ہمارے دوست بریگیڈیئر محمدبابر صاحب ایک صاحبِ دانش بھی ہیں، جو دردِ دل کے ساتھ حالات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں، چند روز قبل موبائل پران کا ایک میسج یا پوسٹ موصول ہوئی جس میں انھوں نے لکھا ہے "25جنوری کو بی ایل اے کے دہشتگردوں نے بلوچستان کے ضلع کیچ میں آرمی کی ایک چیک پوسٹ پر بڑی دیدہ دلیری سے حملہ کیا، پوسٹ پر تعینات جوانوں کو شہید کر دیااور چوکی کو آگ لگادی۔
آرمی کے جوان بلاشبہ اپنے سے کہیں زیادہ تعداد میں آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ بڑی بے جگری سے لڑے اور آخری گولی اور خون کے آخری قطرے تک سرزمینِ وطن کا دفاع کرتے رہے۔ قوم کو اپنے محافظوں کی بہادری اور جذبوں پر فخر ہے۔
اس کے صرف ایک ہفتے بعد پھر دہشت گردوں نے پنجگور اور نوشکی میں حملے کیے اور سیکیورٹی فورسز کو پھر جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، ان حملوں نے تشویش اور خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ جنرل مشرف کے حکم پرنواب اکبربگٹی کے غیر ضروری اور افسوس ناک قتل(جس سے گریز کیا جا سکتا تھا) کے بعد بلوچستان میں بدامنی کے واقعات میں بہت اضافہ ہواہے۔ نواب اکبر بگٹی پاکستان کے وفادار تھے، ان کے قتل نے بگٹی قبیلے کو عسکریت پسندوں کی طرف دھکیل دیا۔"
بریگیڈیئر بابر مزید لکھتے ہیں "اس صورتِ حال نے کافی بڑی تعداد میں بلوچ نوجوانوں میں بے چینی اور ناراضی کو جنم دیا، کچھ عسکریت کی راہ پر چل نکلے ہیں، انھیں صرف بھارت کی امداد سے کی جانے والی دہشت گردی کا نام دے کر نظر انداز کر دینا مناسب نہ ہوگا۔ بلوچستان کو شروع دن سے بڑے سرداروں اور بیوروکریٹوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی میں ایک منتخب حکومت کو برطرف کردیا اور اس کے بعد مقبول قیادت اُبھرنے ہی نہیں دی گئی۔ بلوچستان کی موجودہ حکمران جماعت BAP اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہے یہ بلوچستان کی آبادی سے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہے۔
عسکریت پسندوں کامنظم گروہ کھلم کھلا شہری آبادیوں میں دندناتا پھرے اور کسی کو خبر نہ ہو، پھر یہی گروہ سیکیورٹی اداروں پر اعلانیہ حملے کرتا ہے جس کے نتیجے میں وطن کے محافظوں کی قیمتی جانیں جارہی ہوں تویہ انٹلی جنس کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ بریگیڈیئر صاحب کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔
"It is a spectacular intelligence failure and someone should take responsibility and be held accountable۔
انھوں نے آخر میں درست لکھا ہے کہ "ریاستِ پاکستان کی کامیابی اس میں ہے کہ عسکریت پسندوں کو مقامی آبادی کی حمایت اور سپورٹ سے محروم کر دیا جائے۔ اس لحاظ سے یہ ایک بیانیے کی جنگ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے ادارے مل کر یہ جنگ کس طرح لڑتے ہیں اور کس طرح ان دہشت گردوں کا ناتا عوام سے کاٹتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وطنِ عزیز ہر قیمت پر یہ جنگ جیتے۔"
2013کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ کو اکثریت ملی تھی مگر اس کی قیادت نے قربانی دے کر پہلے دو سال کے لیے وزارتِ اعلیٰ قوم پرستوں کو دے دی اور ڈاکٹر عبدالمالک جیسا دیانتدار اور مخلص شخص وزیرِ اعلیٰ بن گیا۔ ادھر فوجی قیادت نے بلوچ نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے دروازے کھول دیے، انھیں کیڈٹ کالجوں میں داخلے اور فوج میں نوکریاں دی گئیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علیحدگی پسندوں کی حمایت اور سپورٹ سکڑ کر رہ گئی۔ پھر اس بدقسمت صوبے کو نظر لگ گئی اور بلوچستان میں ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔
