حیران کن بات ہے کہ ایک معروف کھلاڑی یہ بات سمجھنے سے انکاری ہے کہ کرکٹ کا میچ ہو یا انتخابات کا دنگل، ایک ٹیم یا ایک فریق اپنی مرضی کے رولز لاگو نہیں کرا سکتا، وہ یہ بنیادی اصول نہ صرف سمجھنے سے انکاری ہے بلکہ انتخابی معرکے کا ایک فریق ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے قواعد نافذ کرنے پر بضد ہے۔
کیا عمران خان صاحب نے دنیائے کرکٹ میں کبھی ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ ان کی مخالف ٹیم ان کی اجازت یا منظوری کے بغیر اپنے مرضی کے رولز نافذ کرادے اور وہ خاموش رہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ٹیم خاموش نہیں رہ سکتی۔ یاتو وہ سخت احتجاج کرکے یکطرفہ قواعد کو تبدیل کرادے گی یا میچ کا بائیکاٹ کردے گی۔
سوال یہ ہے کہ جو فریق الیکڑانک ووٹنگ مشین (EVM)کے ذریعے الیکشن کرانے پر بضد اور بیتاب ہے، کیا وہ عدل و انصاف کے جذبے سے مغلوب ہوکر منصفانہ الیکشن کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کرنا چاہتا ہے؟ حکمرانوں کا تین سالہ ریکارڈ اس مفروضے یا حکومتی دعوے کی نفی کرتا ہے۔ ریکارڈ ایسا ہے کہ ان کے دعوے پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔
نہ تم بدلے نہ میں بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں
کوئی ایک واقعہ نہیں درجنوں واقعات کی سیریز نے حکومت کی سوچ بے نقاب کی ہے۔ ایسی حکومت جس نے احتساب کو ذاتی انتقام میں بدل دیا ہو، جو اپنے سیاسی مخالفین پر جھوٹے کیس بنوانے، انھیں گرفتار کرانے جب کہ کرپشن کے الزامات زدہ اپنے ساتھیوں کو بچانا معیوب یا غیر اخلاقی نہ سمجھتی ہو۔ جوقومی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز سمجھتے ہوں۔ جو پولیس اور ایف آئی اے کے بدنام افسروں کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنا درست سمجھتے ہوں، جو اپنے ہارے ہوئے امیدواروں کے ناجائز کام نہ کرنے والے افسروں کے تبادلے کرادینا صحیح سمجھتے ہوں۔
جو ہر قیمت پر انتخابات جیتنا چاہتے ہوں اور اس کے لیے سرکاری مشینری، پولیس اور انتظامیہ کو استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہوں۔ جو ضمنی انتخابات میں اپنا آلۂ کار بننے سے انکار کرنے والوں کو دور دراز ٹرانسفر کرادیتے ہوں۔
جو انتخاب جیتنے کے لیے پریذائیڈنگ افسروں کو اغواء کراتے ہوں اور جو چاہتے ہوں کہ ان کے امیدوار کو الیکشن میں کامیاب کرانے کے لیے پٹواری سے لے کر چیف سیکریٹری تک اور سپاہی سے لے کر آئی جی تک پارٹی ورکرز کی طرح کام کریں۔ جو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کرانے والے افسران کو نہ صرف تخفّظ دیں بلکہ انھیں تھوڑی دیر کے لیے(گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لیے) ٹرانسفر کرنے کے بعد انعام کے طور پر پہلے سے بھی اچھی پوسٹنگ دیں۔
جو مرضی کے فیصلے نہ دینے والے جج صاحبان کے خلاف ریفرنس داخل کرادیں اور انکوائریاں شروع کرادیں۔ جو میڈیا پر اپنی مرضی کی خبریں دیکھنا چاہتے ہوں اور ان کی خواہش کے برعکس لکھنے، بولنے والے صحافیوں کا روزگار چھین لیں اور جو میڈیا کا گلہ گھونٹ دینے کی کوشش کررہے ہوں۔ جو چاہتے ہوں کہ بی آرٹی کی کبھی انکوائری نہ ہو اور فارن فنڈنگ کیس کا کبھی فیصلہ نہ ہو۔ جو اپنی خواہش کے برعکس سوچنے والے قومی اداروں پر چڑھ دوڑیں اور وزیروں کے ذریعے ان کی توہین اور تذلیل کرانے کو اپنا وطیرہ بنالیں۔
