اس بار کافی دیرکے بعد گاؤں گیا تو شبیر نے بتایا کہ عاشق حسین قصاب فوت ہوگیا ہے، بڑا افسوس ہوا۔ پچھلے سال اس کا کزن عبدالطیف وفات پا گیا تھا۔ مسجد سے نکلتے ہوئے ان سے اکثر ملاقات ہوجاتی تھی۔ شبیرنے بتایا کہ میرے بچپن کے کلاس فیلو اور دوست مشتاق احمد (جو بعد میں گاؤں کے ہائی اسکول میں ٹیچر تعینات ہو کر ماسٹر جی کہلانے لگا) کی ہمشیرہ بھی وفات پا گئی ہے۔
لہٰذا ناشتہ کرنے کے بعد میں ماسٹر مشتاق احمد کے گھر پہنچا۔ دعائے فاتحہ کے بعد کچھ دیر زمانہ طالب علمی کی یادیں تازہ کیں، ماسٹر مشتاق احمد کی والدہ صاحبہ، امی جان کی پکی سہیلی اور ہماری ماسی تھیں، وہ ہر روز اپنے بچوں کو ناشتہ کراکے امی جان کے پاس آجاتیں، اُدھر سے ماسی عائشہ، بہن سکینہ، بہن حمیدہ وغیرہ بھی پہنچ جاتیں، ہمارا صحن خواتین سے بھر جاتااور گھر میں شام تک رونق رہتی۔
عاشق حسین کے فاتحہ کے لیے چلے تو ماسٹر مشتاق بھی ساتھ ہو لیے، راستے میں، میں ان سے پوچھتا رہا کہ یہاں شبیر کے بڑے بھائی ریاض کاگھر ہوتا تھا (وہ بھی ہمارا جماعتی تھا اور بنٹے کھیلنے کا ماہر تھا) یہاں بہن سکینہ، اور بھائی فتح محمد کا گھر تھا وہ دونوں بہت مخلص تھے اور ہمارے گھر کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ہیں، ان کا بیٹا ظفر بھی ہمارا کلاس فیلو اور دوست تھا۔
آگے چل کر میں نے پوچھا یہاں شاہ صاحبان کے گھر ہوتے تھے۔ سید محبوب شاہ بڑے زیرک آدمی تھے اور والد صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان کا بیٹا ظفر شاہ بھی ہمارا کلاس فیلو اور دوست تھا، مغربی کونے پر بھائی محمد حسین ماچھی کا گھر ہوتا تھا اور ان کی اہلیہ تندور بھی چلاتی تھیں اور بھٹی بھی، جہاں سے ہر روز چنے اور چاول بھنواتے تھے اور کبھی کبھار گڑ ڈال کر اُن کا مرونڈا بنواتے تھے۔
شبیر نے بتایا کہ اب گاؤں میں اس طرح کا کوئی مشترکہ تندور نہیں ہے، کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں ہی تندوریاں لگا لی ہیں۔ سامنے نظر پڑی تو وہ جگہ نظر آئی جہاں ٹاہلی کا بہت بڑا درخت ہوا کرتا تھا۔ ٹاہلی کا ذکر ہوا تو نصف صدی پہلے کی ساری یادیں تازہ ہو گئیں۔" ٹاہلی تھلے " ایک دنیا آباد ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ گاؤں کے آس پاس اور بھی درخت تھے مگر گاؤں کے مغربی جانب ہماری زمین میں ٹاہلی(شیشم) کا سب سے گھنا درخت گاؤں کی تمام سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔
میں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھتا تھا اور بھائی نثار احمد گورنمنٹ کالج لاہور میں، گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم دونوں صبح ناشتہ کرتے ہی ٹاہلی تھلے پہنچ جاتے۔ چارپائیاں ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی بچھ جاتیں، ہمارے دوست سلیم منصور (اب پروفیسر) اخبار اور رسالے لے کر پہنچ جاتے، وہ اس گاؤں کو ورڈزورتھ کا گاؤں کہا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ چارپائیوں کی تعداد بڑھنے لگتی۔ مونجی کی کاشت سے فارغ ہو کر کسان بھی اس ٹاہلی کی چھاؤں میں سستانے کے لیے آجاتے۔ پھر آہستہ آہستہ گاؤں کے بڑے بھی آنا شروع ہوجاتے۔ بڑے بھائی جان، میاں جی محمد حسین، حاجی نذر حسین اور اللہ دتہ، پاشہ (لڈو سے ملتا جلتا کھیل) کی بازی جما لیتے۔
