سینئر آرمی افسران کی پریس کانفرنس میں کئی انکشافات تو حیران کن بلکہ انتہائی تشویشناک تھے۔
پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ عمران خان نے آرمی چیف سے اس طرح کی بزنس ڈیل کرنے کی بھی کوشش کی کہ "اگر آپ مجھے عدمِ اعتماد سے بچالیں تو اس کے بدلے میں، میں بحیثیت وزیراعظم آپ کو اتنی لمبی ایکسٹینشن دے دوں گا جس کی کوئی معیاد نہیں ہو گی۔ "
آرمی چیف نے یہ آفر قبول کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ فوج کے ادارے کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور ملک کے لیے بھی، مگراس سے ایک بات بالکل عیاں ہوگئی کہ عمران خان حکومت اور اقتدار کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔
وہ اس کے لیے میرٹ اور انصاف کی دھجیاں بھی اُڑاسکتے ہیں اور قومی اداروں اور ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی تیار ہوسکتے ہیں۔
کیا اپنی خواہشات کے ایسے اسیر کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دینا قوم کے لیے مفید ہوگا یا انتہائی خطرناک؟ جہاں تک عدمِ اعتماد کو امریکی سازش سے جوڑنے کا تعلق ہے تو پریس کانفرنس میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا کہ آرمی چیف نے خود11 مارچ کو کامرہ میں وزیرِاعظم عمران خان کو سائفر کے بارے میں بتایا مگر وزیراعظم عمران خان نے اسے dismiss کرتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب اس طرح کے لیٹر آتے رہتے ہیں۔
اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یعنی عمران خان نے خود سفیر کے خط کو غیر اہم اور روٹین کا خط قرار دیا مگر اس کے چند روز بعد 27 مارچ کو ایک جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرادیا اور ایک ایسا بیانیہ بنالیا جو بالکل جھوٹ پر مبنی تھا۔
کیا یہ کسی باوقار اور قابلِ اعتبار لیڈر کا طرزِ عمل ہے؟ عمران خان کے وکلاء کی پرزور اپیلوں کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی نااہلی ختم نہیں کی، مگر عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کل ہزاروں کے مجمعے کے سامنے کہا کہ " عدالت نے میری نااہلی ختم کردی ہے" ملک کے اندر اور باہر کے لوگ حیران ہوکر سوچ رہے ہوں گے کہ کیا لیڈر ایسے ہوتے ہیں؟ کیا ایسا سیاستدان کسی ملک کی رہنمائی کا اہل ہوسکتاہے؟ کیا ایسا لیڈر ہمارے راست گو قائدؒ کی جانشینی کا حقدار ہوسکتا ہے؟
ارشد شریف کے قتل کے بعد اس کے بہت سے تجزیے سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں جو میں نے بھی دیکھے اور سُنے ہیں۔ میرے خیال میں اسے سیکیورٹی کے نام پر ملک سے باہر جانے پر تیار کرنے اور خاص طور پر اپنی جان کی حفاظت کے لیے کینیا جیسے غیرمحفوظ ملک میں جانے پر قائل کرنے والے کی طرف شک کی نظریں اٹھنا قدرتی بات ہے، مرحوم کو پنجاب، کے پی، آزاد کشمیر یا گلگت میں کہیں بھی بڑی آسانی سے رکھا جا سکتا تھا۔
ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے اور پھر دبئی سے کینیا جانے کا مشورہ دینا ناقابلِ فہم ہے۔ ایسا مشورہ دینے والے کو فوری طور پر شاملِ تفتیش کرنا چاہیے۔ اللہ کرے کہ اصل قاتل بے نقاب ہوں اور انھیں عبرتناک سزا ملے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم انجم ایک پڑھے لکھے اور وطن سے محبت کرنے والے پروفیشنل سولجر ہیں۔
کئی سال پہلے اُن سے پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے سربراہ تھے اور انھوں نے راقم کو وہاں گیسٹ اسپیکر کے طور پر مدعو کیا تھا۔ کوئٹہ میں رات کو کھانے پر بھی اُن سے فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں کھل کر باتیں ہوتی رہیں، وہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر آئین کی پاسداری کے حامی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں دخل اندازی کے مضر اثرات سے نہ ملک بچتا ہے اور نہ کوئی ادارہ، لہٰذا پوری قوم یہ چاہتی تھی کہ فوج اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرلے اور صرف آئینی امور تک محدود رکھے۔
اس لیے اب اگر فوج کے ذمے دار جرنیل خود میڈیا کے سامنے قوم کو سیاست سے الگ ہوکر صرف اپنی آئینی ذمے داریاں ادا کرنے کی خوشخبری سنارہے ہیں تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے مگر عمران خان واحد سیاست دان ہے جو ایسا نہیں چاہتا، وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے یہ چاہتا ہے کہ ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو پہنچتارہے، ادارے متاثر ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کو اُکسا رہا ہے کہ جانبدار بن کرمیری مدد کرو اور مجھے پھر سے وزیراعظم بنوادو۔