جو اپوزیشن کا وجود ہی برداشت نہ کرتے ہوں اور اسے ختم کردینے کے درپے ہوں جو مخالف فریق کے ساتھ بیٹھ کر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ذرا سی بھی سنجیدہ کوشش کرنے پر تیار نہ ہوں۔ جو قائدِ حزبِ اختلاف کے ساتھ مشاورت کرنے کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے بجائے یکطرفہ طور پر متنازعہ افراد کو ایکسٹینشن دینے کا غیر آئینی راستہ اختیار کرنے پر تُلے ہوئے ہوں اور جو EVMاِشو پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے بجائے ہر قیمت پر مشکوک مشینیں لانے پر تلے ہوئے ہوں، وہ حکومت اور پارٹی لیڈران منصفانہ الیکشن کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ اچانک انصاف کے علمبردار بن گئے ہیں اور منصفانہ انتخاب چاہتے ہیں، ایں خیال است و محال است وجنوں (ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا)۔ ان کی سوچ اور طرزِعمل کا موازنہ صرف ڈکٹیٹروں سے کیا جاسکتا ہے۔ ایسی سوچ کا انصاف، میرٹ یا جمہوریت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا۔ ان کی نیت یا ترجیح اپوزیشن کے ساتھ ملکر انتخابات کو غیر منصفانہ بنانے والے عوامل کو دور کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کے کیمپ میں جو چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں وہ indecent haste، ضد اور بیتابی ہے۔ جس میں الیکشن کو سب کے لیے قابلِ قبول بنانے کا جذبہ کلی طور پر مفقود ہے۔
وزرائے کرام کا طرزِ عمل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن فیصل ووڈا کا کیس لٹکادے تو غیرجانبدار، فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کرے تو بہت اچھا مگر واضح دھاندلی پر ایکشن لے تو جانبدار (ویسے میرے خیال میں ڈسکہ الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن کو اسوقت کے آئی جی اور چیف سیکریٹری سمیت دھاندلی میں ملوّث تمام افسروں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے تھا اور ان کے خلاف کیس درج کرانا چاہیے تھا) اگر سکندر سلطان راجہ نےEVMپر تخفظات کا اظہار کیا ہے تو وزیروں نے اُس پر وہ وہ تہمتیں باندھی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اب وزیروں سے کہلوایا جارہا ہے کہ وہ توسعید مہدی کا داماد ہے جو کسی زمانے میں نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہ چکے ہیں اور وہ تومیاں صاحبان کی گھڑی اور چھڑی ہے۔ کیا اس کے تحفظات کے بعد آپ پر اس کی رشتہ داری کا راز کھلا ہے؟
ارے بھائی جب حکومت نے جاوید انور کو ہٹاکر سکندر سلطان کو سیکریٹری ریلوے لگایا تھا تو اُس وقت بھی اس کا مہدی صاحب سے یہی رشتہ تھا۔ جب حکومتی وزیروں نے اس کے لیے ایف پی ایس سی کا ممبر بننے کی سفارش کی تھی، اُس وقت بھی وہ سعید مہدی صاحب کا داماد تھا۔
جب عمران خان صاحب نے خود سی ای سی کے لیے اس کا نام تجویز کیا تھا تو اُس وقت بھی انھیں بخوبی علم تھا کہ وہ سعید مہدی صاحب کا داماد ہے۔ وہ تو خیر داماد ہے، سعید مہدی صاحب کا صاحبزادہ اسلام آباد کا چیف کمشنر اور چیئرمین سی ڈی اے ہے اور اسے یہ عہدے نوازشریف صاحب نے نہیں عمران خان صاحب نے خود دیے ہیں اور الزام لگانے والے تمام وزیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعید مہدی صاحب کے اِس وقت عمران خان صاحب کے ساتھ بہت اچھے مراسم ہیں۔ دراصل موجودہ حکمراں ہر ادارے کو اپنا مطیع اور اطاعت گزار بنانا چاہتے ہیں اور جس ادارے کا سربراہ معمولی سی ناں کرے اُس پر سیاست کرنے کا الزام لگا دیتے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔
EVM کو یہ کہہ کر ساری اپوزیشن نے مسترد کردیا ہے کہ یہ "الیکٹرانک دھاندلی" کرنے کا آلہ ہے جسے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک مسترد کرچکے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت جانتی ہے کہ مشکوک مشینوں والا چکر نہیں چل سکے گا مگر وہ فارن فنڈنگ جیسے بڑے کیسوں کے فیصلے رکوانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لانا اور متنازعہ بنانا چاہتی ہے جو تشویشناک بھی ہے اور خطرناک بھی۔
ایک عظیم پاکستانی کی وفات
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی وفات سے ملک ایک بہت بڑے پاکستانی سے محروم ہوگیا ہے۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے استاد، ایک دیانتدار سول سرونٹ اور ملک سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اسکالر تھے۔ قائدؒ اور ان کے ساتھیوں نے جن کم ظرف لوگوں سے چھین کر آزادی حاصل کی تھی ان کی تنگ دل اور پست ذہنیت آزاد اور خودمختار پاکستان کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کرسکی۔
لہٰذاانھوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے ریاستِ پاکستان اور اس کے بنیادی نظریئے کے خلاف ایک منظم مہم شروع کررکھی ہے تاکہ پاکستان کے نوجوانوں کواس قدر کنفیوژن اور فکری انتشار میں مبتلا کیاجائے کہ وہ اپنے عظیم محسنوں کی سیاسی بصیرت اور آزاد ملک کی افادیت پر سوال اُٹھانے لگیں۔
پاکستان دشمنوں کے تنخواہ دار ایجنٹوں نے جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈے سے ہماری نئی نسل کو انتشار اور بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی مذموم کوششیں شروع کیں تو ڈاکٹر صفدر محمود حق کا چراغ لے کر میدان میں اُتر آئے اور گمراہی پھیلانے کی ڈیوٹی دینے والوں کو ہمیشہ تاریخی حقائق اور ٹھوس دلائل سے شکست دیتے رہے اور لوگوں کے دل و دماغ کو سچائی کے نور سے منور کرتے رہے۔
ملک کے صفِ اوّل کے رائٹرز نے ڈاکٹر صفدر محمود جیسے عظیم محب وطن کی وفات پر میڈیا کی چشم پوشی کو شرمناک قرار دیا ہے، ویسے تو ہم ایک گمراہ اور احساسِ کمتری کی ماری ہوئی قوم ہونے کا دن رات ثبوت دیتے رہتے ہیں۔
ہمارے چینل کسی اداکار کی بیماری کی خبر کئی کئی ہفتے چلاتے رہتے ہیں، کسی ڈانسر کی منگنی کی خبر بھی کئی کئی روز چلتی رہتی ہے مگر ہم ملک کے محسنوں کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں، موجودہ حکمران اداکاروں کے علاج پر کروڑ روپیہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں مگر کسی اعلیٰ پائے کے استاد، تاریخ دان یا محبِ وطن پاکستانی کی عیادت کرنے کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں۔
پاکستانی چینلوں کے پاس منٹوکے لیے وافر وقت ہے مگر مفکر پاکستان حضرت علامّہ اقبالؒ کے لیے کوئی وقت نہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود جیسے جیّد اسکالر کے گھر جاکر افسوس تو درکنار وزیرِاعظم یا صدر صاحب نے ان کی وفات پر اظہارِ افسوس تک نہیں کیا جو انتہائی افسوسناک ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا دیرینہ تعلق تھا، ان کی وفات میرے لیے بہت بڑا ذاتی صدمہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لاہور یا اسلام آباد کا کوئی اہم ادارہ ان کے نام سے موسوم کیا جانا چاہیے جو ان کا کام جاری رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں۔