ایک منتخب اور مستحکم حکومت ختم کر کے ایک جعلی اور کمزور سی حکومت کھڑی کر کے کونسا قومی مفاد حاصل کیا گیا؟ بلوچستان کے دانشوروں اور میڈیا کا خیال ہے کہ باپ (BAP)کی کمزور اور غیرنمایندہ حکومت بھی ریاست کے باغیوں کو تقویّت پہنچانے کا باعث بنی ہے۔ یونیفارم فورس سے تعلق ہونے کے ناتے میرا ایک شہادت کی خبر سن کر دل کٹ جاتا ہے، اتنی شہادتوں پر دل بہت دکھی تھا، جسے کئی دن بعد دہشت گردوں کے اپنے انجام تک پہنچ جانے کی خبر سے ہی سکون میسر آسکا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ریاستِ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔ یہ جنگ ہر صورت جیتنی چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم اور فوج شانہ بہ شانہ کھڑی ہوں اور قوم سے مراد صرف حکومتی پارٹی نہیں بلکہ پوری قوم ہے۔ قومی رہنماؤں کی اکثریت ایوّبی آمریت سے برسرِ پیکار رہی، مگر دشمن سے جنگ چھڑی تو اپوزیشن رہنما جنرل ایّوب کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
2014 میں عمران خان صاحب، وزیراعظم نواز شریف کو چار مہینے مسلسل ہدف تنقید بناتے رہے، مگر دسمبر میں دہشت گردی کے خلاف ا علانِ جنگ ہوا تو وزیر اعظم نے تمام سیاسی قائدین کے ساتھ عمران خان صاحب کو بھی مدعو کیا، پھر پوری قوم اور افواج نے متحد ہوکر دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیا۔ مگر اِس وقت جب کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے صاحبان اقتدار اپوزیشن کو برابھلا کہنے، ان پر مقدمے بنوانے اور انھیں جیل بھجوانے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ قومی یکجہتی پیدا کرنے کے بجائے وہ صبح شام نوازشریف اور شہباز شریف کو malignکرنے کے ایک نقاطی ایجنڈے پر کار فرما ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب ہوش کے ناخن لیں اور حکومت اور اپوزیشن دونوں حالات کی سنگینی کا ادراک کریں۔
فیصلہ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں ریٹائرڈ سول سرونٹس اور جج صاحبان کو اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں پلاٹ الاٹ کیے جانے والے اقدام کو کالعدم قرار دے دیا ہے، میڈیا میں اس فیصلے کو سراہا گیا ہے اس لیے کہ عوام کی نظروں میں بیوروکریسی کی کارکردگی اور سروس ڈلیوری غیرتسلی بخش ہے ہم اپنی اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہیں مگر کچھ نظر انداز شدہ اہم حقائق بھی عوام کے علم میں لانا ضروری ہے۔
1۔ دنیا بھرمیں سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے حکومتیں ان کی ویلفیئر کی اسکیمیں بناتی ہیں۔ پاکستان میں بھی وفاقی ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر انھیں مکان یا پلاٹ دینے کی ضرورت کا احساس ہوا تو فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔
2۔ اِس ادارے نے پہلے بھی ریٹائر ہونے والے ملازمین کو مکان یا پلاٹ دیے ہیں جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوامگرکچھ بیوروکریٹوں نے اپنی لامحدود ہوس کے باعث ایک پلاٹ پر صبر نہ کیا اور حکمرانوں کی منت کرکے ان سے ایک اور پلاٹ کی بخشیش لے لی، اس بار کچھ پلاٹ پرستوں نے سینیارٹی کی بنیاد پر بنی قطارہی توڑ ڈالی اور کئی حقداروں (جن میں راقم بھی شامل ہے) کو ایک پلاٹ سے بھی محروم کردیاجس کے باعث معاملہ عدالتوں میں چلا گیا۔
