گھر کو آگ لگی ہو تو ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان کی طرف نہیں، پانی کی بالٹی کی طرف جانے چاہئیں۔ وطنِ عزیز کی صورتِ حال بلاشبہ اتنی تشویشناک ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے انتہائی قابلِ احترام جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی عدالتی روایات سے ہٹ کر قوم کو متحد ہونے کی تلقین کی ہے۔
یہ درست ہے کہ یہ وقت گلے شکوؤں اور طعن وتشنیع کا نہیں، ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر خوفناک معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا ہے۔ مگر یہاں تو ایک فریق دوسرے کا وجود تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے گھر کو لگی آگ بجھانے پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ عمران خان صاحب صرف فوری الیکشن کا راگ الاپ رہے ہیں، ان کے نزدیک فوری الیکشن ملک کے سارے مسائل حل کر دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اگر وہ فوری الیکشن کا اعلان نہیں کرے گی تو ہم اسلام آباد پر چڑھائی کردیں گے۔
اس ضمن میں وہ اسٹیبلشمنٹ سے بار بار یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں دوبارہ اقتدار دلانے میں مدد کریں۔ اگر یہاں قانون کی حکمرانی اور آئین کا احترام ہوتا تو کپتان صاحب کے ایسے بیان جرم تصور کیے جاتے اور تمام متعلقہ حلقوں اور اداروں کی جانب سے اس کا سخت نوٹس لیا جاتا۔
آئیے!دیکھتے ہیں کہ کیا کپتان صاحب کا فوری الیکشن کرانے کا مطالبہ جائز اور درست ہے؟ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ تحریکِ عدم اِعتماد آنے کے بعد کپتان صاحب جانتے تھے کہ پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوگی۔ اگر وہ 172 ووٹ پورے لیں گے تو اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لہٰذا انھوں نے حکومت بچانے کے لیے دن رات ایک کردیا، بھرپور مہم چلائی۔
اس کے لیے تمام حکومتی وسائل استعمال کیے، وہ کسی قومی کاز کے لیے نہیں اپنی وزارت عظمٰی بچانے کے لیے سرکاری جہاز، گاڑیاں اور فنڈز استعمال کرتے رہے، اور ووٹ مانگنے کے لیے کبھی کراچی، کبھی لاہور کے دورے کرتے رہے۔
اگر ہمارے ہاں بھارت کے چیف الیکشن کمشنربا اختیار اور مضبوط ہوتا تو عمران خان کو سیاسی دوروں کے لیے سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرنے سے منع کردیتا۔ بہرحال کپتان صاحب نے اپنے اتحادیوں اور اپنی پارٹی کے ناراض ارکان کو ساتھ رکھنے کے لیے لالچ، تحریص اور دھمکیوں سمیت ہر حربہ استعمال کیا اور زرداری صاحب کو بھی رام کرنے کی کوشش کی، مگر بات نہ بنی جب کہ اتحادیوں کو دوسری جانب بہتر مستقبل نظر آیا تو وہ اُدھر چلے گئے اور کپتان صاحب الیکشن ہار گئے۔
اس میں کہیں بھی آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ خان صاحب اپنے منحرف ارکان پرتو الزام لگاتے رہے مگر وہ کسی اتحادی پارٹی پر امریکا کا ایجنٹ ہونے یا پیسے لے کر ووٹ بیچنے کا الزام نہیں لگاسکے۔ اگر وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے تو نہ کوئی خط لہرایا جاتا اور نہ کسی بیرونی سازش کا شوشہ چھوڑا جاتا۔ مگر کیا الیکشن ہارنے والے کا یہ طرزِ عمل جائز ہے؟ کیا کسی جمہوری ملک میں کپتان صاحب جیسا طرزِ عمل روا رکھا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اب یہ دیکھیں کہ کیا فوری الیکشن موجودہ صورتِ حال کا حل ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران صاحب بارہا یہ ثابت کر چکے ہیں کہ سیاست میں وہ اسپورٹس مین اسپرٹ سے محروم ہیں۔
لہٰذا الیکشن ہارنے کی صورت میں وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے اور پھر کنٹینر پر چڑھ کر کسی لانگ مارچ کی کال دے رہے ہوں گے۔ فرض کریں اگر وہ الیکشن جیت جاتے ہیں (جس کا امکان بہت کم ہے) تو کیا وہ پہلے سے بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کریں گے؟ اس کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ وہ آتے ہی کچھ اداروں پر چڑھ دوڑیں گے اور کچھ مزید افراد کو انتقام کا نشانہ بنائیں گے، اس سے انتشار مزید بڑھے گا۔ معیشت کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کی نہ ان میں استعداد ہے اور نہ صلاحیّت۔ جس حکومت اور جس حکمران کی نا اہلی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت آئی سی یو میں پہنچی ہے، اُسی سے یہ توقع کرنا کہ وہ دوبارہ آکر اسے ٹھیک کودے گا، میر تقی میر کا یہ شعر یاد دلاتا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
لہٰذا فوری الیکشن سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں ہے، دوسری جانب حکومتی پارٹیوں کا موقف ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کر نے اور دھرنے دینے سے اگر حکومتیں ختم ہونے لگیں تو کوئی حکومت بھی نہیں چل سکے گی کیونکہ جتھے لاکر چڑھائی کرنے اور اسلام آباد میں دھرنے دینے کا کام تو ہر اپوزیشن کرسکتی ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے صرف آئینی راستہ اختیار کیا جانا چاہیے جس طرح موجودہ حکومتی اتحاد نے اختیار کیاہے۔