وہیں بُھنے ہوئے چنے اور مرونڈا پہنچ جاتا، وہ ختم ہوتا تومنگوا لیا جاتا، ساتھ ہی لسی بھی آجاتی۔ اُس وقت نہ بجلی تھی نہ فریج تھے اور نہ کسی کو ایئرکنڈیشز کا پتہ تھا اور نہ ہی کبھی اُن کی کمی محسوس ہوئی تھی۔ ایک چھوٹا سا کھال (نالہ) ٹاہلی کے دامن کوچھوتا ہوا گزرتا تھا، تازہ تربوز اور خربوزے تھوڑی دیر کے لیے کھال میں ڈال دیے جاتے تاکہ ٹھنڈے ہوجائیں اور وہ اُس وقت واقعی اُسی طرح ٹھنڈے محسوس ہوتے جس طرح آج فریج سے نکالا گیا تربوز۔ سہ پہر کو ہم نوجوان وہیں "چھالیں مارنا" (لانگ جمپ) یا کبڈی کھیلنا شروع کردیتے۔
موسمِ گرما میں گاؤںکی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس بھی وہیں ہوتا، عدالت بھی وہیں لگتی اور وہیں فیصلے ہوتے تھے۔ میں نے خود محترم والد صاحب کو سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو اپنے ہاتھوں سے سزا دیتے دیکھا ہے، کچھ مجرموں کو انھوں نے گاؤں بدری کی سزا بھی دی مگر کسی میں حکم عدولی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ سب کو مکمل اعتماد تھا کہ "چوہدری جی انصاف کردے نیں، بھاویں اک پاسے پتر ای کیوں نہ ہووے"۔
(چاہے ایک طرف اپنا بیٹا ہی کیوں ہی نہ ہو مگر چوہدری جی انصاف کرتے ہیں) موسمِ سرما میں ہماری مال مویشی والی حویلی کی مشرقی دیوار کے ساتھ(جہاں اب مہمان خانہ ہے) پرالی (مونجی کا بھُس) کا پہاڑ جیسا ڈھیر لگ جاتا تھا، اور گاؤں کے بزرگوں (elders) کا سیکریٹریٹ بھی "ٹاہلی تھلے" سے پرالی اتے شفٹ ہوجاتا تھا۔ وہیں گنے آجاتے اور ہم دھوپ میں بیٹھ کر گنے چُوستے اور تازہ اور میٹھے رس کا لطف اُٹھاتے اور شام کو کلابازیاں لگانے کی پریکٹس کرتے۔
تھوڑا سا اور بچپن کی طرف جائیں تو گاؤں کے ساتھ ہی شروع ہونے والی زمین پر والد صاحب نے کنو کا باغ لگایا تھا جو پہلی بار بہت کامیاب ہوا، اُس کنو کا سائز اور ذائقہ بھلوال کے کنو سے کسی صورت کم نہ تھا۔ کنو چھلینے کا طریقہ (جو میں بہت سے دوستوں کو سکھا چکا ہوں) میں نے نصف صدی قبل اپنے باغ کے ٹھیکیدار دینو بابا سے سیکھا تھا۔ مناسب تعداد میں دانے (کنو) بھی زمیندار لینے کا حقدار ہوتا تھا۔
ہم باغ میں جاکر کنو کھاتے یا لے آتے اور ٹھیکیدار کاپی پر لکھ لیتا۔ رات کو میری بہنیں اپنی سہیلیوں کے ساتھ باغ میں جاتیں اور بابا دینو کو تنگ کرنے کے لیے کنوتوڑ لاتیں، دوسرے روز دینو گبھرایا ہوا چوری کی شکایت لے کر آتا تو اس سے کاپی منگوا کر اس پر توڑے ہوے کنو لکھ دیتیں۔ جب مارچ میں کنو اچھی طرح پک جاتے تو بھائی جان اپنے دوستوں کو توڑوں (تھیلوں) میں کنو کا تحفہ بھجواتے اور والدہ صاحبہ گاؤں میں تقسیم کرادیتیں۔ گاؤں دودھ بیچنے کی علت سے پاک تھا، سردیوں میں ہمارا کوئی ملازم علیٰ الصبح دودھ بلونے آجاتا اور اس کے بعد والدہ صاحبہ مکھن اُتارتیں جس سے دو دیگچیاں بھر جاتیں۔
