کوئٹہ سے واپسی ہوئی تو یونیورسٹی آف سرگودھا سے دعوت نامہ آگیا۔ اس سے پہلے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی یومِ اقبال کی تقریب کے لیے تاریخ مقرر کرکے مجھے خطاب کی دعوت دی تھی، مگر اس روز میری طبیعت ناساز تھی، اس لیے معذرت کرنا پڑی۔ سرگودھا یونیورسٹی نے میرے لیکچر کے لیے 6دسمبر کی تاریخ مقرر کردی۔
پنجاب میں اِس وقت سرگودھا اُن چند ڈویژنوں میں شامل ہے جہاں پولیس کے ضلعی اور ڈویژنل سربراہ ایماندار اور باضمیر افسر ہیں۔ چند سال پہلے جب کچھ عرصے کے لیے سرگودھا ڈویژن کی کمانڈ مجھے سونپی گئی تو اس وقت اظہر اکرم ڈی پی او خوشاب تھے، وہ آجکل سرگودھا کے ریجنل پولیس افسر ہیں۔
ڈی پی او طارق عزیز کوبھی میں بڑے عرصے سے جانتا ہوں، وہ انتہائی ایماندار اور باکردار افسر ہے۔ دونوں افسروں کی طرف سے تقاضا کیا گیا کہ "سرگودھا آکر آپ یونیورسٹی میں نہیں بلکہ پولیس کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے، دوسرا یہ کہ آپ یونیورسٹی کی تقریب سے فارغ ہوتے ہی واپس نہ چلے جائیں بلکہ شام کو پولیس افسروں سے بھی خطاب کریں" چونکہ دونوں بہت نیک نام افسر ہیں اس لیے ان کی باتیں مان لی گئیں۔
رات کو آئی جی انیکسی میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا جس میں آرپی او اور ڈی پی او کے علاوہ نوجوان اے ایس پی صاحبان سے بھی گپ شپ ہوتی رہی۔ سروس کے آغاز میں کسی اے ایس پی کی کسی نیک نام ڈی پی او کے ساتھ تعیّناتی ہوجائے تو اس کی خوش بختی ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے سرگودھا میں تعیّنات دونوں نوجوان اے ایس پی خوش قسمت ہیں کہ انھیں رزقِ حلال کھانے والے اور عوام کو امن اور انصاف دینے کا عزم رکھنے والے افسروں کی راہنمائی حاصل رہے گی جس سے سروس کے بارے میں ان کا زاویۂ نگاہ اور سمت درست ہوجائے گی۔
یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصرعباس ایک پڑھے لکھے اور شستہ انسان ہیں۔ ان کے اور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے سربراہ ڈاکٹر خالدندیم کے ہمراہ ہم ہال میں پہنچے تو وہ طلباء و طالبات سے بھرا ہوا تھا۔
اگلی قطار میں فیکلٹی ممبران کے ساتھ شہر کی چند معروف اور باذوق شخصیات سے بھی ملاقات ہوئی، جن میں معروف قانون دان جناب نصیر احمد چیمہ اور معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر عمر حیات بُچہ بھی شامل تھے۔
طلباء و طالبات کو ایک گھنٹے کے لیکچر میں فکرِ اقبال کے چند نمایاں پہلوؤں سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس سے پہلے مفکّرِ پاکستان کے بارے میں بتایا گیا کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریّہ بھی علاّمہ اقبالؒ نے دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست یا ملک کا تصوّر بھی سب سے پہلے علاّمہ اقبالؒ نے پیش کیا۔
علیحدہ ملک کی ضرورت اور افادیت کے بارے میں محمد علی جناحؒ صاحب کو قائل بھی علاّمہ اقبالؒ نے کیا اور انھیں لندن سے واپس آکر ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کرنے پر آمادہ بھی اقبالؒ نے کیا۔ بالآخر تحریکِ پاکستان کو فکری بنیاد اور اساس بھی فکرِ اقبال نے فراہم کی، اسی لیے انھیں پاکستان کا نظریاتی باپ کہا جاتا ہے۔
