یہ چند ماہ پہلے کا قصہ ہے چار افسروں کے بچوں کی شادیاں اتفاق سے ایک ہی روز ہورہی تھیں اور میں چاروں میں مدعو تھا۔ شادی کے چاروں کارڈز کو میں بار بار لفافوں سے نکال کر دیکھتا، تاریخ اور وقت پر نظر ڈالتا اور پھر بند کردیتا، عجیب اتفاق تھا کہ دن بھی ایک تھا اور وقت بھی ایک۔ میں اس مخمصے میں تھا کہ کس کی شادی میں شرکت کی جائے، اور کس سے معذرت کی جائے، میں انھی سوچوں میں گُم تھا کہ لاہور سے دو خاص مہمان آپہنچے، دونوں نہایت زیرک اور دنیاداری کے بے حد سیانے بلکہ ماہر تھے۔
ایک کو اُس کی دنیاداری میں سمجھداری کی وجہ سے اس کے دوست "حاجی صاحب" کہتے ہیں اور دوسرا نازک مرحلوں پر صائب مشورے دینے کے باعث اپنے کولیگز میں"پیرجی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دونوں نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا کیا بات ہے، آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں، یا تو آپ کا کوئی جاننے والا افسرمعطل ہوگیا ہے یا او ایس ڈی بن گیا ہے، میں نے کہا یہ درست ہے کہ عمران خان صاحب کے زیرنگیں بڑے صوبے میں حکمران ہرروز کچھ باضمیر افسروں کو او ایس ڈی بنا کر ہی ناشتہ کرتے رہے ہیں مگر آج وجہ کچھ اور ہے۔
انھوں نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا "کارڈ چار ہیں اور بندہ ایک، کہاں جاؤں اور کہاں نہ جاؤں؟" بعد از استقبالیہ کلمات، میں نے ہردو سیانوں کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا "حاجی صاحب آپ کے بارے میں سب کا یہی خیال ہے کہ آپ پولیٹیکل سائنس میں تو ایم اے پاس ہیں مگر دنیاداری کے معاملات میں آپ نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔
مجھے آج کوئی ایسا مشورہ دیں کہ سارے گھر راضی رہ جائیں اور کوئی ناراض نہ ہو۔ " کہنے لگے " آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے بڑے اہم مرحلوں اور نازک موڑوں پر پولیس افسروں کو ایسے مشورے دیے ہیں۔
جن کی وجہ سے درجنوں افسرسزا کے علاوہ دیگر دنیاوی نقصانات سے بھی محفوظ رہے ورنہ وہ آج جن جیلوں کے معائنے کے لیے جاتے ہیں، وہیں کسی بیرک میں پڑے ہوتے۔ " میں نے کہا"بجا ارشاد فرمایا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک بیرونی دورے سے واپسی پر میں ایک شرٹ اور ٹائی کا تحفہ آئی جی صاحب کے لیے لے کر جارہا تھا اور آپ میرے ساتھ تھے۔
تب جی او آر کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی میرے فون پر کسی نے نوٹیفیکیشن بھیج دیا کہ آئی جی صاحب کا تبادلہ ہوگیا ہے۔
آپ نے اُسی وقت مجھے اباؤٹ ٹرن ہونے کا مشورہ دے دیا۔ میں بار بار کہتا رہا کہ جس شخص کے لیے گفٹ لیا ہے اصولاً اسی کو دینا چاہیے مگر آپ نے اس موقع پر وہ تاریخی جملہ کہا تھاکہ "الیکشن میں ہارا ہوا سیاستدان، معطل شدہ سیکریٹری اور تبدیل شدہ آئی جی سانگلہ ہل کے مقبرے ہیں۔
