"آپ کچھ عرصہ مزید لکھنے لکھانے کا کام کرتے رہے تو آپ بھی بغیر پڑھے ہوئے کتاب پر تبصرہ لکھنے کا فن سیکھ جائیں گے"مگر میں تو کتاب پڑھتا ہوں پھر اس کا message سمجھتا ہوں اور اس کے بعداس پر کچھ لکھنے کی ہمّت کرتا ہوں"۔ "آج سے برسوں پہلے ہم بھی ایسی ہی مشقت سے گزرا کرتے تھے، مگر تجربے نے بہت کچھ سکھادیا ہے۔
اور پھر اس مصروف دور میں پوری کتاب کھنگالنے کا وقت کس کے پاس ہے! اب ہم نئی کتاب پڑھتے نہیں، ٹٹولتے ہیں جس پر صرف دس منٹ لگتے ہیں۔ جتنا وقت آپ پوری کتاب پڑھنے پر صَرف (یا ضایع) کرتے ہیں اتنے وقت میں تو میں درجن بھر تبصرے لکھ کر کئی ادیبوں کو بھگتا دیتا ہوں۔ "
سینئر کالم نگار اور جید نقاد سے یہ مفید ٹپس سننے کے باوجود میں محترم اظہار الحق صاحب کی کتابوں پر دس منٹ والا نسخہ آزمانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ وجوہات کئی ہیں، ایک تویہ کہ اُن سے دیرینہ تعلقات ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کی تحریریں بڑی Educative ہوتی ہیں اور ہر عمر کا قاری ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ کونسا کالم نگار ملکی حالات کا ذاتی مفادات، تعلقات اور تعصبات سے بے نیاز ہوکر تجزیہ کرتا ہے تو میں سب سے پہلے اظہار الحق صاحب کا نام لوں گا۔ وہ بھی لاکھوں لوگوں کی طرح ملک میں بہتری اور خوشگوار تبدیلی کے خواہاں تھے اور انھوں نے بھی عمران خان صاحب سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں، مگرانھیں نہ عمران خان سے کوئی ذاتی لالچ تھا اور نہ ہی اس کے مخالفین سے کوئی عناد، جب ان کی اُمیدوں کا مرکز چشمہ آبِ حیات کے بجائے محض سراب نکلا تو اظہارالحق صاحب ایک جینوئن دانشور ہونے کے ناتے اپنے سابقہ موقف پر اڑے نہیں رہے بلکہ انھوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا اور جس پرجوش انداز میں وہ کپتان کی حمایت کیا کرتے تھے اسی زور دار انداز میں وہ اُس پر تنقید کرنے لگے۔
ایک تعلیم یافتہ صاحبِ دانش اور اندھے پیروکار میں یہی فرق ہوتا ہے، صاحبِ فہم و دانش اپنی رائے بدل بھی لیتا ہے، مگر متعصب اور اندھا پیروکار اپنے لیڈر میں ہزار خامیاں دیکھنے کے بعد بھی اسی کا پرستار رہتا ہے۔
اظہار الحق صاحب نے اپنی نئی کتاب بھیجنے کے چند روز بعد فون کرکے دریافت کیا کہ "کتاب مل گئی ہے؟" میں نے جواب میں اپنی علمی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کتاب تو مل گئی ہے مگر اس کا ٹائٹل ناقابلِ فہم سا ہے، اس لیے بغیر پڑھے الماری میں رکھ دی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ "عاشق مست جلالی" کی اصطلاح سندھ کے فوک گلوکار علن فقیر نے اپنے ایک گیت میں استعمال کی ہے۔ انھوں نے اس کی مزید وضاحت کی تو ہم نے کتاب الماری سے نکال لی۔ جب پڑھنا شروع کی تو انتہائی دلچسپ، پُرمغز اور معلومات افزاء نکلی۔
میری طرح دیہاتی پس منظر رکھنے کے ناتے مصنف نے اُس سیدھی سادھی اور پر خلوص زندگی کو بڑی چاہت کے ساتھ بار بار یاد کیا ہے جب اُس پر نئی تہذیب کا غازہ نہیں چڑھا تھا اور احساسِ مروت کو کچلنے کے لیے برقی آلات ابھی دیہاتوں تک نہیں پہنچے تھے۔
