پچھلے کالم میں اپنے گاؤں کی اصل زندگی اور بچپن کی یادوں کاتذکرہ کیا گیا تو خطوط اور پیغامات کا تانتا بندھ گیا، دیہات سے شہروں میں جا بسنے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، جج صاحبان اور سول سرونٹس کے بے شمار پیغامات آئے کہ " یہ تو میرے گاؤں کی کہانی ہے۔" آج شہروں میں آسودہ زندگی گذارنے والے بھی گاؤں کی اُس سادہ اور پرخلوص تہذیب اور پاکیزہ اقدار کو بہت محبت سے یاد کرتے ہیں جنھیں نئے دور کی علتیں اور زر پرستی نِگل چکی ہے۔
راقم اور بے شمار دوسرے لوگ جو nostalgic feelings کے ساتھ اپنے گاؤں کی اُس سیدھی سادھی زندگی کو miss کرتے ہیں اور بڑی چاہت کے ساتھ اُس کلچرکا ذکرکرتے ہیں وہ دیہات کی ترقی کے مخالف نہیں، انھیں اس کا بخوبی ادراک ہے کہ نہ وقت تھم سکتا ہے اور نہ ترقی کا پہیہ رک سکتا ہے، ترقی نے بلاشبہ دیہاتی زندگی کو بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں اور لوگوں کی زندگی میں بہت آسانیاں پیدا کی ہیں، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ترقی نے گاؤں کی اصل تہذیب کی روح کو کچل دیا ہے۔ عظیم مفکر اور دانائے رازؒ کی سو سال پہلے کہی گئی یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مشینوں کی آمد نے دیہات کے سیدھے سادے باسیوں کے دلوں میں موجزن محبت اور مروت کو کچل دیا ہے۔ ستر کی دہائی میں "دبئی چلو"کے تحت تلاشِ روزگار کے لیے بڑی تعداد میں نوجوان مڈل ایسٹ چلے گئے، وہاں سے کمائے گئے پیسوں سے مکان توپختہ ہوگئے مگر ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور خلوص کے رشتے کمزور ہوگئے۔
اپنی اپنی بیٹھکوں نے شیشم اور برگد کے سایہ دار درختوں کے نیچے اکٹھے بیٹھنے کی روایت توڑ ڈالی۔ اس لیے گاؤں جائیں تو دل اُس سیدھی سادی زندگی کو ڈھونڈتا ہے جس پر تکلفات کا کوئی غازہ نہیں ہوتا تھا جو تعلقات کو ڈسنے والے لالچ اور ہوس کے سانپوں سے پاک تھی اور جس کی فضاء ایک دوسرے سے ہمدردی اور خلوص کی خوشبوسے لبریز اور بے غرض محبت اور ایثار کے نور سے منور ہوتی تھی۔ لڑکیوں کی شادی پر آنے والی بارات کا انتظام پورے گاؤں کے ذمے ہوتا تھا، مجھے یاد ہے کہ ہمارے گاؤں میں دو خاندانوں کی آپس میں پرانی رنجش تھی اور مقدمات بھی چل رہے تھے۔
ایک خاندان کی بیٹی کی شادی آگئی، جس روز بارات آنا ہوتی کچھ والنٹیئرز تمام لوگوں کے ڈیروں پر جاکر دودھ اکٹھا کرتے جو بارات کے کھانے اور چائے وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا۔ دودھ اکٹھا کرنے والے مخالفت کے خیال سے ان کے مخالفین سے دودھ لینے نہ گئے تو اُن کا لڑکا خود آکر منتظمین کو اپنے ڈیرے پر لے گیا، لڑکے کے والد نے اپنی چاروں بھینسوں کا سارا دودھ یہ کہہ کر بھیج دیا کہ "دھیاں تے سانجھیاں ہوندیاں نیں۔ اونہاں نال وَیرنیئں ہوسکدا" (بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔
