آج کے کالم میں بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کو خفیہ رکھنے پر وزیرِاعظم کے اصرار پر بھی بات ہوگی، سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی منظرِ عام پر آنے والی وڈیوز کے بارے میں اظہارِ خیال ہوگا اور چیئرمین نیب کی ایکسٹینشن یا تقرری کے طریقہ کار پر بھی اپنی رائے دوں گا مگر سب سے پہلے ایک انتہائی نامناسب اور قابلِ گرفت روایت پر بات کروں گاجو ایک سابق اور متنازعہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے شروع کی تھی۔
ہمارے جی سی اور لاء کالج کے کلاس فیلو ثاقب نثار نے جو اپنے منصب سے رخصت ہو چکے ہیں، کھل کر جانبداری سے کام لیا، پی ٹی آئی کو ہر کیس میں ریلیف دیا اور پی ایم ایل این کے قائد اور ملک کے وزیرِاعظم کو مضحکہ خیز بنیاد پر پوری عمر کے لیے نااہل قرار دلوایا، بالکل اُسی طرح کے کیس میں شیخ رشید کو بری کردیا اور عمران خان صاحب کو آؤٹ آف دی وے جاکر نہ صرف بہت بڑا ریلیف دیا بلکہ انھیں صادق، اور امین، بھی قرار دے دیا۔ اب حال ہی میں لندن سے شہباز شریف صاحب کے حق میں فیصلہ آنے پر ان کے حامی انھیں صادق اور امین قرار دے رہے ہیں۔
راقم نے اُس وقت جسٹس ثاقب نثار کے فیصلے کے فوراً بعد اپنے کالم میں اس چیز کا نوٹس لیتے ہوئے لکھا تھا کہ صادق، اور امین، کے القاب صرف اور صرف آقائے دوجہاں حضرت محمدﷺ کے لیے مخصوص ہیں اور کوئی اور انسان اِن القاب کا نہ دعویٰ کرسکتا ہے نہ حقدار ہوسکتا ہے۔
نبی کریم ؐ کے بعد کسی بڑے سے بڑے صحابی ؓ (حالانکہ صحابہؓ بھی اپنی دیانت اور کردار میں پوری انسانیت کے لیے رول ماڈل ہیں)نے صادق اور امین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ حضورؐ کے سوا کوئی نیک ترین عابد و زاہد انسان بھی صادق اور امین قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسروں کو صادق اور امین قرار دینے والے جج خود صادق اور امین قرار نہیں دیے جاسکتے، اس لیے اس ضمن میں سب کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور جو القاب صرف نبی کریم ؐ کے لیے مخصوص ہیں وہ کسی اور انسان کے لیے ھرگز استعمال نہ کیے جائیں۔
X————–X————X
جہاں تک بیرونِ ممالک سے وزرائے اعظم کو ملنے والے تحائف کا تعلق ہے تو کوئی اور وزیرِاعظم ان کی تفصیل بتانے سے انکار کرتا تو شاید اتنا شدید ردعمل نہ آتالیکن عمران خان صاحب نے تحائف کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا اور ایک قابلِ اعتماد نوجوان وزیر سے کہلوادیا کہ اس سے تحائف دینے والے خفا ہوتے ہیں۔
دونوں باتیں ہی ناقابلِ فہم ہیں، امریکا اور کئی دیگر ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو عرب ممالک سے ملنے والے تحائف کی مکمل تفصیل جاری کی جاتی ہے اور کچھ بھی خفیہ نہیں رکھا جاتا۔ دوسرا یہ کہ عمران خان صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جہاں اور بہت سے کیس بنوائے ہوئے ہیں وہاں توشہ خانے یعنی تحائف کے سلسلے میں بھی میاں نوازشریف کے خلاف کیس درج کرایا ہوا ہے۔
توقع تو یہ تھی کہ سابق وزیرِاعظم کے خلاف مقدمے درج کرانے والا وزیرِاعظم خود تمام تحائف سرکاری مال خانے (توشہ خانے) میں جمع کرادے گا، مگر وہ تو ان کی تفصیل بتانے سے بھی گریزاں اور انکاری ہے۔ جو شخص تحائف کی تفصیل بتانے سے انکار کررہا ہے کیا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ دوسروں کے خلاف تحائف لینے کے مقدمے چلاتا پھرے اور کیا اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پنڈورا لیکس کی منصفانہ تحقیقات کرائے گا۔
حضرتِ فاروقِ اعظمؓ نے ایک بار باہر سے تحائف لینے پر ایک گورنر کی باز پرس کی اور یہ کہہ کر اُسے وہ تحائف بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دے دیا کہ "اگر تم گورنر نہ ہوتے تو کیا تمہیں یہ تحائف ملتے"۔ عمران خان صاحب چاہے بڑے معروف کھلاڑی تھے اور دنیا بھر میں ان کی شہرت تھی مگر اس طرح کے تحائف انھیں کرکٹر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ملک کے وزیرِاعظم کی حیثیت سے ملتے ہیں۔
میری اس ضمن میں تجویز یہ ہے کہ تمام سیاسی، سول اور عسکری حکام پر یہ لازم ہوکہ باہر سے ملنے والے تحائف سرکاری توشہ خانے میں جمع کرائیں اور ہر سال ان کی نیلامی ہوا کرے، جس سے حاصل ہونے والی آمدنی غرباء پر خرچ کی جائے، سرکاری لنگر خانوں کا نام طعام گاہ رکھا جائے جہاں سے غریب اور نادارافراد صرف دس روپے دیکر پیٹ بھرکے کھانا کھاسکیں۔
X————–X————X
