محترم جسٹس(ر) محمد رفیق تارڑ صاحب ایک پاکیزہ زندگی گذار کر اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اپنے دین اور ملک کے ساتھ ان کی وابستگی اور محبت لازوال تھی۔ ہمارا ان کے ساتھ دیرینہ تعلق اور گہرے خاندانی مراسم تھے۔
جسٹس تارڑ صاحب جب سینیٹربنے اُس وقت میں پرائم منسٹر کا اسٹاف آفیسر تھا، ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو میں کہا کرتا تھاکہ آپ سینیٹ میں سپریم کورٹ کے واحد ریٹائرڈ جج ہیں، حکومت کو آپ کے تجربے اور صلاحیتوں کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مگر وہ اُس وقت شکوہ کیا کرتے کہ وزیراعظم صاحب سے ملاقات ہی نہیں ہوتی، بعد میں پھر ملاقات ایسی ہوئی کہ وزیرِاعظم نوازشریف نے ملک کی صدارت کا تاج ان کے سر پر سجادیا، وہ سیاست نہیں وکالت اور عدالت کے آدمی تھے، صدر بن کر آئینی حدود تک محدود رہے۔
سرکاری وسائل کے استعمال میں بھی بہت محتاط تھے اور ان کا کم سے کم استعمال کیا کرتے تھے۔ راقم اُن سے اکثر ملتا اور ان کی باتوں، شعروں اور لطائف سے مستفیض ہوتا رہتا۔ تارڑ صاحب کو ایک سچے مومن کی طرح آقائےؐ دو جہاں کی ذاتِ عالی سے بے پناہ عقیدت اور عشق تھا اور اس کا اکثر اظہار ہوتا رہتا تھا۔
وہ میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے اور فون پر بڑی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ایک بار جب میں نے "آقائے دو جہاں کے آخری ایام اور اثاثے" کے عنوان سے کالم لکھا تو اُن کا فون آیا، بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے "آپ کا کالم بڑا روح پرور ہے مگر یہ پورا نہیں پڑھا جا سکا" یہ کہہ کر رونے لگے اور پھر فون بند ہوگیا۔
ہم تینوں بھائیوں میں سے جب بھی کوئی ان سے ملنے جاتا تو وہ بڑی خوشی اور مسرت سے کہا کرتے کہ "اﷲ تعالیٰ نے آپ کے والدین کے اعلیٰ کردار کا انھیں یہ صلہ دیا ہے کہ ُان کے تینوں بیٹے باکردار اور بااصول ہیں، جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، ورنہ بیٹوں میں سے ایک آدھ وکھرا نِکل ہی آتا ہے مگر اﷲ نے آپ تینوں بھائیوں کو سیدھے راستے پر چلایا ہے، یہ آپ کے والدین کی دعاؤں کا خاص نتیجہ ہے۔ "
ہمارے والد صاحب کی وفات پردوسرے روز گاؤں تشریف لائے تو ناراض ہوکر کہنے لگے "آپ لوگوں نے مجھے جنازے کے وقت سے آگاہ کیوں نہیں کیا، اب آپ کو مجھے اپنا فیملی ہیڈ سمجھنا چاہیے"۔ ہم تینوں بھائیوں نے کوتاہی پر معذرت کرتے ہوئے کہا، بلاشبہ آپ ہی ہمارے فیملی ہیڈ ہیں اور اب ہم آپ سے ہی رہنمائی لیا کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین تارڑ صاحب پریہ گھٹیا الزام لگاتے رہے کہ وہ پیسوں کے بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے تھے تاکہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے۔