ان سے کوئی رنجش نہیں ہوسکتی)۔ مجھے یاد ہے میں گورنمنٹ کالج لاہور یا پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایک آدھ چھٹی پر گھر آتا تو ٹرین سے اپنے قریب ترین ریلوے اسٹیشن منصور والی پر اترتا اور وہاں سے قریباً ڈیڑھ کلو میٹر پیدل چل کر اپنے گاؤں کٹھوڑ آتا مگر اس سفر میں کئی گھنٹے لگ جاتے، کیونکہ راستے میں کسانوں کے کئی ڈیرے آتے، وہ انتہائی خلوص اور گرمجوشی کے ساتھ ملتے، اگر کوئی کماد پِیڑرہا ہوتا تو گُڑ کھلائے بغیر نہ جانے دیتا۔ کئی دودھ لے آتے اور کئی تازہ گاجریں اور مولیاں کھانے کے لیے پیش کرتے۔ بڑے بھائی جان نے بیرسٹری کے لیے برطانیہ جانے سے پہلے وزیرآباد میں ہی تحصیل کے سب سے قابل اور باکردار وکیل سعید احمدجوندہ صاحب(جو اپنے کردار اور اعلیٰ حس مزاح کی وجہ سے پورے ضلع میں معروف تھے) کے ساتھ وکالت شروع کردی تھی، مغرب کے بعد گاؤں کے لوگ ان کے پاس بغیر کسی مطلب اور کام کے آجاتے جس سے ہماری بیٹھک کا بڑا کمرہ بھر جاتا۔ بے غرض گپ شپ میں وقت زیادہ گزر جاتاتو والد صاحب یہ کہہ کر مجلس برخاست کراتے کہ "بھئی اب جا کر سو جاؤ اور جہاں بات ختم ہوئی ہے کل یہیں سے آکر شروع کردینا"۔ کچھ سالوں بعد جب میں پولیس سروس میں آگیا اور گاؤں سے چھٹیاں گذار کر لاہور گیا تو کسی عزیز سے میں نے بڑی دل گرفتگی کے ساتھ یہ کہا کہ "اِس بارگاؤں میں جو شخص بھی ملا اُس نے کوئی نہ کوئی کام ہی بتایا۔ حسرت ہی رہی کہ کوئی اُس طرح بغیر مطلب کے بھی ملتا جس طرح پرانے لوگ ملا کرتے تھے۔"
پچھلے کالم میں اپنے بچپن کے دوست سلیم منصور کا مختصر سا ذکر کیا تھا، کالم پڑھنے کے بعد (کئی کتابوں کے مصنف) پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کا لاہور سے میسج آیا، "آہ! گاؤں کے بارے میں آپکا کالم آنسوؤں کی جھلمل میں پڑھا، کہاں گیا وہ مستی والا کھُوہ، اور ٹیوب ویل کی ٹوٹو کے ساتھ جنت کے جھرنوں کا سا شفاف ٹھنڈا پانی۔ سردیوں میں پرالی کے اوپر کھدر کی چادروں میں لپٹ کر سنہری دھوپ کی میٹھی حدت جذب کرنا اور میٹھے گنے چُوسنا، سادگی اور فقیری میں بادشاہی کے مزے لینا اور خلوص کی برکھا میں جسم و روح کا تر ہونا… بس یادیں ہی رہ گئی ہیں۔"
بلاشبہ ہمارا گاؤں دوسرے سے الگ اور منفرد تھا اور پروفیسر سلیم منصور صاحب کے بقول" یہ گاؤں امن، انصاف اور مثالی معاشرت کا جزیرہ تھا۔ یہاں کی پنچایت سے عدل کی کرنیں پھوٹتیں اور اس کے فیصلوں پر تمام فریق سوفیصد اعتماد کرتے، یہ گاؤں جرائم اور منشیات ہی نہیں، بدمعاشی اور آوارگی سے بھی پاک تھا اور اس گاؤں کی انفرادیت اور پاکیزہ ماحول کی وجہ تھی، چوہدری محمد اسلم صاحب کی ذات"۔ بلاشبہ والد صاحب ایک عادل، خداخوف اور پروگریسیومنتظم تھے، وہ مزارعوں کو زمین پر نہیں اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے تھے، انھوں نے گاؤں میں اسکول بنوائے اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔
ان کی وجہ سے کٹھوڑ ایک مختلف گاؤں تھا جہاں گرمی کی دوپہروں میں شیشم کے سائے میں بیٹھ کر ساتویں اور آٹھویں کے طالبِ علم مشرقی پاکستان سے لے کر بھارت روس اور چین میں ہونے والی تبدیلیوں پر تبادلۂ خیال کرتے، پرالی پر بیٹھ کر اقبالؔ، غالب ؔاور فیض ؔکی شاعری پر باتیں ہوتیں، نسیم حجازی کے ناولوں اور مولانا ابوالکلام کی تحریروں پر تنقید ہوتی۔ اردو ڈائجسٹ، زندگی، چٹان اور ترجمان القرآن جیسے رسالے پڑھنے کے بعد اُن پر سیر حاصل بحث ہوتی۔
