اپنی برادری یعنی بیوروکریسی کے کچھ (جونیئر) ساتھیوں کا طرزِ عمل دیکھ کر دکھ اور شرم کی ملی جلی کیفیّت میں زبان سے فوری طور پر یہی الفاظ نکلے جوعنوان میں لکھ دیے ہیں۔ ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ ڈالر کی پرواز اور روپے کی گراوٹ رکنے میں نہیں آرہی، ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہو تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
ریڑھی پر مکئی کی چھلیاں بیچنے والے بھی چھلیوں کی قیمت بڑھادیتے ہیں، ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے، جس کا دباؤ ہم جیسے مڈل کلاس کے لوگ بھی بڑی شدّت سے محسوس کررہے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس، مزدوری کر کے گھر کا چولہا جلانے والے اور چھوٹے گریڈوں والے سرکاری ملازمین کو تو اس مہنگائی نے کچل کر رکھ دیا ہے۔
وہ اگر بچوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں تو بجلی کا بل ادا نہیں کرسکتے۔ بجلی اور گیس کا بل دیتے ہیں تو والدین کے لیے دوائیں نہیں خرید سکتے، دوائیں خریدیں تو کنبے کو دو وقت روٹی نہیں کھلاسکتے، پچھلے دو سالوں سے حالات ایسے ہیں کہ بھوک سے تنگ مائیں بچوں سمیت نہروں میں کود رہی ہیں، غربت اور بیروزگاری کے مارے ہوئے باپ بچوں کو قتل کرکے خودکشی کررہے ہیں۔
مجھے یہ حُسنِ ظن تھا کہ عوام کے یہ دگرگوں حالات اور ملکی معیشت کی انتہائی خطرناک صورتِ حال دیکھ کر اعلیٰ عہدوں پر براجمان اور بہترین تنخواہیں اور بیشمار مراعات سے فیضیاب افسروں کے دل نرم ہوئے ہوں گے اور کروڑوں لوگوں کی حالتِ زار دیکھ کر ان میں ایثار اور قربانی کا جذبہ بیدار ہوا ہوگا اور وہ خود وزیراعظم سے مل کر پیشکش کریں گے کہ "سر! چھ مہینے یا ایک سال تک ہماری مراعات اور تنخواہیں بھی تیس فیصد تک کم کردیں"۔
یقین جانیں کہ مجھے اس خبرپر یقین ہی نہیں آیا کہ افسر شاہی کی ہوسِ زر اس قدر لامحدود ہے اور اس میں اس قدر اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ اِس وقت جب کہ ملک مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے اور ملک کی معیشت آئی سی یو میں ہے، بااثر بیوروکریٹ حکومت سے اپنی تنخواہوں میں 150% اضافہ کروا لیں گے۔ ایسا کرنے والوں میں خدا کا خوف ہے نہ ملک کی پرواہ ہے اور نہ مہنگائی سے بلبلاتے ہوئے عوام سے کوئی ہمدردی ہے۔ ایسا کر کے انھوں نے نہ صرف غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے بلکہ آئی سی یو میں کراہتی ہوئی معیشت کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا ہے، اس لیے انھیں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے،۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔
یہ تشویشناک خبر پڑھ کر میں نے وزیرِاعظم صاحب کو پیغام بھیجا تھا کہ "اِن حالات میں جب کہ چند روز پہلے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں اور ان میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ایگزیکٹیو الاؤنس کے نام پر ان کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافے کاکوئی جواز نہیں، اسے واپس لیا جانا چاہیے"، راقم تو موجودہ وزیرِاعظم سے صرف ایک بار ملا ہے جب کہ بیوروکریٹ ہر وقت وزیرِاعظم کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔
وہ کسی بھی وقت پرائم منسٹر سے مل سکتے ہیں اور پھروہ اتنے ہوشیار اور فنکار ہیں کہ وزیرِاعظم کا موڈ دیکھ کر بات کرتے ہیں، وہ اس طرح کی فائلیں وزیرِاعظم کا انتہائی خوشگوار موڈ دیکھ کر نکلواتے ہیں، موڈ خراب ہوتو وہ اپنے اوپر بھی رنج و الم اور غم و یاس کے جذبات طاری کرلیتے ہیں۔
خیال تو یہی تھا کہ جب بیوروکریٹ پرائم منسٹر کے پاس تنخواہیں بڑھانے والی فائل لے کر گئے ہوں گے تو وزیرِاعظم صاحب نے انھیں ضرور کہا ہوگا کہ "دیکھو ملک economic meltdownکی طرف جارہا ہے، عام لوگوں کے حالات کتنے دگرگوں ہوگئے ہیں، معیشت کی خطرنات صورتحال کو تم اچھی طرح جانتے ہو، کیا ان مشکل ترین حالات میں بھی تم تنخواہوں میں اضافہ کرانا چاہتے ہو، کوئی شرم ہوتی ہے،۔ کوئی حیا ہوتی ہے"، یہ سنکر فائل برداروں کو واقعی شرم آئی ہوگی اور وہ معذرت کرکے فائل سمیت واپس چلے گئے ہوں گے۔
مگرمیں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان حالات میں بیوروکریٹ اپنی تنخواہیں بڑھوانے میں کیسے کامیاب ہوگئے، یعنی اس وقت جب کہ خزانہ خالی ہے، یہ سنگدل اور لالچی افسران وزیرِاعظم کو قائل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ ہمارے ایک دوست (جو خود بھی ایک ریٹائرڈ سیکریٹری ہیں) کا کہنا ہے کہ ہمارے جونئیر کولیگ چونکہ بڑے ذہین ہیں اس لیے انھوں نے سب سے پہلے مزاحمت کرنے والی وزارت کو اپنا اتحادی بنایا ہوگا، یعنی سیکریٹری خزانہ کو قائل کیا ہوگا، پھر خالی خزانے کے وزیر کو، جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ بن چکا ہے کہ معیشت ان سے بالکل نہیں سنبھالی جارہی اور ڈالر تو ان کے کنٹرول سے اس طرح نکل چکا ہے جس طرح پرویز الٰہی اینڈ سنز کے ہاتھ سے چاچا شجاعت حسین نکل گیا ہے۔
پوری نون لیگ مفتاح پر انگلیاں اُٹھارہی ہے، ہر طرف سے اس پر تنقید کی بوچھاڑ ہورہی ہے، اس معاندانہ ماحول میں سینئر سیکریٹریوں نے جب ان یہ کہا ہوگا کہ "سر! معیشت کو آپ نے جس طرح کنٹرول کیا ہے، اس طرح کبھی دیکھا ہے نہ سنا ہے، آپ نے تو کمال کردیا، ایک طرف آپ نے آئی ایم ایف کو قابو کیا ہوا ہے اور دوسری طرف ڈالر آپ کے ڈر سے بھاگا جارہا ہے، آپ جیسا قابل وزیرِ خزانہ اس ملک کو آج تک نہیں مل سکا۔ بس ذرا پی ایم صاحب سے کہہ کر سینئر آفیسرز کو ایگزیکٹیوالاؤنس دلادیں تو اس سے ہر طرف حکومت کا اور آپ کا ڈنکا بجے گا اور یہ میسج جائے گا کہ ملک کے معاشی حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔
اسی لیے حکومت اس قابل ہوگئی ہے کہ آفیسرز کو ایگزیکٹیو الاؤنس دے سکے"۔ ایسی مضبوط اور دلکش دلیل سن کر کون ہے جو خوش نہ ہو، یوں پرائم منسٹر کو قائل کرلیا گیا اور فائل نکلوائی گئی ہوگی، ورنہ اِن حالات میں کوئی اعلیٰ بیوروکریٹ، وزیرِخزانہ ایسی غیردانشمندانہ، غیرمنصفانہ بلکہ ظالمانہ تجویز کی کبھی حمایت نہ کرتا۔ جونہی ایگزیکٹیو الاؤنس کی خبر میڈیا کے ہاتھوں میں آئی تو سمجھیں کہ ملک کے کونے کونے یعنی ہر محکمے اور ہر دفتر تک پہنچ گئی۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ اور افسر کو دیکھ کر افسر رنگ بدلتا ہے۔