یہ الزام سراسر لغو اور بے بنیاد تھا۔ محترم تارڑ صاحب زندگی بھر رزقِ حلال کھاتے رہے، وہ اس طرح کے کاموں میں ملوث ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے اور جس کا کئی غیر جانبدار وکلاء اور جج صاحبان نے بھی اپنی کتابوں اور مضامین میں ذکر کیا ہے کہ سجاد علی شاہ کے اپنے طرزِ عمل کی وجہ سے برادرجج صاحبان ان کے خلاف ہوچکے تھے، اس ضمن میں انھیں رشوت دینے کا الزام سراسر جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔
محترم تارڑ صاحب جہاں اقبالؒ کے اردو اور فارسی کے برمحل شعر سناتے وہاں ان کے پاس لطائف کا بھی وسیع ذخیرہ تھا گوجرانوالہ کے دانشور اور کالم نگار فاروق عالم انصاری سے ان کی بہت زیادہ بے تکلفی تھی جن سے وہ نوجوانوں والے لطیفے بھی شیئر کیا کرتے تھے۔ راقم نے "کیہڑا آکھے چوہدرانی نوں اَگاّ ڈھک" والا لطیفہ بھی محترم تارڑ صاحب سے سنا اور پھر میرے بیسیوں دوست بھی اس سے مستفیض ہوئے۔
میری پہلی کتاب "دو ٹوک باتیں " چھپی تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس کی تقریبِ رونمائی پروزیروں اور مشیروں وغیرہ کو نہیں بلایا جائے گا، اُس کی صدارت محترم جسٹس رفیق تارڑ صاحب کریں گے اور مہمانِ خصوصی میرے استادِ محترم شیخ امتیاز علی (سابق پرنسپل یونیورسٹی لاء کالج) ہوں گے۔ دونوں کی صحت اچھی نہیں تھی مگر میرے کہنے پر دونوں تشریف لائے اور میری مسرت اور تقریب کی عزت و توقیر کا موجب بنے۔
پنجاب میں تعیناتی کے دوران کبھی چیف منسٹر آفس میں یا تارڑ صاحب کے گھر پر ان کا پوتا عطاء اللہ ملتا تو میں اسے اپنا عزیز اور برخوردارسمجھ کر CSSکا امتحان دینے کا مشورہ دیا کرتا تھا۔ اس نے وہ مشورہ نہ مانااور سیاست کی چکا چونددیکھ کر اُدھر چلاگیا۔
اب اس کالم کے ذریعے عطاء تارڑ کے لیے نہیں اپنے بزرگ محترم رفیق تارڑ صاحب کے پوتے عطاء اللہ کے لیے ایک elder کی حیثیت سے تین نصیحتیں کررہا ہوں کہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرنا تو شاید ناممکن ہو، مگر مطمعٔ نظر اقتدار اور منصب نہیں، عزت کا حصول ہونا چاہیے، جس کے لیے ضروری ہے کہ دروغ گوئی سے ہر صورت پرہیزکرو، ہر حال میں رزقِ حلال کھاؤ اور اپنی خواہشات (ambitions) کو بے لگام نہ ہونے دو۔ ایسا نہ کرسکے تو منصب تومل جائے گا، عزت نہیں ملے گی۔
عبدالرحمان ملک صاحب (مرحوم)
پولیس کے سینئر افسروں کا اس پر اتفاقِ رائے ہے کہ رحمان ملک صاحب جنرل مشرف کے وزرائے داخلہ آفتاب شیر پاؤ اور فیصل صالح حیات اور مسلم لیگ ن کے دونوں چوہدریوں، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری نثار علی سے بہتر وزیرِداخلہ تھے۔ اگر کسی کو ان سے زیادہ نمبر دیے جا سکتے ہیں تو وہ جنرل نصیر اللہ بابر تھے، جو بے داغ کردار کے مالک اور غیر معمولی طور پر جرأتمند تھے۔
رحمان ملک صاحب سو فیصد ایک سیلف میڈ آدمی تھے جو اپنی محنت اور صلاحیتوں کے باعث بے نظیر بھٹو صاحبہ کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، رحمان ملک ایک humble آدمی تھے اور چوبیس گھنٹے accessible ہوتے تھے، دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد موقعہ پر پہنچتے، دہشت گردوں کو بڑی دلیری سے للکارتے اور پولیس فورس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