اِسی دوران لسی لینے والی عورتوں کی قطار لگ جاتی، والدہ صاحبہ انھیں لسی بھی دیتیں اور کچھ مکھن بھی ڈال دیتیں۔ والدہ صاحبہ کے ہاتھ کے بنائے ہوئے پراٹھے پر رکھے ہو ئے تازہ مکھن کے ساتھ رات کے پکے ساگ کا ناشتہ کیا جاتا جو ایسا لذیذ اور نشاط انگیز ہوتا کہ بلامبالغہ دنیا کی کوئی ڈش اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ رات کا کھانا ہم سب بہن بھائی والدہ صاحبہ کے گِرد پیڑھیوں پر یا چارپائی پر بیٹھ کر کھا تے تھے۔ بعد میں جب ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا شروع کیا تو پیڑھی اور چارپائی والا لطف کبھی نہیں آیا۔
والد صاحب کے پسندیدہ مضامین فلسفہ اور ریاضی (انھوں نے بی اے میں یہی مضامین رکھے) تھے۔ وہ اکثر قرآن مجید لے کر باغ میں چلے جاتے اور خالقِ کائنات کے کلام پر کئی کئی گھنٹے غوروفکر کرتے رہتے، وہ بے زمین کاشتکاروں اور مزدوروں کو بہت عزت دیتے اور ان کے لیے کبھی کمی کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے، مگر تھے وہ بڑے سخت گیر منتظم، اُن کی سختی کی وجہ سے ہمارا گاؤں سنگین جرائم اور منشیات سے پاک تھا اور اس کا ماحول آس پاس کے دیہاتوں سے بہت بہتر تھا، والد صاحب ناصحانہ انداز کے بجائے غیر محسوس طریقے سے ہماری تربیت کرتے تھے۔
مجھے یادہے ایک روز مغرب کی نماز کے بعد والد صاحب نے ہم تینوں بھائیوں کو بلایا اور گاؤں کے ایک غریب شخص غلام رسول (جو اپنے بیوی بچوں سمیت اینٹوں کے بھَٹے پر مزدوری کرتا تھا) کے کچے مکا ن کے قریب لے گئے اور بتانے لگے کہ اِس غریب آدمی کے بچوں نے لسی میں سوکھی روٹی ڈبو ڈبو کر ڈنر کیا ہے، ان کے ہاں نہ ہماری طرح اچھے کھانے پکتے ہیں اور نہ اس کے بچے اچھے کپڑے پہن سکتے ہیں مگر دیکھیں ان کے گھر میں اﷲ کی کتنی رحمت اور برکت ہے۔ ہم نے غور سے سنا تو اس کے گھر سے قہقہے بلند ہورہے تھے۔
والدین کے بھی اور بچوں کے بھی، پھر والد صاحب نے ہمیں مخاطب کرکے کہا، "یہ خوشی اور دلی سکون مال و دولت سے نہیں ملتا، یہ صرف رزقِ حلال سے ملتا ہے، یاد رکھو اگر کبھی اِس شخص نے جھولی اُٹھا کر کائنات کے خالق سے التجاکی کہ اِن چوہدریوں نے کونسی نیکی کی ہے اور ہم نے کونسا گُناہ کیا ہے کہ ان کے گھر اعلیٰ پکوان پکیں اور میرے بچے لسی سے روٹی کھائیں، تو ہم سے سب کچھ چھِن سکتا ہے"۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ یہ بات سن کرہم کانپ گئے تھے۔ اسی طریقے سے ہمارے ٹریننگ سیشن ہوتے رہتے تھے۔
میں نے شبیر سے پوچھا کہ گاؤں میں تندور نہیں تو چنے بھوننے والی بھٹی تو ہوگی؟ کہنے لگا اب کوئی نہیں ہے۔ میں نے پوچھا، گاؤں کے لوگ گرمیوں میں کسی بڑے درخت کے نیچے اور سردیوں میں پرالی پر تو بیٹھتے ہوں گے؟ کہنے لگا، سب اپنی اپنی بیٹھکوں میں بیٹھتے ہیں۔ میں نے پوچھا، لڑکے کبڈی تو کھیلتے ہوں گے؟ کہنے لگا، اب صرف کرکٹ کھیلتے ہیں۔
میں نے پوچھا گرمیوں میں نوجوان قریبی راجباہ (چھوٹی نہر) کے پُل پر بیٹھ کر ماہیے تو گاتے ہوں گے، کہنے لگا سب اپنے اپنے موبائلوں میں گُم رہتے ہیں، میں نے پوچھا عید کی رات بچیاں پینگیں تو جھولتی ہوں گی؟ کہنے لگا وہ بھی موبائلوں پر میسج کرتی ہیں یا فلمی گانے سنتی ہیں۔ میں نے کہا ہم تو بھائی اقبال بٹ کے تانگے پر بیٹھ کر شہر (وزیرآباد) جاتے تھے جس کی کی گھوڑی رانی، ریل گاڑی کا مقابلہ کرتی تھی۔ کچھ لوگوں کے تانگے تو ہوں گے، کہنے لگا سب نے تانگے بیچ کر رکشے لے لیے ہیں۔ میں یہ جواب سن کربڑی افسردگی سے اپنے اَصلی (Original)گاؤں کو یادوں میں تلاش کرنے لگا۔
(جاری ہے)