کوشش کے باوجود کوئی ایسا ملک نہیں ملا، افریقہ کے انتہائی پسماندہ خطّے میں بھی نہیں، جہاں نئی نسل اپنی قومی زبان نہ پڑھ اور نہ لکھ سکتی ہو، جہاں اپنی قومی زبان کو حقیر سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہو اور سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں کوئی غیر ملکی زبان رائج ہو۔
اگر قومی زبان کے ساتھ ہمارا طرزِعمل ایسا ہی رہا تو اردو کا مستقبل مخدوش ہوجائے گا بلکہ اس کا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا، جس سے اس قدر نقصان ہوگا جس کا اندازہ ہمارے تصوّر سے بھی باہر ہے۔ صرف دبئی اور امریکا میں ہونے والے چند مشاعروں سے اردو کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔
وطنِ عزیز میں اردو کے ساتھ ہم ایسا تضحیک آمیز سلوک کیوں کررہے ہیں؟ کیا بانیانِ پاکستان کے نزدیک بھی اردو کی کوئی اہمیّت نہ تھی؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قائداعظم ؒ کو اس کا بخوبی ادراک تھا، اس لیے یہ قومی وحدت کی علامت اور پانچوں صوبوں کی زنجیر ہے، دوسری اہم بات یہ کہ اردو کے دامن میں ہمارا دینی اور ادبی سرمایہ محفوظ ہے، انھی وجوہات کی بناء پر قائداعظم نے اسے قومی زبان قرار دیا تھا۔ انگریزی کی اہمیّت بجا، مگر کیا ترقّی کی کلید صرف انگریزی ہے؟ کیا انگریزی کے بغیر ترقّی کے زینے پر چڑھنا ناممکن ہے؟ نہیں یہ غلط ہے، کوئی قوم غیر ملکی زبان کے ذریعے ترقّی یافتہ نہیں بن سکتی۔
جرمنی برطانیہ کے قریب واقع ہے مگر وہاں بازاروں میں ایک بھی بورڈ انگریزی میں نظر نہیں آتا۔ کون نہیں جانتا کہ جرمنی مادی ترقّی اور خوشحالی میں برطانیہ کو پچھاڑ کر پورے یورپ کا چوہدری بن گیا ہے۔ چین ترقّی کی دوڑ میں پورے یورپ سے آگے نکل چکا ہے، انگریزی سے لاعلمی کبھی چین یا جرمنی کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنی۔ مگر ہم ہیں کہ انگریزی زبان اور تہذیب کی غلامی ہمارے رگ و پے سے ہی نہیں نکل رہی۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسلامیات اور تاریخِ اسلام بھی انگریزی میں پڑھا رہے ہیں۔
کئی اصحابِ دانش سے اس کی وجہ دریافت کی تو سب نے ایک ہی جواب دیا، احساسِ کمتری، حکمران طبقے کا بدترین احساسِ کمتری۔ پھر پوچھا کہ اردو کے ساتھ ایسا تحقیر آمیزسلوک کب شروع ہوا؟ قائدِاعظم اور ان کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان دونوں انگریزی خوان تھے مگر وہ اردو کو عزّت اور اہمیّت دیتے تھے اور بتدریج اسے دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر بھی رائج کرنے کے خواہشمند تھے تو پھر ہم بے سمت کب ہوئے؟
متفقہ جواب ملا کہ بگاڑ سینڈھرسٹ کے تربیّت یافتہ جنرل ایوب خان سے شروع ہوا جو انگریزی بولنے کی مہارت کو ہی قابلیّت کا معیار سمجھتے تھے اور قریبی رفقاء کے ساتھ اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے، "شلوار کرتا اور واسکٹ پہن کر اردو اور بنگالی بولنے والے سیاستدان عالمی لیڈروں سے کیسے بات کریں گے، یہ ملک چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ ہم امپورٹڈ سوٹ پہننے اور فرفر انگریزی بولنے والے نظامِ ریاست چلانے کے زیادہ اہل ہیں "۔