کئی شخصیات اپنے عمومی تاثرسے پست نکلتی ہیں مگر کئی لوگوں کا عام تاثر منفی بن جاتا ہے مگر حقیقت میں وہ اپنے تاثر سے بہتر ہوتے ہیں، عبدالرحمان ملک کا شمار دوسری قسم کے افراد میں ہوتا تھا۔ ایک بار جب میں ایف سی میں تھا تو ہم دو افسروں نے کراچی کا دورہ کیا، آئی جی سندھ سعید خان صاحب نے ڈنر پر بلایا، وہاں میں نے رحمان ملک صاحب کی خوبیوں کے بارے میں پوچھا تو آئی جی اور ڈی آئی جی کراچی دونوں نے یہ کہا کہ رحمان ملک ڈلیور کرنے اور رزلٹ دینے والا ایک عملی آدمی ہے، پرائم منسٹر اسے کوئی ٹارگٹ دے دیں، مثلًا بے نظیر کہہ دے کہ مجھے فرانس کے برگر چاہئیں تو صبح ناشتے پر پرائم منسٹر کی ٹیبل پر مطلوبہ برگر موجود ہوں گے۔ یہ صرف ملک صاحب کا ہی کمال تھا۔
2009سے پہلے میری ملک صاحب سے کوئی ملاقات نہ تھی، میں گوجرنوالہ ڈویژن میں تعینات تھا کہ ایک روز ان کے اسٹاف افسر کا فون آیا کہ "انٹیریئر منسٹر صاحب کل گوجرانوالہ آرہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ڈی آئی جی (یعنی میں) انھیں کینٹ کے ایئر پورٹ پر ملیں " وزیرِداخلہ کا احترام واجب تھا لہٰذا میں پہنچ گیا۔ ملک صاحب اپنے چھوٹے جہاز سے اکیلے ہی اترے، مجھے بڑے تپاک سے گلے ملے اور کہنے لگے امن و امان کے لحاظ سے وزارتِ داخلہ کی ریٹنگ میں آپ کی ڈویژن پہلے نمبر پر اور دوسروں کے لیے رول ماڈل ہے، میں اس پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
2010میں جب ایک ضمنی الیکشن میں پولیس کے غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے اپوزیشن کا امیدوار جیت گیا اور حکومتی امیدوار ہار گیا تو میرا تبادلہ کرکے ایک غیر اہم جگہ پر لگادیا گیا۔ اس کے بعدپھران کا فون آیا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کو ایف آئی اے کا سربراہ مقرر کیا جا سکتا ہے، میں نے اس پیشکش پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیشکش مجھے پرائم منسٹر گیلانی صاحب کی طرف سے بھی آچکی ہے مگر شہباز شریف نے تو مجھے ڈھائی سال برداشت کیا ہے، آپ تو مجھے ڈھائی مہینے بھی برداشت نہیں کرسکیں گے، اس پر وہ ہنسنے لگے اور بات ختم ہوگئی۔
2013میں پاسپورٹ کا محکمہ بہت بڑے بحران کا شکار ہوا تو نگران حکومت نے مجھے ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ لگا دیا، وہاں جاکر جب حقائق معلوم ہوئے تو سب سے زیادہ ذمے دار وزیرِ داخلہ اور سابق ڈائریکٹر جنرل قرار پاتے تھے۔
اِنہیں دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ میں محکمہ پاسپورٹ کے کیس کے سلسلے میں مجھے بلایا گیا۔ عدالت کی طرف سے جب بحران کی وجوہات پوچھی گئیں تو مجھے وزیر داخلہ کا نام بھی لینا پڑا۔ اس کا چرچا میڈیا میں بھی ہوا۔ اس کے بعد کئی تقریبات میں رحمان ملک صاحب سے ملاقات ہوئی مگر انھوں نے معمولی سا بھی گلہ نہ کیا اور بڑی گرمجوشی سے ملتے رہے۔ وہ تنگ دل نہیں، بڑے فراخ دل انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائیں معاف فرما کر ان کی مغفرت فرمادے۔