ان کے اکثر مضامین سے یہ حسرت ناک آواز سنائی دیتی ہے کہ کیا وقت تھا جب ہم ایک ساتھ رہا کرتے تھے، جب پورا گھرانہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا، چھت پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی چارپائیوں پر سوتے تھے۔
جب گاؤں میں کوئی دودھ نہیں بیچتا تھا، جب ضرورت مندوں کو زمینداروں کے گھر سے سو فیصد خالص دودھ اور گھی مفت مل جایا کرتا تھا۔ جب دیہاتوں میں اخلاص اور ایثار کی فراوانی تھی۔ یورپ نے کمپیوٹر لانچ کیا تو اس نے فوری طور پر دو اہداف حاصل کرلیے، ایک تو اپنی پراڈکٹ بیچ کر مال کمایا اور دوسرا گھر کے ہر فرد کو انفرادیت کی بے مقصد اور بے منزل راہ پر لگاکر باہمی رشتوں اور مستحکم فیملی سسٹم کو توڑ کر رکھ دیا۔
کیا زمانہ تھا کہ سب ساتھ رہا کرتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں ہوتا ہے
بڑے لوگ، کے عنوان کے تحت مصنف نے سوڈان کے ڈاکٹر حسن ترابی کے نظریات شیئر کرکے قارئین کی معلومات میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن ترابی نے خرطوم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لینے کے بعد سوربون یونیورسٹی پیرس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عربی ان کی مادری زبان تھی، انگریزی، فرانسیسی ا ور جرمن روانی سے بولتے تھے۔ صدر جعفرنمیری کے دور میں اٹارنی جنرل بھی رہے۔
1990-91 میں عرب اینڈ اسلامک کانگریس بنائی اور پورے عالمِ اسلام سے شیعہ اور سنی تنظیموں کو اکٹھا کیا۔ ڈاکٹر ترابی نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، تین سال لیبیا میں جلاوطن بھی رہے۔ مضمون میں ان کے ایک متنازع انٹرویو کے چند اقتباس بھی دیے گئے ہیں، جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو کھلے ذہن اور اس احساس کے ساتھ ڈاکٹر ترابی کا نقطہ نظر ضرور جاننا چاہیے کہ اسلام ہر زمانے میں قابلِ عمل ہے۔
س۔ کیا آپ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شادی شدہ عورت اسلام قبول کرنے کے بعد غیر مسلم شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے؟ ج۔ اس مسئلے کو اجتہاد کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک امریکی عورت قبولِ اسلام کے لیے ایک اسلامی مرکز میں گئی، اسے بتایا گیا کہ وہ قبولِ اسلام کے بعد شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی، خواہ اسے بچوں کو بھی چھوڑنا پڑے۔
ان حضرات نے بالکل نہیں سوچا کہ ابھی تو وہ پہلا قدم اُٹھارہی تھی، اس رویے سے تو عورتیں مسلمان ہونے سے گریز کریں گی۔ مجھے خاصی تحقیق کرنا پڑی اور فقہ کی بہت سی کتابیں پڑھنا پڑیں۔ قرآن و سنت میں ایسی شادیوں کے خلاف مجھے ایک لفظ نہیں ملا۔ میرا موقف یہ تھا کہ وہ عورت مسلمان ہونے کے بعد اپنے غیر مسلم شوہر کے ساتھ ہی رہتی تو شوہر کے قبولِ اسلام کی وجہ بن جاتی۔
س۔ آپ نے ایک اور متنازع بات کہی ہے کہ گواہی میں مرد اور عورت برابر ہیں؟
ج۔ بھائی! جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس میں قرضے کو ضبطِ تحریر میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس میں حکم ہے کہ ایک لکھنے والا ہو اور معاہدے کی تصدیق کے لیے گواہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "عورتوں میں سے ایک بھو ل نہ جائے" یہ نہیں فرمایا کہ وہ یقیناً بھول جائے گی۔
