نومبر کا سارا مہینہ مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے حوالے سے مختلف جگہوں پر منعقد کی گئی تقریبات میں گذرا۔ حیات اقبال سے آشنا حیرت میں گم ہوجاتے ہیں کہ قدرت نے سرزمین مشرق کے اس عظیم ترین شاعر اور مفکر کو کیسی غیر معمولی صلاحیتیں اور بصیرتیں عطا کی تھیں۔
خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے کاشی نہ سمرقندی
سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی
اس بات پر مورخ، دانشور، سیاستدان، علماء اور تحریک پاکستان کے کارکن سب متفق ہیں کہ ہندوستان میں اقبالؒ کی آواز گونجی تو یوں لگا جیسے صور اسرافیل پھونک دیا گیا ہو جیسے آسمانوں سے اترتی ہوئی آواز سن کر مردے زندہ ہو رہے ہوں۔
اقبالؒ کے حیات افروز اور انتہائی پاور فل پیغام نے مسلمانوں کے مردہ اور پژمردہ ہجوم کو ایک زندہ و تابندہ قوم میں تبدیل کردیا، جسے اپنی منزل بھی نظر آنے لگی اور راستہ بھی صاف دکھائی دینے لگا۔
عالمی کانفرنسوں میں ترک دانشوروں سے ملاقات ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ"پاکستان کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ قوم اس قدر احسان فراموش نکلی ہے کہ اس نے علامہ اقبال جیسے عظیم محسن کو بھلادیا ہے اورتعلیمی نصاب تک سے نکلوادیا ہے" وہ درست کہتے ہیں کہ صرف پاکستان یا برصغیر نہیں، ڈاکٹر محمد اقبالؒ تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے قدرت کا ایک عظیم تحفہ تھے، ایک نہیں کئی ملکوں کی آزادی اقبالؒ کے انقلابی پیغام کی مرہون منت ہے۔
سینٹرل ایشیا کے ملکوں کے عوام جب روسی قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو چوکوں اور چوراہوں پر دس دس لاکھ کے مجمعوں کو آزادی کے جذبوں سے سرشار کرنے کے لیے کسی ترک، تاجک یا ازبک شاعر نہیں بلکہ اقبالؒ کی نظمیں سنائی جاتی تھیں۔
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
ازخواب گراں خیز گراں خیز گراں خیز
حرم کی تعمیر کرنے والو! (یعنی اے مسلمانو!) گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ، اب ایک نئی دنیا کی تعمیر کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔
ایک نہیں کئی ملکوں نے علامہ اقبال کی نظموں کو اپنا قومی ترانہ بنالیا ہے۔ جہاں جہاں بھی اقبال کا حیات آفریں اور انقلابی پیغام پہنچا ہے وہاں اقبالؒ کو قومی شاعر کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اک ولولۂ تازہ دیا تونے دلوں کو
لاہور سے تاخاک بخار اوسمر قند
اقبالؒ کے ذکر و فکر سے اگر کسی نے مجرمانہ چشم پوشی برتی ہے تو وہ پاکستان کی حکومتیں اور میڈیا ہے۔ جنرل مشرّف نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے علامہ اقبالؒ کی جو چند نظمیں تعلیمی نصاب میں شامل تھیں، وہ بھی خارج کردیں۔
راقم نے میڈیا کے کار پردازوں کو کئی بارتحریری طور پر بھی مطلع کیا ہے اور ان کی کوتاہی کی جانب توجہ دلائی ہے مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ اپنے عظیم محسنوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
دشمن ملک میں کسی ایکٹریس کا انتقال ہوجائے یا کسی ڈانسر کی منگنی ٹوٹ جائے تو ہمارے اکثر چینل کئی کئی دن تک پروگرام چلاتے رہتے ہیں مگر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مفکرپاکستان علامہ اقبالؒ پر کوئی ڈھنگ کا پروگرام کرنے کی انھیں کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ یہ احسان فراموشی اس حد تک بڑھی کہ خود مسلم لیگ کی حکومت میں یومِ اقبال کی چھٹی ختم کردی گئی۔
راقم نے اس وقت بھی اپنے کالموں اور تقریروں میں اس کی بھرپور مذمت کی اور آج بھی کرتا ہوں۔ ہمارے سیاسی قائدین میں سے سب سے زیادہ عمران خان دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ اقبالؒ سے inspired ہیں اور ان کی فکر سے رہنمائی لیتے ہیں۔
مجھے ہنرمندی کے قومی ادارے NAVTTCکا سربراہ چونکہ پچھلی حکومت نے مقرر کیا تھا، اس لیے پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ میں اکتوبر 2018میں پرائم منسٹر عمران خان صاحب (جو درجنوں مرتبہ اپنی تقریروں اور ٹاک شوز میں ناچیز کی تعریف و تحسین کرچکے تھے) سے ملنے گیا۔ وہ مجھے بڑے تپاک سے ملے، انھوں نے Skill Development کے سلسلے میں میری تجاویز کو بہت سراہا اور مجھے استعفیٰ دینے سے روکتے رہے۔