کیا ملک اور قومی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھانے والے لیڈر سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک میں استحکام اور یکجہتی لائے گا؟ بہت سے دانشوروں نے بھارتی میڈیا کے کلپس بھیجے ہیں جن میں ایک ریٹائرڈ بھارتی میجر، عمران خان کی فوج مخالف تقریروں پر خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ "جو کام اربوں روپے لگا کر بھی بھارتی حکومت اور "ر ا" نہیں کرسکتی تھی وہ عمران خان کررہا ہے۔ ہمارا ہدف بھی یہی تھا، عوام کے دل میں اپنی فوج کے خلاف شکوک و شبہات اور نفرت پیدا کرنے کا ہمارا مشن جس تندہی سے عمران خان پورا کر رہا ہے، اس کے لیے ہم عمران خان کے شکرگزار ہیں۔ "
کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ ہمیں بھارتی میڈیا کو زیادہ اہمیّت نہیں دینی چاہیے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت کی موجودہ حکومت پاکستان اور مسلمانوں کی جانی دشمن ہے، بھارتی میڈیا بھی حکومتی پالیسی کی پیروی کرتا ہے، لہٰذا ہمیں بھارتی میڈیا کی سوچ سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پر نظر رکھنی چاہیے اور کسی پاکستانی لیڈر کو کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جسے بھارتی میڈیا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکے، اگر ماضی میں کسی نے ایسی بات کی تھی تو وہ بھی غلط تھا اور آج جو کچھ عمران خان کررہا ہے وہ بھی قابلِ مذمّت ہے۔
میری پاکستان میں رہنے والے پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے سپورٹر زسے گزارش ہے کہ خدارا! حالات کی سنگینی کا احساس کریں، کیا اس سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ وطنِ عزیز چاروں طرف سے بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے گھرا ہوا ہے اور ملک کی حفاظت کے لیے آئے روز فوج کے جوان اور افسر جانیں قربان کر رہے ہیں، بیرونی دشمنوں کی جارحیت سے اگر ملک کو کوئی بچا سکتا ہے تو وہ صرف فوج ہے مگر کپتان اقتدار سے محروم ہو کر اس حد تک فرسٹریٹ ہوگیا ہے کہ اپنے محافظ ادارے کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت بھررہا ہے اور اس طرح ملک کو کمزور کررہا ہے۔
کئی لبرل خواتین و حضرات اس بات پر خوش ہیں کہ پاکستان میں پہلی بار ایک لیڈر اسٹیبلشمنٹ کو کھل کر گالیاں دے رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کمزور ہو رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کا دفاع مضبوط کرنے کے بھی مخالف ہیں، وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے بھی مخالف تھے اور ہیں بلکہ وہ تو قائدِ اعظم کے دو قومی نظریے (یعنی ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں) کے ہی مخالف ہیں اور اس نظریئے کی بنیاد پر قائم کیے گئے علیحدہ ملک پاکستان کے بھی (اندر سے) حامی نہیں ہیں۔ انھیں تو پاکستان سے زیادہ ہندوستان کا ماحول پسند ہے۔
لہٰذا اس طبقے کو تو چھوڑدیں، مگر باقی پڑھے لکھے لوگ ٹھنڈے دل سے سوچیں۔ میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں دخل دینے کا مخالف ہوں مگر ایک یونیفارم فورس کا فرد ہونے کے ناتے یہ بھی جانتا ہوں کہ وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے خون بہانے اور جان دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے اور اس کی کتنی قدر و قیمت ہوتی ہے، اس لیے عوام کے دلوں میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے والوں کے عزائم کو خوب سمجھتا ہوں، اس لیے انھیں بے نقاب کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں۔
ملک کا درد رکھنے والے صاحبانِ دانش اس بات پر متفق ہورہے ہیں کہ جس طرح اپنے محافظوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے اور جس طرح فوج اور عوام کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور انھیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ یہ وطنِ عزیز کو خدانخواستہ لیبیا یا شام بنانے کی ایک عالمی سازش کا حصہ ہے۔ ہمیں اس سے باخبر اور چوکس رہنا ہوگا۔