پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں وزیرِاعظم عمران خان کی تقریر میں گھسی پٹی باتوں کی تکرار، الزامات کی بھرمار اور مقتدر حلقوں کے لیے ڈری ڈری اور خوفزدہ سی للکار تھی۔
ہمارے ملک میں چونکہ ناخواندہ، جذباتی اور شخصیت پرست لوگوں کی اکثریت ہے اس لیے یہاں تقریریں اور نعرے آسانی سے بک جاتے ہیں، عمران خان صاحب کئی سالوں سے اپنی تقریریں بڑی کامیابی سے بیچ رہے ہیں۔
اس کے باوجود کہ انھوں نے ساڑھے تین سالوں میں عوام کو گرانی اور بیڈگورننس کے تحفے دیے ہیں مگر ان کے چاہنے والے اور جیالے ان سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ جلسے کی تعداد یقیناً اتنی نہیں تھی کہ کسی پر دباؤ ڈالا جاسکتا، اب بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی آخری سیڑھیاں اتر رہے ہیں۔
کسی مذہبی پارٹی نے بھی مخالفین کو باطل قرار نہیں دیا مگر وزیرِاعظم صاحب نے سوموٹو ایکشن کے تحت اپنی پارٹی کو حق اور نیکی اور اپنے سیاسی مخالفین کو باطل اور بدی قرار دے دیا اور امربالمعروف کے حکم اِلٰہی کو سیاسی معنی پہنا کراس کی انتہائی تشویشناک تشریح کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ امربالمعروف کا مطلب ہے پی ٹی آئی کا ساتھ دو۔
انھوں نے پی ٹی آئی اور اس کے سیاسی مخالفین کی سیاسی جنگ کو حق اور باطل کا معرکہ قرار دے دیا۔ بہت سے جید علماء سے بات ہوئی تو وہ بھی حیران تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسا شخص جو مخالفین پربلاثبوت الزام لگاتا ہے، ان کے نام بگاڑتا اور انھیں برے القاب سے پکارتا ہے، جس کا طرزِ زندگی شاہانہ ہے، وہ اپنے آپ کو حق اور نیکی قرار دے تو آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ " کلبوشن یادیو کو این آر او دینے والے اور سودی نظام کو تحفظ دینے والے وزیرِ اعظم کس منہ سے امربالمعروف کا نام لیتے ہیں۔ انسانی ذہن کو بہت آسانی سے گمراہ کیا جاسکتا ہے، نیم خواندہ لوگ اپنے جعلی پیروں کے بارے میں اندھی عقیدت پال لیتے ہیں اور "حضرت صاحب" کے کردار پر لگے بدنما داغ بھی انھیں نظر نہیں آتے یا وہ انھیں دیکھ کر بھی صرفِ نظر کرتے ہیں۔
جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان اور اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے اہم ترین اور انتہائی باکردار لوگ تھے، وہ ان کی ایمانداری پر بھی انگلیاں اُٹھاتے ہیں۔ ان کے دوست چوہدری نثار علی نے پریس کانفرنس کرکے ان پر ٹیکس چوری کرنے کے الزام لگائے، توشاخانے میں رکھے گئے تحائف کی فہرست عدالت میں جمع نہیں کرائی جارہی۔ ہائیکورٹ کے حکم پر پشاور بی آر ٹی میں گھپلوں کی انکوائری ایف آئی اے کے ایک دیانتدار افسر نے شروع کردی تھی اور اس نے بتایا تھا کہ کافی گڑبڑ ہے، اگر حکومت یہ انکوائری ہونے دیتی تاکہ مال بنانے والے بے نقاب ہوتے اور انھیں سزا دی جاسکتی مگر انکوائری کے خلاف اسٹے آڈر لے کر انکوائری رکوادی گئی۔
وہ فارن فنڈنگ کیس رکوانے کے لیے کیوں ایٹری چوٹی کا زور لگاتے؟ اب الیکشن کمیشن کی انکوائری میں کچھ چیزیں ظاہر ہوگئی ہیں توخان صاحب نے اپنے گیارہ بینک اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ حکومت کے اہم ترین لوگوں پر دوائیوں، گندم اور چینی اسکینڈل میں اربوں روپے بنانے کے الزامات لگے مگر خان صاحب کی حکومت نے انھیں قانون کے حوالے کرنے کے بجائے انھیں تحفُظ فراہم کیا اور ان کا بال تک بیکا نہیں ہونے دیا۔ کرپشن سے ان کی مراد صرف سیاسی مخالفین کی کرپشن ہے ورنہ انھیں اپنے وزیروں اور اتحادیوں کی کرپشن گوارہ ہے۔
پنجاب کا ہر باخبر شخص جانتا ہے کہ ہر سرکاری محکمے میں کرپشن ماضی سے کئی گنا بڑھ گئی ہے، اپنے خلاف عدمِ اعتماد تحریک جسے وہ حق و باطل کی جنگ قرار دے رہے ہیں، میں اپنا اقتدار بچانے کے لیے انھوں نے یوٹرن لینے اور اصولوں کو روندنے کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں مگر یہ تمام حقائق جانتے ہوئے بھی ان کے پیروکار کہتے ہیں کہ وہ بااصول ہیں اور کرپشن کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔
وزیرِاعظم صاحب نے جلسے میں ایک خط لہراتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے خلاف بیرونی سازش ہے۔ اگر ایسا تھا تو پرائم منسٹرکو فوری طور پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلاکر عسکری قیادت کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، ایسا حساس معاملہ ڈسکس کرنے کے لیے وہی مناسب ترین فورم ہے مگر اس کا اجلاس بلانے کے بجائے جلسوں اور جلوسوں میں ایسی باتیں کرنا غیر ذمے داری اور وزیرِاعظم کے عہدے کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
کئی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ایسا کرکے وزیرِاعظم ملکی مفاد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ امریکا اور یورپ ان کے خلاف کیوں سازش کریں گے، لیڈر آف دی اپوزیشن کا سوال درست ہے کہ انھوں نے کہاں اُن کی حکم عدولی کی ہے، ان کی وجہ سے افغانستان کو تسلیم نہیں کیا، سی پیک کو غیر فعال بنادیا، آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط قبول کرلیں، اسٹیٹ بینک کو گروی رکھ دیا۔ ملک کو خود مختار بنانے کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسا ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا دعویٰ ہے۔
کچھ باخبر لوگوں کا خیال ہے کہ جوخط لہرایا گیا وہ کسی بیرونی ملک کے عہدیدار کا نہیں ایک پاکستانی سفارتکار کا خط ہے جو خوشامدانہ قیافوں پر مشتمل ہے۔ جہاں تک بڑی طاقتوں کو No کہنے کا تعلق ہے تو ان کے اپنے وزیرِ خارجہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا نے ہم سے اڈے مانگے ہی نہیں اس لیے انکار کا کوئی سوال ہی نہیں تھا، ایک انٹرویو کے غیر اہم سے سوال کے جواب میں عمران خان نے Absolutly not کہا تھا جسے وہ اپنے خلاف عدمِ اعتماد سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اخلاص کی تشہیر نہیں کی جاتی، سچی محبت کا ڈھول نہیں بجایا جاتا، علامہ اقبالؒ کی نبی کریم ؐ سے عقیدت اور عشق اس قدر تھا کہ حضورؐ کے نامِ مبارک سنتے ہی ان کی آنکھیں نمناک ہوجاتی تھیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ختم نبوت کے مسئلے پر سزائے موت سنا دی گئی مگر انھوں نے کبھی اس کا چرچا نہیں کیا۔
مگر عمران خان صاحب مذہب پر تقریر کو بھی تشہیر کے لیے اور عوام میں اپنے لیے پسندیدگی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے تقریر میں فصلیں اچھی ہونے کا کریڈٹ بھی اپنے آپ کو دے دیا حالانکہ کسانوں کے لیے موجودہ حکومت کی خدمات صرف اتنی ہیں کہ یوریا کھاد کی بوری جو نواز شریف کے دور میں 1600روپے کی ملتی تھی وہ 2500میں بھی دستیاب نہ ہوسکی کیونکہ کھاد بیرونِ ملک اسمگل کردی گئی، اس معاملے پر بھی کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
ڈی اے پی کھاد جو نوازشریف کے دور میں 2500 روپے میں ملتی تھی، ان کے دور میں دس ہزار تک چلی گئی۔ ان کی باتوں اور عمل میں تضادات پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ خان صاحب کا اپنا طرزِ عمل یہ ہے کہ بااثر ہونے کی وجہ سے انتخابات کے نگران ادارے الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مثالیں صحابہ کرام کی دیتے ہیں۔ انھوں نے حضرت علیؓ کے مقدمے کا ذکر کیا کہ خلیفہ ہوتے ہوئے بھی مقدمے کا فیصلے ان کے خلاف ہوگیا، مگر حضرت علیؓ نے یہ نہیں کہا تھا کہ قاضی پیسے کھا گیا ہے یا میرے مخالف سے مل گیا ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو وزیراعظم صاحب نے خود نامزد کیاتھا، مگرکوئی فیصلہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں آیا تو انھوں الزام لگادیا کہ وہ تو نواز شریف سے مل گیا ہے۔
عمران خان صاحب دراصل اپنے سحر میں مبتلا ہوکر نرگسیت کا شکار ہوچکے ہیں، اپنے آپ سے مسحور ہوکر انھوں نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ساڑھے تین سال میں جتنی اچھی کارکردگی ہماری حکومت کی رہی ہے، اتنی اچھی کسی اور حکومت کی نہیں رہی، اس پر تو پی ٹی آئی حامیوں کے لیے بھی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوگا۔ ٹی وی پر ان کے ایک حامی ریٹائرڈ جنرل صاحب چند روز پہلے یہ کہہ رہے تھے کہ اتنا پانی ہماری ساری نہروں میں نہیں جتنا حکومت کی بری کارکردگی نے ہماری امیدوں پر ڈال دیا ہے۔
آخری بات یہ کہ ان کا خطاب حکومت سے محروم ہونے کے بعد اپنے ورکروں کو متحرک رکھنے کے لیے تھا، وہ یقیناً ایک مضبوط اور موثر اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