جہاں سے کسی کو کوئی فیض نہیں ملتا، بھائی وہ تو کیکر کے درخت ہیں جس پر کوئی پھل نہیں لگتا، انھیں مہنگا تحفہ دینا ایسا ہی ہے جیسے تم کوئی چیز اندھے کنویں میں پھینک دو۔ " مجھے یاد ہے کہ آپ نے وہیں سے کار کی مہاریں موڑلی تھیں اور پھر آپ مجھے جی او آر ہی کے ایک دو اور گھروں میں لے گئے تھے جہاں ہم نے "سابق" آئی جی کے لیے خریدے گئے تحائف اُن افسروں کو دیے جو بعد میں اعلیٰ عہدوں پر پہنچے تھے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ جب خود کئی سالوں کے بعد بیرونِ ملک سے لَوٹے تھے تو آپ ٹائیوں کی بوری بھر کر لائے تھے، جو آپ نے انتہائی سوچ سمجھ کر یعنی افسروں کی اہمیت، اثرورسوخ اور مستقبل میں تعیناتی کے امکانات کو پیشِ نظر رکھ کر تقسیم کیں تھیں۔
(آپ کے کچھ دوستوں نے بعد میں یہ الزام بھی لگایا کہ یورپ میں اتوار کو ہر علاقے میں جو مارکیٹ لگتی ہے جہاں لوگ اپنا استعمال شدہ سامان اونے پونے داموں بیچ دیتے ہیں۔
آپ وہیں سے تول کے حساب سے بیس کلو ٹائیاں لے آئے تھے، وہ تو یہ بھی کہتے تھے کہ اس مارکیٹ میں بیس کلو آٹا دیکر بیس کلو ٹافیاں مل جاتی ہیں) بہرحال وطنِ عزیز پہنچنے کے بعد آپ نے ٹائیوں کی چھانٹی اور گریڈنگ کی تھی، قدرے بہتر ٹائیاں الگ کرکے انھیں مختلف تھیلوں اور لفافوں میں ڈالا گیا اور ان پر مختلف گریڈز کی چٹیں لگائی گئیں۔
آپ نے گریڈ انیس کے کچھ افسروں کو بیس والے تھیلے میں اور کچھ بیس والوں کو انیس کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔ وجہ پوچھنے پر آپ نے بتایا تھا کہ یہ بیس گریڈ کے وہ افسر ہیں جو ایماندار اور باضمیر ہیں اس لیے انھیں کوئی حکومت صوبے کا آئی جی نہیں لگائے گی۔
لہٰذا یہ کس کام کے! اور یہ انیس گریڈ کے وہ افسر ہیں جن کا چال چلن مشکوک اور کریکٹرڈھیلا ہے مگر ان کے روابط بڑے ٹائیٹ ہیں، لہٰذا آئی جی بننے کے امکانات بڑے روشن ہیں۔
بہت سے جونیئر افسر آپ کی حکمت اور دور اندیشی دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے تھے اور وہ اُس وقت سے آپ کے نظریئے پر عمل پیرا ہیں" میں نے پھر کارڈز کے بارے میں مشورہ مانگا تو حاجی صاحب، پیر جی سے مخاطب ہوئے، آپ بھی مشورے سے نوازیں۔ پیر جی نے کارڈ لفافوں سے نکالے، پھر وہ انھیں ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر تاش کے پتوں کی طرح پھینٹنے لگے اور زیرِلب کسی نامعلوم زبان میں ورد بھی کرتے رہے۔
اس کے بعد انھوں نے ایک ماہ بعد ریٹائر ہونے والے سینئر افسر کا کارڈ نکال کر بے دلی سے پھینکتے ہوئے کہا"اسے تو ویسے ہی الگ کردیں"۔ میں نے کہا، پیر جی آپ جانتے ہیں کہ اس نے ساری سروس بڑی دیانتداری سے کی ہے۔
ہمیشہ رزقِ حلال کھاتا رہا ہے اس کے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے، ایسے نیک نام افسروں کی خوشیوں میں تو ضرور شریک ہونا چاہیے۔ "کہنے لگے "رشوت نہیں لیتا رہا تو کونسا کسی پر احسان کرتا رہا ہے، نیک نام ہے تو اگلے جہاں میں اسے اجر مل جائے گا، آج کی حقیقت یہ ہے کہ اِ س جہانِ رنگ و بو میں اب اس کا کردار ختم ہوچکا ہے۔
وہ اب نہ کسی کا کچھ سنوار سکتا ہے نہ بگاڑ سکتا ہے لہٰذا اس کی طرف جانا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ " حاجی صاحب نے بھی پیر جی کے اس صائب مشورے پر اثبات میں بڑے زور سے سرہلایا اور فیصلہ کن انداز میں کہا، نکال دیں اس کو۔ میں نے کہا "مگر میں نے ان کے بیٹے کے لیے کچھ پیسے ڈال کر لفافہ تیار کیا ہوا ہے۔