سامعین کو بتایا گیا کہ علاّمہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو اپنا ایمان اور یقین مضبوط بنانے، کردار کو بے داغ رکھنے، اھداف بلند رکھنے اور محنت اور مسلسل جدّوجہدکرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو غیرت، آزادی، خودداری، خودمختاری اور خود انحصاری کا راستہ دکھایا مگر ہم نے وہ راستہ چھوڑ کر احساسِ کمتری، دوسروں کی نقّالی، غلامی، محتاجی اور گداگری کا راستہ اپنا لیا ہے۔
سامعین کو بتایا گیا کہ علاّمہ اقبالؒ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے مغربی تہذیب کے آگے بند باندھا اور مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو بچالیا۔ اقبالؒ اس بات پر بڑے دل گرفتہ ہوتے تھے کہ مسلمانوں نے علم اور تحقیق سے ناطہ توڑ لیا ہے۔
وہ بجاطور پر مسلمانوں کو بتاتے رہے کہ "جب تک علم اور تحقیق تمہاری ترجیحِ اوّل رہا تم دنیا کی سپر پاور رہے۔ جب مسلمانوں نے کتاب پھینک دی اور تحقیقی اداروں پر تالے لگا دیے تو وہ زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرے"۔ علاّمہ سمجھتے تھے کہ علم مسلمانوں کی میراث تھا، مسلمان اس کی حفاظت نہ کرسکے تو یورپین لے اُڑے۔
؎
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خِشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
علاّمہ نے اُمید کا ایسا چراغ جلائے رکھا جس کی لَو کبھی مدہم نہیں ہونے دی، کسی نے مغربی تہذیب کے سیلاب کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
طلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
لوگوں نے آکر ترکوں کی شکست کا رونا رویا تو اُمید دلائی اور روشن مستقبل کی نوید سنائی کہ
؎
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
ظہرانے کے بعد ریجنل پولیس افسر اظہر اکرم اور ڈی پی او طارق عزیز کے ساتھ میں سرگودھا پولیس لائنز کے ہال میں پہنچا تو مجھے چند سال پہلے اسی ہال میں ہونے والی وہ تقریب یاد آگئی جب سرگودھا ڈویژن کی کمان راقم کے پاس تھی اور ہم نے اسی ہال میں یومِ شہداء منایا تھا۔
مرحوم ڈاکٹر رضوان ڈی پی او تھا اور پہلی قطار میں شہداء کی مائیں بیٹھی تھیں، وہیں ایک ایسی عظیم ماں بھی بیٹھی تھیں جن کے دو بیٹے شہید ہوچکے تھے۔
جب ایک صحافی نے ان کے پاس جاکر مائیک آگے کیا تو انھوں نے کہا "میرا ایک پوتا بھی جوان ہے، قوم کے لیے اسے بھی قربان کردوں گی"۔ وہ میری درخواست پر اسٹیج پر تشریف لے آئیں اور تقریب کے اختتام پر تمام باوردی پولیس افسران شہداء کی اس عظیم ماں کو سیلیوٹ کرتے ہوئے ہال سے باہر نکلے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے 2012میں بھی ایسی ہی باتیں کی تھیں اور 6دسمبر 2022 کو بھی ان کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ "پولیس کے دامن میں سب سے قیمتی سرمایہ شہداء کا خون ہے، شہداء اپنے لہو سے پولیس کا دامن صاف کرتے ہیں مگر کچھ بدبخت رشوت خور اپنی حرام خوری اور بداخلاقی سے پولیس کا دامن پھر داغدار کردیتے ہیں۔
ایسا کرنے والے دراصل شہداء کے خون کی توہین کرتے ہیں۔ سب کان کھول کر سن لیں کہ ہم شہیدوں کے لہو کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ راشی اور حرام خور کرپٹ افسر پولیس کی یونیفارم پہننے کے حقدار نہیں ہیں، محافظ کی یونیفارم صرف رزقِ حلال کھانے والوں کے جسم پر سجتی ہے اور وہی یہ مقدّس یونیفارم پہننے کے حقدار ہیں"۔