افسروں کا ایک گروپ اگر خزانے سے کچھ مال اُڑا لینے میں کامیاب ہوگیا تو اس نیکی کے کام میں دوسرے گروپ کیسے پیچھے رہتے، اس سلسلے میں سب سے پہلے پنجاب کی لوئر جوڈیشری نے انگڑائی لی اور سیشن جج صاحبان بھی ایک فائل لے کر ہائی کورٹ پہنچ گئے کہ چونکہ ہم نے پنجاب کے عوام کو انصاف سے مالامال کردیا ہے، اس لیے ہمیں جوڈیشل الاؤنس دلایا جائے اور عوام یہ سن کر شاید چیخ اُٹھیں کہ انھیں بھی اسپیشل جوڈیشل الاؤنس دے دیا گیا ہے۔ ایثار اور قربانی کا یہ جذبہ دیکھ کر سرکاری بینکوں کے ملازمین نے بینکنگ الاؤنس کا مطالبہ کردیا ہے۔
چند روز بعد عسکری اداروں کی طرف سے ڈیفنس الاؤنس کا مطالبہ ہوگا اور پولیس ملازمین رسک الاؤنس مانگیں گے۔ ایک سینئر سفارتکار بتارہے تھے کہ فارن سروس کے افسران فارن کنٹری الاؤنس مانگنے کی فائل تیار کر رہے ہیں، اگر کسی مرحلے پر وزیرِاعظم نے مزاحمت کی تو دلیل دی جائے گی کہ "سر جہا ں اتنے بلین قرضہ لینا ہے، ایک بلین ڈالر اور سہی، یہ سینئر افسر آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے" جس ملک کے کروڑوں باشندوں کو دو وقت کی روٹی میسّر نہ ہو وہاں ہم اسپیشل الاؤنس کے نام پر چھ چھ لاکھ ماہانہ تنخواہ لیں اور کچھ لوگ دس دس لاکھ ماہانہ پنشن لیں تو کیا یہ ہمارے ضمیر وں پر بوجھ نہیں ہوگا، کیا ہمارا احساسِ جرم ہمیں آرام سے سونے دیگا؟
چند سال پہلے جب راقم کو NAVTTCکا سربراہ مقرّر کیا گیا تو مجھے وزیراعظم آفس نے مطلع کیا کہ آپ کو اسپیشل اسکیل ایم پی ون دیا جائے گا (جو تقریباً 5/6 لاکھ بنتا تھا) میں خاموش رہا۔ کچھ عرصے بعد جب ایک میٹنگ میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھا کہ آپ ایم پی ون کی تنخواہ ہی لے رہے ہیں ناں؟ تو میں نے جواب دیا "نہیں، میں اس غریب ملک میں چھ لاکھ لوں گا تو میرا ضمیر مجھے صبح شام ملامت کرے گا، میں صرف ڈیڑھ لاکھ لے رہا ہوں"۔ میں حیران ہوں کہ سرکاری افسروں کو جوکہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی آخری تنخواہ پر کام کرنے کے لیے بخوشی تیار ہوتے ہیں۔
ان کی آخری تنخواہ سے چار پانچ گنا زیادہ پر کیوں رکھا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر رکھے گئے تمام ملازمین کی تنخواہیں معلوم کرے اور اسے موجودہ حالات اور وسائل کے مطابق Rationalise کیا جائے۔ ہم قرض میں جکڑے ہوئے ہیں مگر ہمارا طرزِزندگی امیر ترین قوموں سے بھی بڑھ کر ہے۔
شادی ہالوں، مہنگے ترین ریستورانوں اور بڑے بڑے اسٹوروں پر جاکر دیکھ لیں۔ حکمران اور بالائی طبقے کی نمود و نمائش اور فضول خرچیاں اسی طرح قائم ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اور بالائی طبقہ خود مثال قائم کرے اور پوری قوم سے کہے کہ وہ ایک سال نئے کپڑے نہیں بنوائیں گے، مہنگے ہوٹلوں میں کھانے نہیں کھائیں گے، میک اپ سمیت کوئی امپورٹڈ چیز استعمال نہیں کریں گے، ہفتے میں تین دن سودا سلف لانے کے سوا گاڑی کا استعمال نہیں کریں گے اور اپنے اخراجات ایک سال کے لیے چالیس فیصد کم کریں گے توانشااللہ معیشت اُٹھ کھڑی ہوگی۔