استعفیٰ دینے کا میں فیصلہ کرچکا تھا اس لیے دوسرے روز استعفیٰ بھیج دیا مگر اس ملاقات کے دوران میں نے ان سے ایک ہی مطالبہ کیا کہ "آپ علامہ اقبال کی چھٹی بحال کردیں کیونکہ دنیا میں بڑا غلط پیغام جارہا ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنی نظریاتی سمت بدل لی ہے۔
اس لیے انھوں نے اپنے نظریاتی باپ علامہ اقبال کی سرکاری چھٹی بھی ختم کردی ہے" انھوں نے فوراً حامی بھری کہ میں اسے فوراً بحال کردوں گا۔
اس کے چند روز بعد میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے قومی اسمبلی میں یومِ اقبال کی چھٹی بحال کرنے کی قرارداد پیش کی تو پی ٹی آئی کے وزیر نے کھڑے ہوکر اس کی پرزور مخالفت کی یعنی بے شمار دوسرے وعدوں کی طرح عمران خان نے یہ وعدہ بھی پورا نہ کیا۔ اس کے چار سال بعد جب اس سال یومِ اقبال قریب آیا تو شہباز شریف صاحب وزیراعظم تھے۔
اسی طرح میں نے موجودہ وزیراعظم کی توجہ چھٹی ختم کرنے کی جانب دلائی اور اسے بحال کرنے کی ضرورت اور اہمیت بتائی تو پرائم منسٹرنے فوری طور پر چھٹی بحال کرنے کے احکامات جاری کردیے۔
میں نے تجویز دی تھی کہ 9نومبر کو تمام سرکاری دفاتر تو بند ہوں مگر تعلیمی ادارے صبح نو بجے سے بارہ بجے تک کھلے رہیں اور اس دوران ہر تعلیمی ادارے میں یومِ اقبال کی تقریبات منعقد کی جائیں اور طلبا وطالبات کو اقبالؒ کی فکر اور پیغام سے روشناس کرایا جائے۔ امید ہے کہ اگلے سال اس پر بھی ضرور عمل ہوگا۔
اس سال نومبر میں اقبالؒ کے حوالے سے اسلام آباد کی تقریبات عمران خان کے مارچ کی وجہ سے منسوخ یا ملتوی ہوگئیں۔ سب سے پہلی تقریب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں منعقد ہوئی۔ جی سی کے وائس چانسلر زیدی صاحب نے اس عظیم تعلیمی ادارے میں سیاسی جلسہ منعقد کراکے ایک سیاستدان سے سیاسی تقریر کروا ڈالی اور ستم یہ کہ اس عظیم درسگاہ کی روایات کوپامال کرنے کا انھیں ذرا بھی ملال نہ ہوا۔
بہرحال سب سے پہلے جی سی یو کے وائس چانسلر کی طرف سے مجھے فکر اقبال پر طلبا و طالبات سے خطاب کرنے کی دعوت ملی اور اس طرح مفکر پاکستان کے حوالے سے سب سے پہلی تقریب جی سی یو لاہور کے بخاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں لیکچر کے بعد طلباوطالبات سوالات بھی پوچھتے رہے۔
اس تقریب کے انعقاد میں ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر سفیر حیدر اور ان کے کے طلباء و طالبات نے بھر پور حصہ لیا۔ کئی سالوں سے یہ خواہش تھی کہ شہر اقبال میں علامہ اقبالؒ کے حوالے سے ایک بڑی تقریب منعقد ہو، اس سال یہ خواہش پوری ہوئی اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور سیالکوٹ پولیس کے نیک نام ضلعی سربراہ کی کوششوں سے مفکر پاکستان کی خدمات اور ان کے اصل پیغام کے فروغ کے لیے ایک بھرپور تقریب منعقد ہوئی جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب، کالجوں کے سربراہان، بابائے چیمبر شیخ ریاض الدین، نوجوان صدرعبدالغفور ملک، علامہ اقبال کونسل کے صدر خاورانور خواجہ، معروف محب وطن کالم نگار اورشہر کی معروف ومقبول شخصیت محمد آصف بھلی کے علاوہ بڑی تعداد میں علمائ، وکلائ، صنعتکاران، اساتذہ، طلباو طالبات کی نے شرکت کی۔
اسی نوعیت کی بھرپور تقریب گوجرنوالہ چیمبر آف کامرس کے نئے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں شہر کی باکردار اور مقبول شخصیت اور علامہ اقبال کونسل گوجرنوالہ کے صدر ملک ظہیرالحق، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر، تعلیمی درسگاہوں کے سربراہان، ڈویژنل کمشنرغلام فرید، آر پی او منیر مسعود، ڈپٹی کمشنر، سی پی او کے علاوہ شہر کے دانشور، صنعتکار، خواتین وحضرات اور طلباوطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی دونوں تقریبات میں میرا ایک ایک گھنٹے کا لیکچر تھا جوسامعین نے پورے انہماک سے سنا، میرا مشاہدہ ہے کہ واہموں، مخمصوں اور مایوسیوں میں گھری ہوئی نئی نسل جب اقبالؒ کا حیات آفریں پیغام سنتی ہے تو اس کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔
دونوں شہروں میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ شہری اور افسران ملکر نئی نسل کو اقبال کے پیغام سے روشناس کرانے میں بھرپور کردار ادا کریں گے اس دوران کئی اور جگہوں سے بھی لیکچر کے دعوت نامے پہنچ چکے تھے۔ پاک آرمی کے قابل فخر ادارے کمانڈاینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے بھی دعوت نامہ موصول ہو چکا تھا۔
(جاری ہے)