پی ایم ایل این کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا پیدا کردہ گند ہم نے اپنے سر لے کر بہت بڑا رسک لیا ہے، ہم نے یہ ذمے داری لے کر دراصل ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور ملک کی سلامتی کو خطرے سے نکالنے کے لیے قربانی دی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ ملکی سلامتی کے محافظ اداروں نے جب دیکھا کہ عمران خان اور اس کی ٹیم نے ملکی معیشت کو اس قدر برباد کردیا ہے کہ اس کے لیے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے جس سے ملکی سالمیت بھی خطرے میں پڑگئی ہے تو انھوں نے اسے بچانے کے لیے کسی ماہر طبیب کی تلاش شروع کی۔
ماضی کے تجربے اور ریکارڈ کی بنیاد پر مقتدر حلقے اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر معیشت بحال کرنے کی کسی سے امید کی جاسکتی ہے تو وہ مسلم لیگ ن کی معاشی ٹیم ہے، چنانچہ زرداری صاحب آگے بڑھے مگر مسلم لیگی قیادت کو قائل کرنے میں خاصا وقت لگا۔ اب مسلم لیگ ن کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ انھیں جو مشکل اور انتہائی ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں یعنی ساٹھ روپے لیٹر کے حساب سے پٹرول اور اسی طرح بجلی کی قیمت بڑھانی پڑرہی ہے تو یہ سب عمران حکومت کی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ اُن کے معاہدے کا نتیجہ ہے۔
ہم نے عمران خان کا پیدا کردہ گند اس اعتماد کے ساتھ اپنے سر لیا ہے کہ ہمیں کم از کم ایک سال ملے گا تاکہ ہم معیشت کی سانسیں بحال کرکے اسے آئی سی یو سے نکال لیں، ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائے، ڈالر نیچے آجائے اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں کنٹرول میں آجائیں۔ بلاشبہ ایک سال کا عرصہ انھیں ضرور ملنا چاہیے مگر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے غریب عوام کا کچومر نکل گیا ہے اور مہنگائی ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ مفتاح اسمٰعیل مرض کی صحیح تشخیص کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس لیے پرائم منسٹر کو چاہیے کہ وہ بزنس کمیونیٹی کی خواہش کے مطابق حکیم اسحاق ڈار کو لاکر آزمائیں۔
الیکشن ایک ایسا سیاسی دنگل ہے جو امپائر یا ریفری کے بغیر منعقد نہیں ہوسکتا، لہٰذا الیکشن کمیشن انتہائی اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اس کے مطابق انتخابات نومبر سے پہلے منعقد نہیں کیے جاسکتے۔ عمران خان کا مطالبہ مان لیا جائے تو بھی نومبر سے پہلے الیکشن نہیں ہوسکتے، حکومت کی بات مانی جائے تو اس سے چھ ماہ بعد ہوجائیں گے لہٰذا فرق صرف چھ سات مہینے کا ہی بنتا ہے۔ ان حالات میں میری تجویز ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ عمران خان کو engage کرنے کی کوشش کرے اور ان سے مذاکرات کا آغاز کرے۔
عمران خان صاحب کو بھی ضد چھوڑ دینی چاہیے اور اپنی انا کو آسمان کی بلندیوں سے زمین پر لانا چاہیے اور یہ رَٹ چھوڑ دینی چاہیے کہ میں حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔ جب انھوں نے لاکھ تحفظات کے باوجود آپ کی حکومت کو تسلیم کرلیا تھا تو آپ کو بھی یہ تلخ حقیقت مان لینی چاہیے کہ انھوں نے ایک آئینی طریقے سے آپ کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے۔
قوم کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہے، یہ قوم کا بہت بڑا امتحان ہے، اس مشکل ترین چیلنجز کا مقابلہ ہم دو ہتھیاروں سے کر سکتے ہیں، اتحاد اور قربانی۔ دنیا کی کئی قومیں اس سے بدترحالت سے گزری ہیں اور انھوں نے اتحاد اور جذبہ قربانی سے ابتر حالات کو شکست دی ہے، کیا ہم کچھ عرصے کے لیے اپنی پارٹی، دھڑے، قبیلے اور مسلک کی عینک اُتار رکر صرف پاکستانی بن کر سوچنے کے لیے تیار ہیں۔
اگر ہم ایسا کرسکے تو مشکلات پر قابو پالیں گے۔ حکمران، امراء اور ہر ادارے کے افسران کا فرض ہے کہ وہ قربانی دینے میں مثال بنیں، اس موقع پر ہم اپنے اپنے حال میں مست نہ رہیں بلکہ مہنگائی سے متاثر ہونے والے کم وسیلہ بہن بھائیوں کا ہاتھ تھام لیں۔ ہر وزیر، ایم این اے، ایم پی اے، چیئرمین اور کونسلر ایثار فنڈ قائم کرے، اپنے حلقے کے غریب اور بے روزگار لوگوں کی فہرستیں تیار کرے اور بے وسیلہ افراد کو ہر مہینے موٹر سائیکل کے پٹرول کے لیے دوہزار اور بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے مزید دوہزار روپے فراہم کریں۔ خوشحال لوگ دل کھول کر ایثار کا مظاہرہ کریں۔ اتحاد اور ایثار سے ہم مہنگائی کے ہیبت ناک دیو کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیں گے۔