سابق گورنر محمد زبیر کی جو وڈیوز لیک ہوئی ہیں، وہ کئی تجربہ کار تفتیشی افسران کے مطابق جعلی نہیں لگتیں۔ ویسے بھی اُن کا کوئی سیاسی قد کاٹھ ہے نہ وہ فصیح و بلیغ ہیں اور نہ ہی وہ کسی کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے تھے، لہٰذا وہ حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے۔
عسکری حلقوں میں بھی ان کے دیرینہ مراسم ہیں، اس لیے ان کے خلاف سازش کون کرے گا؟ اہم بات یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی شخصیت کے ایسے وڈیو کلپس کو ذاتی معاملہ، کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ہماری تمام بڑی سیاسی پارٹیاں امریکا اور یورپ کو رول ماڈل سمجھتی ہیں اور وہاں کے لیڈروں سے متاثر ہوتی ہیں اور وہاں کے کلچر کی (عمران خان صاحب کی طرح) بار بار مثالیں دیتی ہیں۔ اب کچھ معیار گرا ہے مگر اب بھی پوری سوسائٹی چاہے خود اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو مگر اپنے لیڈروں کو بے داغ دیکھنا چاہتی ہے۔
جنسی اسکینڈلز کے نتیجے میں امریکا اور یورپ میں کئی اہم ترین لیڈروں کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکاہے۔ ہمارے ملک میں ہر اس شخص کی زندگی جو پبلک آفس ہولڈر رہا ہو یا اس کا امیداوار ہو، کھلی کتاب کی طرح ہونی چاہیے اور عوام کا یہ حق ہے کہ انھیں اس کے بارے میں مکمل معلومات ہوں کہ مالی اور اخلاقی طور پر وہ کیسا ہے۔ اخلاقی طور پر داغدار شخص کو کوئی مہذب معاشرہ اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے تو آئین میں درج ہے کہ کوئی ایسا شخص جو اخلاقی طور پر داغدار کردار کا مالک ہے وہ کسی پبلک آفس کے لیے اہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اہم ترین عہدوں پر براجمان افراد یا ان عہدوں کے خواہش مند پبلک فگر کی حیثیت سے پبلک پراپرٹی بن جاتے ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی پہلو پرائیوٹ نہیں رہ جاتا۔ میرے خیال میں مسلم لیگ ن کی قیادت پر لازم ہے کہ وہ محمد زبیر کو پارٹی سے فارغ کردیں اور عملی طور پر ثابت کرے کہ مسلم لیگ کوئی سیکولر پارٹی نہیں بن گئی بلکہ اس کے قائدین کی بانیانِ پاکستان کی طرح اسلامی اقدار اور اسلامی نظریۂ حیات کے ساتھ وابستگی مستحکم اور لازوال ہے۔
X————–X————X
نیب کے چیئر مین بڑے عرصے تک اعلیٰ عدلیہ کے جج رہے ہیں، لہٰذا وہ اپنے فرائض اس طرح انجام دیتے کہ ان کے ادارے پر ملک کے ہر طبقے کا اعتماد قائم ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور وہ متنازعہ بن گئے۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ نیب کی زمامِ کار انھی کے ہاتھوں میں رہے، مگر حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی ہوگا اور عدالتِ عظمیٰ بھی اسے قبول نہیں کرے گی۔
حکومتی افلاطون فرماتے ہیں کہ لیڈر آف دی اپوزیشن سے اس معاملے میں رائے اس لیے نہیں لی جائے گی کیونکہ ان کے خلاف نیب کے کیس ہیں، ویسے تو آئے دن عدالتیں ان کیسوں میں شہباز شریف صاحب کو بری کر رہی ہیں اور نیب کے تفتیشی افسران سرزنش کر رہی ہیں مگر کیا اُس لیڈر آف دی ہاؤس کو چیئرمین نیب مقرر کرنے کا اختیار ہونا چاہیے جسے مالم جبّہ سے لے کر بی آر ٹی تک ہر کیس میں دلچسپی ہو، جو اپنے ساتھیوں کو بچانے اور اپنے سیاسی مخالفین کو پکڑوانے کے لیے نیب کو استعمال کرنا چاہتا ہو۔ میرے خیال میں چیئرمین نیب کی تقرّری میں کسی سیاستدان کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
میں اپنی کتاب "Straight Talk" میں تفصیلاً لکھ چکا ہوں کہ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر حکومتی کنٹرول سے باہر ہوں اورانکے سربراہوں کا انتخاب ایک پانچ رکنی سرچ کمیٹی کے ذریعے کیا جائے جو ملک کے انتہائی باکردار اور نیک نام افراد پر مشتمل ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کو مشروط طور پر دے دیا جائے کہ وہ ان جج صاحبان میں سے کسی کو چیئرمین نیب مقرر کریں جنھوں نے آخری پی سی او پر حلف لینے سے انکار کیا تھا اور آئین کی پاسبانی کے لیے اپنے کئی سالہ کیریئر کو قربان کردیا تھا۔
پسِ تحریر: انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جن وزیروں اور مشیروں کے نام پنڈورا لیکس میں آئے ہیں انھیں عہدوں سے ہٹا دیا جائے اور پنڈورہ لیکس میں آنے والے پاکستانیوں کی انکوائری سپریم کورٹ کے ان جج صاحبان میں سے کوئی ایک جج صاحب کریں جنھوں نے کوئی بھی پلاٹ لینے سے انکار کردیا ہے۔