اس کے بعد انھیں بتایا گیا کہ "ہر ادارہ اپنے کلائینٹ کا اطمینان اور اعتماد چاہتا ہے اور پولیس کا سب سے بڑا کلائینٹ عوام ہیں، آپ کو عام آدمی کی اہمیّت کا ادراک ہونا چاہیے، اسے عزّت بھی دیں اور انصاف بھی۔ جرأت اور بہادری پولیس افسر کی شان اور پہچان ہے، اچھا پولیس افسر وہ ہے جو اپنے علاقے میں شہریوں کے دلوں سے مجرموں کا خوف نکال دے اور مجرموں کے دل میں پولیس کا ڈر ڈال دے"۔ مقدمات کی تفتیش میرٹ اور انصاف پر کرنے اور مجرموں سے برآمد شدہ سامان اور کیش اصل مالکان کو واپس کرنے کے بارے میں بھی تفصیل سے بات ہوئی۔
دوسرے روز اسلام آباد واپس پہنچا تو کور کمانڈر گوجرانوالہ کی طرف سے کور ہیڈ کوارٹرز میں افسران اور ان کی فیمیلیز سے خطاب کا دعوت نامہ موصول ہوا، اس کے علاوہ گوجرانوالہ ڈویژن میں خواتین کے سب سے بڑے کالج کی پرنسپل مسز روبینہ سرور صاحبہ کا فون آیا کہ"ہمارے کالج کا پانچ سال بعد کانووکیشن ہورہا ہے"۔
میں نے کہا"آپ کو مبارک ہو"۔ انھوں نے کہا "ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر آپ مہمانِ خصوصی ہوں"۔ میں نے کہا کہ کانووکیشن پر تو گورنر یا وزیرِ تعلیم وغیرہ کو مہمانِ خصوصی بنایا جاتا ہے، آپ نے کسی حکومتی شخصیّت کو بلانا تھا۔ فرمانے لگیں"میں نے فیکلٹی ممبران کی میٹنگ بلائی تھی، ہر قسم کی تجاویز آئیں مگر اتفاقِِ رائے اس بات پر ہوا کہ اس بار کسی صاحبِ اقتدار کے بجائے کسی صاحبِ کردار کو بلایا جائے، سب نے آپ کا نام تجویز کیا ہے"۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ مجھے ویسا ہی بنادے جیسا آپ سمجھتے ہیں۔
2013 میں جب پاسپورٹ بحران شدّت اختیار کرگیا اور راقم کو اس کا ڈائریکٹر جنرل مقرّر کیا گیا اس وقت کورکمانڈر گوجرانوالہ جنرل عامر صاحب پریذیڈنٹ کے ملٹری سیکریٹری تھے۔
21دسمبر کی شام کو ان کے ساتھ ملاقات میں پرانی یادیں بھی تازہ ہوئیں اور دیگر امور پر بھی بات چیت ہوتی رہی، ان کے ہمراہ آڈیٹوریم میں پہنچا تو ہال فوجی افسروں سے اور گیلری ان کی فیمیلیز سے بھرا ہوا تھا لیکچر کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی بڑا مفید رہا۔ رات کو افسران کی کمپنی اور مہمان نوازی سے لطف اُٹھایا اور دوسرے روز گورنمنٹ کالج برائے خواتین کے کانوووکیشن میں شرکت کی، گوجرانوالہ کی اس عظیم درسگاہ کی سربراہ اور فیکلٹی ممبران کی قابلیّت اور تعمیرِ وطن کے جذبوں نے بہت متاثر کیا۔
کالج کی پرنسپل مسز روبینہ سرور نے سابق پرنسپلز کو بھی بلایا ہوا تھا اور وہ ان کی بے حد ستائش کرتی رہیں، ان کی اس فراخدلی نے بہت متاثر کیا۔
راقم نے اپنی تقریر میں دو باتوں پر زور دیا، ایک یہ کہ "آپ اپنی ڈگری کو دنیائے روزگار میں داخلے کا ٹکٹ نہ سمجھیں، یہ علم کی وہ شمع ہے جسے جلانے کے لیے آپ کی ٹیچرز نے کئی سال تک محنت کی اور آپ کے والدین اور خود آپ نے برسوں مشقّت برداشت کی۔ علم کی اس مشعل سے اور مشعلیں اور چراغ جلائیں تاکہ معاشرے سے جہالت کے اندھیرے ختم ہوں"۔
دوسری یہ کہ "مغربی اور بھارتی تہذیب کے پرچارک پورے لاؤ لشکر کے ساتھ ہمارے ملک میں ہماری بیٹیوں کی حیاء پر حملہ آور ہوئے ہیں، وہ حیاء کے قلعے کو مسمار کردینا چاہتے ہیں مگر مجھے امید ہے کہ اس قوم کی بیٹیاں خود حیاء کے قلعے کی حفاظت کریں گی اور حملہ آوروں کا رخ موڑ دیں گی "۔