ایک اور مقام پر کلامِ پاک میں دو انصاف پسند گواہوں کی بات کی گئی ہے جو کسی کی موت پر گواہی دیں گے۔ یہاں جنس کی تخصیص ہی نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان میں کسی کی موت کے وقت زیادہ امکان یہ ہے کہ خواتین اس وقت پاس ہوں گی۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی گواہی کے لیے ایک ہی معیار ہے۔ "
بڑے لوگوں کا ذکر ہو اور اقبالؒ کی بات نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں، "ایک بار کشمیر سے ایک پیرزادہ علامہ اقبالؒ سے ملنے آیا۔ وہ پڑھا لکھا اور سمجھدار لگتا تھا۔ آپ کو دیکھ کر وہ زاروقطار رونے لگا، ڈاکٹر صاحب نے سمجھا وہ مصیبت زدہ اور مدد کا طالب ہے۔
اس نے بتایا اسے مدد کی ضرورت نہیں، اس پر خدا کا بڑا فضل ہے، آنے کا مقصد پوچھا گیا تو نوجوان کہنے لگا کہ "نوگام میں میرا گھر ہے، میں نے عالم کِشف میں نبی کریمﷺ کا دربار دیکھا۔ جب دربارِ رسالت مآب میں نماز کے لیے صف کھڑی ہوئی تو سرورِکائناتؐ نے پوچھا "محمد اقبال آیا ہے یا نہیں؟"وہ موجود نہیں تھا، اس پر ایک بزرگ کو اقبال کے بلانے کے لیے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان آدمی جس کی داڑھی منڈی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا، صف میں داخل ہو کر حضور سرورِ کائنات کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا۔
جب میں نے ایک مشہور بزرگ نجم الدین صاحب سے یہ قصہ بیان کیا تو انھوں نے آپ کی نشاندہی فرمائی۔ سو محض ملاقات کے لیے کشمیر سے آیا ہوں۔ آپ کو دیکھ کر میرے کشف کی تصدیق ہوگئی اور مجھے بے اختیار رونا آگیا۔ " اظہار الحق صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ علّامہ اقبالؒ نے 1935 میں صوفی غلام مصطفی تبسم کو کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطۂ نگاہ سے زمانۂ حال کے قوانین پر تنقیدی نگاہ ڈال کر دنیا کے سامنے احکامِ قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا۔
دین اسلام کا مجدد کہلائے گا۔ " ایک بار جب ضبطِ تولید کے بارے میں پوچھا گیا تو علامہ نے فرمایا " اصولِ شرعی یہ ہے کہ بیوی اولاد کی خواہشمند نہیں تو خاوند اسے اولاد پیدا کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ "
بہت سی دوسری معیاری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی بک کارنر (جہلم) نے شایع کی ہے اور طباعت کے اعلیٰ معیار کی روایت قائم رکھی ہے۔
نوٹ: پرسوں ہونے والے بے مقصد انتخابات کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی اکثریت میں دو کا اضافہ ہوگیا ہے اور چھ نشستوں پر دوبارہ انتخاب ہوگا۔ ایک نشست کے انتخاب پر الیکشن کمیشن اور حکومت کے (یعنی غریب عوام کے) آٹھ سے دس کروڑروپے خرچ ہوتے ہیں۔
کیا ہماری بیمار اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اس طرح کی بے فائدہ مگر مہنگی لگژری کی متحمل ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ فوری طور پر قانون سازی ہونی چاہیے کہ ایک شخص کو صرف دو سیٹوں پرالیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی اور جیت کر سیٹ چھوڑنے کی صورت میں وہ فی سیٹ دو کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کا پابند ہوگا۔