3۔ میڈیارپورٹوں سے یہ تاثر پھیلا ہے کہ بیوروکریٹ خزانہ لوٹ رہے تھے یا سرکاری زمینوں پر قبضہ کررہے تھے جسے روک دیا گیا ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
4۔ FGEHFنے سرکاری زمین (اسٹیٹ لینڈ) نہیں بلکہ پرائیوٹ مالکان سے زمین خریدی اور انھیں ان کی منہ مانگی قیمت ادا کی۔ سرکاری ملازمین سے آج سے سات سال پہلے تیس تیس لاکھ روپے وصول کیے اور انھیں ریٹائرمنٹ پر پلاٹ دینے کا وعدہ کرلیا اور اس ضمن میں الاٹمنٹ لیٹر بھی جاری کردیے۔
5۔ آرمی، نیوی، ایئرفورس، سپریم کورٹ، سینٹ، پولیس، ریونیو، میڈیا اور بیسیوں دیگر سرکاری و غیرسرکاری اداروں نے اپنے ملازمین کو پلاٹ یا مکان دینے کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کی ہیں، اگر اُن پر کوئی قدغن نہیں تو پرائیویٹ مالکان سے زمین خرید کر ریٹائرہونے والے وفاقی ملازمین کوقیمتاً پلاٹ دینا غلط کس طرح ہوسکتا ہے؟
6۔ سات سال پہلے تیس تیس لاکھ روپے جمع کرا کے صرف ایک کنال کے پلاٹ کا خواب دیکھتے دیکھتے بہت سے ایماندار سول سرونٹس جان سے ہار گئے اور بہت سے حالیہ فیصلے کے صدمے سے دل کے عارضے اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
7۔ سروس کے اختتام پر مکان یا پلاٹ کی فراہمی ایک دیانتدار سول سرونٹ کے لیے بہت بڑا سہارا ہوتی ہے، مجھ سمیت کئی ریٹائرڈ افسر، سول سروس میں آنے والے نوجوان افسروں کو رزقِ حلال کھانے کی تلقین کے دوران بتایا کرتے تھے کہ"آپ فکر مند نہ ہوں، ریاست خود آپکی ویلفیئر کا خیال رکھے گی، آپ کو بھی دیگر سرکاری اداروں کی طرح ریٹائرمنٹ پر مکان یا پلاٹ ملے گا"۔ کل ایک بک شاپ پر تین نوجوان سول سرونٹ مل گئے، انھوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے پوچھا کہ "سر آپ تو کہتے تھے کہ آپ بے نیاز ہوجائیں ریاست خود آپ کے رہائشی مسائل حل کرے گی مگر اب!!" میں انھیں کوئی جواب نہ دے سکا اور سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔
8۔ میں بہت سے ایسے سول سرونٹس کو جانتا ہوں جنھوں نے پوری سروس میں صرف رزقِ حلال کھایا، ایمان اور ضمیر کیمطابق ملک کی خدمت کی، مگر ان کے پاس کوئی مکان یا پلاٹ نہیں ہے۔ کئی سالوں کے انتظار کے بعد انھیں ایک پلاٹ ملا جسے غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ اگر ایک باضمیر سول سرونٹ تیس پینتیس سال کی خدمات کے بعد اسّی لاکھ ادا کرکے ایک کنال زمین خریدتا ہے تو یہ ریاست کا اُس پرکونسا احسان ہے؟
9۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو نئی پالیسی بنانے کی ہدایات دی تھیں جس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ نے پالیسی اصول طے کرکے اعلیٰ عدالتوں کو آگاہ کردیا تھا کہ ہر ریٹائر ہونے والے سول سرونٹ کو دو نہیں صرف ایک پلاٹ ملے گا اور استحقاق کا تعین ریٹائرمنٹ کی عمر کے مطابق کیا جائے گا۔ اس پالیسی کی روشنی میں معزز عدالت اپنے فیصلے میں نئی قرعہ انداری کا حکم دیتی تو وہ زیادہ قرینِ انصاف ہوتا۔
10۔ سینئر وکلاء کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے اسی نوعیت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی اور بالآخر ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اُس فیصلے کو حتمی حیثیت (finality) مل جانی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