توقّع تو یہ تھی اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ قیامِ پاکستان کے زیادہ سے زیادہ دس سال بعد اردو کو سرکاری یعنی دفتری اور عدالتی زبان بنا دیا جاتا مگر سول اور عسکری بیوروکریسی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ چونکہ انگریزی میں مہارت کی بنیاد پر ہی وہ ملک پر راج کررہے تھے، اُسی مہارت نے انھیں برتری اور "حقِ حکمرانی" عطا کیا تھالہٰذا انھوں نے اپنی برتری کے خودساختہ پیمانے کو ختم نہیں ہونے دیا، بلکہ انگریزی کی گرفت اور بالادستی کو مزید مستحکم کیا۔ یہ دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی کہ انگریز آقاؤں کے جانے کے چوہتّرسال بعد بھی کسی ایک غیر اہم سے شعبے میں بھی ہماری قومی زبان انگریزی کی جگہ نہ لے سکی۔
امن و امان اور عدل و انصاف کے شعبہ جات ہی لے لیں، صورتِ حال یہ ہے کہ ضلع کا سپرنٹنڈنٹ پولیس کوئی جرم یا کوتاہی کرنے پر سپاہی کو طلب کرتا ہے تواس سے ساری پوچھ گچھ اردو میں کرتاہے، سارے سوال و جواب اردو یا مقامی زبان میں ہوتے ہیں مگر ایس پی اس انکوائری کا فیصلہ انگریزی میں لکھاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس انگریزی میں بھیجا جاتا ہے جسے جونیئر ملازمین پڑھ بھی نہیں سکتے اور کسی تجربہ کارکلرک سے اس کا مطلب پوچھتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں تفتیشی افسران کے چالان (ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 173کے تحت تیّار کی گئی رپورٹ) اور گواہوں کے بیانات کی بنیاد پرفوجداری مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ 173ض ف کی رپورٹ اردو میں تحریرہوتی ہے، گواہ مقامی زبان میں بیان دیتے ہیں، جج کی گواہوں اور ملزمان کے ساتھ بات چیت بھی اردو یا مقامی زبان میں ہوتی ہے۔
ٹرائیل کورٹ میں وکلاء بھی اردو میں دلائل دیتے ہیں مگر جج صاحبان فیصلہ انگریزی میں لکھاتے ہیں، جس کے لیے بعض اوقات انھیں ریٹائرڈ ماہرین معاوضے پر رکھنے پڑتے ہیں۔ جب ساری کارروائی اردو میں ہوتی ہے تو فیصلہ اردو میں کیوں نہیں لکھوایا جاسکتاجسے دونوں فریق آسانی سے پڑھ بھی سکیں اور سمجھ بھی سکیں۔ نہ اس کی منطق سمجھ میں آتی ہے اور نہ ہی سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں ابھی تک غیر ملکی زبان کی بالادستی قائم رکھنے پر اصرار کے فوائد نظر آتے ہیں۔ سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اردو زبان کو رائج کرنے کے ضمن میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے مگر اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے اور اسے نافذ کرنے میں سیاسی قیادت اور بیوروکریسی دونوں مجرمانہ کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہیں۔
سینٹرل سپیریئر سروسز(CSS)کا امتحان بھی دراصل انگریزی زبان میں مہارت ہی کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ دو اہم ترین سروسز کو دیکھ لیں، پولیس سروس میں شامل ہونے والے اے ایس پی، ضلع کے سربراہ اور ڈویژن کے ڈی آئی جی بن کر بھی عوام اور اپنے ماتحتوں سے اردو یا مقامی زبان میں بات کرتے ہیں، اسی طرح ڈی ایم جی میں شامل ہونے والے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر ہوں یا بیس سال بعد بننے والے کمشنر، وہ بھی اپنے ماتحتوں اور عوام کے ساتھ اردو یا مقامی زبان میں بات چیت کرتے ہیں۔