سلیم صاحب نقوش کا پطرس نمبر لائے جسے پڑھ کر میری طبیعت طنز ومزاح پڑھنے اور لکھنے کی جانب راغب ہوئی۔ بحث مباحثے میں بات نسیم حجازی سے ہوتی ہوئی ٹا لسٹا ئی تک بھی پہنچ جاتی۔ سلیم منصور صاحب، بھائی نثار احمد اور راقم تو ٹاہلی تھلے منعقد ہونے والی مجلس کے مستقل شرکاء تھے، مگر کبھی کبھی سلیم منصور کے بڑے بھائی ظفر منصور صاحب بھی شامل ہوجاتے۔ ظفر صاحب بڑے قابل نوجوان تھے، میٹرک میں پوری تحصیل میں اوّل آئے اور بعد میں نیوکلیئر سائنس دان بنے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں جلد اپنے پاس بلا لیا۔ بڑے بھائی جان (جو بعد میں ہائیکورٹ کے جج بن کر ریٹائر ہوئے) ہم سب کے استاد اور mentor تھے، وہ گاؤں میں مباحثے اور ڈارمے منعقد کرایا کرتے تھے۔ ہمیں ورزش کرانا، پڑھانا، محنت کی لگن پیدا کرنا اور تقریر کا فن سکھانا انھوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔
مادی ترقی اور مشینوں کی آمد سے پہلے لوگوں کے دل ھَوس اور حسد سے پاک تھے اور معاشرتی زندگی میں سادگی اور قناعت کے عنصربہت نمایاں تھے۔ ہر شخص اپنا کام اور ذمے داری پورے جوش اور جنون سے نبھاتا تھا۔ پرائمری اور ہائی اسکول کے اساتذہ اپنے مضامین کے ماہر ہوتے تھے۔ پرائمری میں ماسٹر ذوالفقار صاحب اور رمضان صاحب بڑے سخت ڈسپلنیرین تھے۔
وزیر آباد کے اسکول میں ہم نے انگریزی ڈار صاحب اور مختار چیمہ صاحب سے سیکھی، ان کے معیار کے اساتذہ آج یونیورسٹیوں میں بھی نہیں ملتے۔ اسکول میں کبھی کبھار ایم ایس طوسی (قائداعظمؒ کے پرائیوٹ سیکریٹری) بھی لیکچر دینے آیا کرتے تھے۔ اردو میں اچھی نثر اور شاعری کا ذوق خورشید صاحب نے پیدا کیا، عربی حافظ غیور صاحب نے اس طرح پڑھائی کہ میں قرآن کے معنی بھی سمجھنے لگا۔ انگریزی ادب کے استاد عاشق حسین صاحب نے بیسیوں نوجوانوں میں شعر و ادب کا ذوق پیدا کیا۔
سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب اکثر بڑے رشک سے پوچھاکرتے تھے، "تم تینوں بھائیوں نے اہم عہدوں پر رہ کر بھی اپنے دامن کو مالی اور اخلاقی آلودگیوں سے بچائے رکھا ہے، یہ کردار کی پختگی اور اصول پسندی تم نے کس کالج اور کس اکیڈیمی سے سیکھی تھی؟ " پھر ایک بار وہ گاؤں تشریف لائے تو میں انھیں سیر کے لیے نہر کی جانب لے گیا جہاں ان کے دیرینہ سوال کا جواب دینے کا موقع مل گیا۔
میں انھیں بتاتا رہا کہ" اِن کھیتوں اور کھلیانوں میں چلتے پھرتے والد صاحب نے ہماری تربیت کی تھی، یہاں کے سایہ دار درختوں تلے ہم نے لکھنا اور بولنا سیکھاتھا، اِن پگڈنڈیوں پر ہمیں حلال اور حرام کی تمیز سکھائی گئی، ان نالوں اور کھالوں پر ہمارے اندر حق بات کہنے کی تڑپ اور اصول پر ڈٹ جانے کے جذبے پیدا کیے گئے، اس نہر کے کناروں پر ہم نے بامقصد زندگی کے اصول سیکھے تھے، ہمارے اُس گھر کا صحن اور باورچی خانہ ہماری درسگاہیں اور یہ راستے اور پگڈنڈیاں ہماری تربیت گاہیں تھیں۔ ہمارے گھر کی پرانی پیڑھیاں ہمارے لیے آکسفورڈ اور ہارورڈ کے کلاس روموں کی کرسیوں سے کم نہیں۔ ہمارا گاؤں ہمارے لیے اس لیے مقدّس ہے کہ یہ صرف گاؤں نہیں ہماری تربیت گاہ بھی ہے اور تربیت گاہ کا مقام عبادت گاہ سے کم نہیں ہوتا۔"