائیوٹ چینلوں پر چلنے والے ڈراموں میں مقدس ترین رشتوں کا تقدس پامال کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے۔ اب تو ٹی وی چینلوں پر رمضان میں اور یومِ آزادی پر بھی کسی اسکالر یا دانشور کے بجائے، ناچ گانے والی خواتین کو ہی بلایا جاتا ہے۔

چند روز پہلے رات گئے کسی چینل پر ایک مزاحیہ پروگرام (جس کا اینکر بھارت کا جدی پُشتی غلام لگتا ہے) میں امجد صاحب نظر آگئے۔

خوشی ہوئی کہ ان کی شاعری اور ڈرامے پر بات ہوگی مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اس میں ان کے مقام کا بلکل خیال نہیں رکھا گیا بلکہ ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا جو انتہائی قابلِ مذمّت ہے۔ آخر میں امجد صاحب کے چند اشعار ملاخطہ کیجیے:۔

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے

تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے

کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خوشبو کہ جس کے ہونے کا

تمام عالمِ موجود استعارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے

یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے، ہم تم!

مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امجد صاحب کی مغفرت فرما کر انھیں جنت میں بہت اچھی جگہ عطا فرمائیں اور اُنکے اہلِ خانہ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے صبر اور حوصلہ عطا فرمائیں۔

لو جی ضیا محی الدین بھی انتقال کرگئے، اِدھر معیشت کا دم گھٹ رہا ہے اُدھر علم و دانش کے چراغ بجھ رہے ہیں، رحم یا الٰہی رحم!

نوٹ: ترک، سگے بھائیوں سے بڑھ کر پاکستان سے محبت کرتے ہیں، اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے، ہزاروں مرد، عورتیں اور بچّے زلزلہ سے ہلاک ہوچکے ہیں یا ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

شام میں بھی ہمارے ہزاروں مسلمان بہن بھائی ہلاک ہوچکے ہیں، مگر ہم اپنے کھیلوں اور میلوں میں مست ہیں اور پی ایس ایل کی تقریبات دھوم دھڑکے سے منارہے ہیں اور اپنے ناچ گانے پوری دنیا کو دکھارہے ہیں۔

ہماری یہ حرکتیں دیکھ کر ترک اور شامی کیا سوچیں گے، ہم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے غم میں اپنے کھیل اور ناچ گانے منسوخ یا ملتوی کردیتے۔ ہم کیسی قوم بن چکے ہیں، بے حس اور صرف کرکٹ اور ناچ گانے کے پجاری!