وہ تو مجھے ضرور پہنچانا چاہیے۔ " دونوں بیک زبان بولے "اگر آپ کے پاس اتنے ہی فالتو پیسے ہیں تو کسی مزار کے گلّے میں ڈال دیں یا الیکشن لڑلیں، کوئی دنیاداری بھی سیکھا کریں، دنیاداری نہ سیکھنے کی وجہ سے آپ کو کبھی ڈھنگ کی پوسٹنگ نہیں ملی۔ " میں نے کہا"اچھا چلیں۔
اب دوسرے کارڈ دیکھیں اور یہ بھی بتائیں کہ (زیادہ پیسوں والا) بڑا لفافہ کسے دیا جائے اور چھوٹا لفافہ کسے پکڑایا جائے۔ " میں نے ایک کارڈ اُٹھاتے ہوئے کہا "یہ نام پڑھ لیں، اس کی شہرت خاصی خراب ہے، میرے خیال میں یہاں نہ بھی جایا جائے تو خیر ہے، اسے چھوٹا لفافہ بھیج دیا جائے اور یہ کارڈ دیکھیں، یہ ایک اعلیٰ کردار کے افسر کی طرف سے آیا ہے، یہ انتہائی دیانتدار اور نیک نام افسر ہے، اس کی بیٹی کی شادی ہے۔
میرا خیال ہے سب سے بڑا لفافہ انھیں دیا جائے۔ " اس پر حاجی صاحب بولے "دیکھیں کسی کی دیانتداری کو آپ نے چاٹنا ہے، آپ نے اسی دنیا میں رہنا ہے اور اس کے لیے ان لوگوں سے بناکر رکھنی ہے جو matter کرتے ہیں اور جن کے ترقی کرنے اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کے روشن امکانات ہیں۔ " "مگر حاجی صاحب بدنام لوگوں کے فنکشنز میں جانے سے تو اپنی عزّت پر حرف آئے گا۔ "
میری اس بات پر حاجی صاحب کہنے لگے "آپ کس صدی کی باتیں کررہے ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کسی کے خلاف تفتیش نہیں کررہے یا نیب کورٹ کے جج نہیں لگے ہوئے کہ دوسروں کی ایمانداری یا بددیانتی کے بارے میں فیصلے کرتے پھریں۔
دوسری بات یہ کہ اچھے لوگ اس کے ہاں جانے سے گریز کرتے ہوں گے،۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر آپ سے بڑا بے خبر شخص اس ملک میں کوئی نہیں۔ پچھلے سال اسی افسر کے بیٹے کی شادی تھی، تمام اعلیٰ افسران اور اسلامی انقلاب کے علمبردار وں سمیت تمام مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ قائدین وہاں موجود تھے، نہ کسی کی شہرت خراب ہوئی اور نہ کسی کے سیاسی اثررسوخ میں کمی ہوئی ہے۔
دیکھیں لوگ سمجھدار ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کی شہرت جیسی بھی ہے اس کے ہر اہم جگہ پر گہرے روابط ہیں، انھی روابط کے باعث وہ آگے بڑھے گا اور ہر اہم عہدہ لے اُڑے گا۔
اسی لیے لوگ اس سے سماجی روابط استوار کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے لیے بھی یہی مشورہ ہے کہ اس کے کارڈ کی تاریخ دل پر لکھ لیں اور اس کے لیے سب سے بڑا لفافہ ابھی سے گاڑی میں رکھ لیں۔ اور ہاں آپ کا بہت دل کررہا ہے تو اُس کارڈ والے نیک نام افسر کو دوسرے روز جاکر مبارکباد دے آئیں اور یہ دوسرے کارڈ والے "نیک نام" کو فون پر ہی مبارک بادکافی ہے۔
کوئی دنیاداری بھی سیکھیں، اگر آپ نے اب بھی دنیاداری نہ سیکھی تو آیندہ صرف موٹیویشنل اسپیکروں کی تقریریں ہی سنتے نظر آئیں گے۔ " پیر جی نے تائیدی بیان جاری کرتے ہوئے کہا "دیکھیں ہمارے مشوروں پر عمل کرنے سے کئی لوگ اہم ترین اداروں میں اہم ترین عہدوں پر پہنچ چکے ہیں۔
لہٰذا ہمارے مشوروں پرعمل کریں یہ نسخے بڑے آزمودہ ہیں" ان کے فضول مشورے سن کر میں اب تنگ آچکا تھا لہٰذا میں نے درشت لہجے میں کہا" آپ کے نسخے آزمودہ سے زیادہ بیہودہ ہیں، ایسی مہارت اپنے پاس ہی رکھیں، ایسی مہارت سے بیوقوفی بہتر"۔