خالقِ کائنات نے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺ کو کئی اعزازات سے نوازا، کہیں آپؐ کو نور پھیلاتا ہوا چراغ قرار دیا اور کہیں آپؐ کا ذکر بلند کرنے اور تمام انسانوں سے زیادہ عظمتیں عطا کرنے کی خوشخبری سنائی۔
دنیا کے اربوں انسان خالق ومالک کا یہ وعدہ پورا ہوتا ہوا ہر روز دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی رب ذوالجلال کا نام گونجتا ہے، ساتھ ہی نامِ مصطفٰےؐ بھی بلند ہوتا ہے۔
چشم اِقوام یہ نظاّرہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ و رَفَعنَا لَکَ ذِکرک دیکھے
بات یہاں تک نہیں رہنے نہیں دی، خالقِ کائنات نے نبی کریم ؐ کو ایک ایسا لقب عطا کردیا جو پہلے کسی نبی کے حصے میں نہیں آیا۔ آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہونے کا بے مثال اعزاز بخش دیاگیا۔
مسلم ہی نہیں غیر مسلم مورخ، قانون دان اور دانشور بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسانوں کوسب سے زیادہ حقوق دینے والے حضرت محمدﷺ ہیں لہٰذا انسانیت کے عظیم ترین محسن بلاشبہ نبی کریمﷺ ہی ہیں۔ پھر خالقِ کائنات نے سرورِ کائناتؐ کے لیے انسانوں کے دلوں میں جو عقیدت اور محبت ڈال دی ہے وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ حضورؐ کی زندگی میں آپؐ کی ذات سے اور بعد ازوصال حضورؐ کی آخری آرام گاہ سے جو بے پناہ عقیدت اربوں انسانوں کے دلوں میں ہے، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ایک ہزار سالہ مسلم تاریخ کے سب سے بڑے شاعر اور مفکر ڈاکٹر اقبالؒ نے بالکل درست کہا ہے کہ وہ جگہ اتنی مقدس اور اتنی نازک ہے کہ حضرت جنیدؒ اور حضرت بایزیدؒ جیسی ہستیاں وہاں حاضری کے وقت اپنے حوش وحواس کھوبیٹھتی ہیں۔
اد ب گاہِسیت زیرِ آسماں ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ وبایزیدؓ ایں جا
چند صدیاں قبل عثمانی سلطنت آج کے امریکا کی طرح سپرپاور تھی، اُس سپر پاور کے حکمرانوں کی عقیدت کا حال بھی سن لیں۔ مورخ لکھتے ہیں، "عثمانی حکمرانوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انھوں نے اپنی وسیع عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ہیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ہر علم کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطرافِ عالم سے آنے والے ان ماہرین کی الگ الگ بستیاں آباد کی گئیں۔
اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ہوا جس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔ خلیفہ وقت جو اُس وقت دنیا کا سب سے بڑا حکمران تھا، شہر میں آیا اور ہر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ اسے یکتا و بے مثال کردے، اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظِ قرآن اور شہسوار بنائے گی، دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب وغریب منصوبہ کئی سال تک جاری رہا۔
25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا۔ یہ لگ بھگ 500 افرادتھے، اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں، تختے حاصل کیے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا۔
یہ سارا سامان نبی کریمﷺ کے شہر پہنچایا گیا۔ ادب اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیے مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے شہرِ نبیؐ اور روضۂ رسولؐ کی بے ادبی نہ ہو۔ نبیﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اپنی بستی بھیجا جاتا تاکہ حضورؐ کی آرام گاہ کے قریب معمولی سی آواز بھی پیدا نہ ہو، ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران باوضو رہے اور درود اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے، حجرۂ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا کہ روضہ پاک گرد سے محفوظ رہے۔
پندرہ سال تک تعمیر و مرمت کا کام اسی عقیدت اور عشق کے جذبوں کی تپش سے سرشار ہوکر ہوتا رہا۔ تاریخِ عالم گواہ ہے ایسی محبت اور ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ کبھی بعد میں ہوگی۔ آقائے ؐدوجہاں کی تعلیم اور تربیت سے کس معیار کے انسان تیار ہوئے اس کی مثال بھی انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایک روح پرور واقعہ سن لیجیے:
مسلمانوں نے ثمرقند فتح کیا تو اس کے چند روز بعد وہاں سے ایک قاصد اسلامی سلطنت کے حاکمِ اعلیٰ سے ملنے کے لیے چل پڑا، اُس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔ پادری نے لکھا تھا، "ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبولِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں، اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا اور اچانک حملہ کرکے ہمیں مفتوح کرلیا گیا ہے۔ " یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبدالعزیز کے نام لکھا تھا۔ طویل سفر کے بعد قاصد دمشق پہنچا جہاں لوگوں سے شہنشاہِ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔
اس معمولی مکان کا مکین ہی حاکمِ وقت عمر بن عبدالعزیز تھا، قاصد نے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا، "عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ثمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام! ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے اور انصاف کرے۔ " مہر لگا کر خط واپس قاصد کو دے دیا۔ ایک معمولی مکان میں رہنے والے حاکم اور شان و شوکت سے عاری دارالخلافہ کو دیکھ کر قاصد مایوس ہوا تھا۔ ثمرقند لوٹ کر جب قاصد نے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال پادری کو سنایا، تو پادری پر بھی مایوسی چھاگئی۔
اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ انھیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لے کر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور فاتح ثمرقند قتیبہ بن مسلم کے پاس پہنچے۔ قتیبہ نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی کو تعینات کردیا جو اس کے اپنے خلاف ثمرقندکے باسیوں کی شکایت سن سکے۔
قاضی نے پہلے پادری سے اس کا موقف پوچھا۔ پادری نے کہا، "قتیبہ نے بغیرکسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ وبچار کا موقع دیا تھا"۔ قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، "کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟" قتیبہ نے کہا، "قاضی صاحب! جنگ میں تو فریب اور دھوکا بھی ہوتا ہے۔ ثمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔
ثمرقند کی زمینیں تواور بھی سرسبز و شاداب تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور ثمرقند پر قبضہ کرلیا۔ قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا، "قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت اور پھر جزیہ یا جنگ کی خبر دی تھی؟" قتیبہ نے کہا، "نہیں! قاضی صاحب، ایسا نہیں ہوسکا۔ " قاضی نے کہا، " تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو لہٰذا اس کے بعد تو کسی شہادت کی ضرورت ہی نہیں۔ اﷲ نے اس دین کو فتح اور عظمت صرف عدل و
انصاف کی وجہ سے دی ہے، فریب اور دھوکے کی وجہ سے نہیں۔ میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدیداران بمعہ اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مالِ غنیمت چھوڑ کر ثمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور ثمرقند میں کوئی مسلمان فوجی باقی نہ رہے۔ " پادری جوکچھ دیکھ اور سن رہا تھا، وہ ناقابل یقین تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر سے نکل چکا تھا۔
ثمرقندیوں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا تھاکہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور مفتوح قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔ ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے ہی خلاف فیصلہ دے دیں اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلے پہ سر جھکا کر عمل بھی کردے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل آئے اور لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑپڑے اورپھر ثمر قند کے باشندے کلمہ طیبہ کا اقرار کرتے ہوئے واپس جانے والی فاتح فوج کو منتیں کرکے واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ جیسے اعلیٰ کردار اور منصف مزاج حکمرانوں کی رعایا بن کر رہنا اپنے لیے فخر سمجھیں گے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ ثمرقند طویل عرصے تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