یعنی سروس کے بیس پچیس سال دونوں اہم ترین سروسز کے افسران انگریزی کا ایک فقرہ بولے اور لکھے بغیر گزارہ کرسکتے ہیں، یہی حال فنانس سروسز کا ہے، مگر ان سروسز میں شمولیّت کے لیے ان کا ٹیسٹ ایک ایسی زبان میں لیا جاتا ہے جس کی انھیں پچیس سال تک کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں نے کئی ایسے بیوروکریٹ دیکھے ہیں جو محض اعلیٰ انگریزی میں تیار کی گئی presentationsسے حکمرانوں کو متاثر بلکہ مرعوب کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں حالانکہ فیلڈ میں وہ بالکل ناکام ہوتے ہیں۔
شہری پس منظر رکھنے والے کئی ایسے افسر بھی، پورے محکمۂ زراعت کے انچارج (سیکریٹری) بھی رہے ہیں جو سمجھتے تھے کہ گندم درختوں پر اُگتی ہے، انھوں نے صرف انگریزی میں مہارت کی بنیاد پر اپنی نام نہاد "قابلیّت"کی دھاک بٹھائی ہوتی ہے۔
میں نے فیلڈ میں بھی اور اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں بھی دیکھا ہے کہ کئی عوامی نمائندے انگریزی دان افسروں سے کہیں زیادہ ذھین اور دانش مند ہوتے ہیں، وہ علاقائی مسائل پر جب مقامی زبان یا اردو میں بات کرتے ہیں تو شرکاء متاثرہوئے بغیر نہیں رہتے مگر چونکہ وہ انگریزی نہیں بول سکتے اس لیے وہ محکوم ہیں اور انگریزی بولنے اور لکھنے والا بیوقوف اور ابنارمل ہوتے ہوئے بھی ان کا حاکم ہے۔ افسر اور عوام ایک ہی زبان میں بات کریں گے تو جعلی قابلیّت بے نقاب ہوجائے گی۔ صرف انگریزی زبان کے بَل پر اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کی ضد میں ہماری بیوروکریسی اس حد تک منہ زور ہوگئی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات پر عملدرآمد نہیں ہونے دے رہی۔
راقم اس سلسلے میں وزیرِ اعظم کے سابق مشیر ڈاکٹر عشرت حسین صاحب (جوپرانے مہربان ہیں اور کراچی میں میری پہلی کتاب کی رونمائی میں بھی شریک تھے) اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے پچھلے چیئرمین (جو دوست بھی تھے) سے بھی ملتا رہا، دونوں سے یہی کہا گیاکہ ہمارے سول سرونٹس اپنی سروس کے بیس سال جس زبان کا ایک فقرہ لکھے بغیر گزار تے اور بخوبی گزارتے ہیں اور اس زبان کی انھیں ایک دن بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تو پھرامتحان اُس زبان میں کیوں لیا جارہا ہے؟
دونوں نے اتفاق کیا۔ پھر میں نے تجویز کیا کہ اردو میں دلچسپی اور مہارت پیدا کرنے اور اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ CSS اور PCSکے امتحانات میں سو نمبر کا لازمی پرچہ اردو زبان کا ہو، اس کے علاوہ پاکستان افیئرز اور اسلامیات کے پرچے صرف اردو زبان میں لیے جائیں۔ دلیل سے اتفاق کرنے کے باوجود عملی طور پر کچھ نہ ہوا کہ اس کے لیے اسٹیٹس کو توڑنے کی ضرورت تھی اور مذکورہ صاحبان ایسے جذبے سے عاری تھے۔ ویسے کسی بھی اچھے کام کے لیے حقیقی تبدیلی کا تبدیلی سرکار میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ (جاری ہے)
پسِ تحریر: ابھی ابھی اردو کے معروف شاعر، دانشور اور کالم نگار محترم ڈاکٹر اجمل نیازی کی وفات کی خبربڑے دکھ کے ساتھ سنی ہے، ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج لاہور کے معروف استاد اور منفرد لب ولہجے کے بیباک شاعر اور ادیب تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائیں۔