آج سے چند سال پہلے کی بات ہے ایک روز پولیس کے ایک تربیتی ادارے کے سربراہ (کمانڈنٹ) نے فون کیا "سر! ہمارے ڈپٹی کمانڈنٹ نے کل کالج میں ایک موٹیویشنل اسپیکر کا لیکچرکرایا ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا، پولیس افسروں کو وہ شخص کیسے motivate کرسکتا ہے جو پولیس سروس کے کلچر سے ہی واقف نہیں ہے۔
میرے خیال میں پولیس افسروں پر سب سے زیادہ اُس افسر کی باتیں اثر انداز ہوسکتی ہیں جس نے اس ادارے میں نوکری کر کے عزت اور نیک نامی کمائی ہو، لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ آپ آکر پولیس افسروں سے خطاب کریں" میں نے ان کی دعوت قبول کرلی۔
میرے دورے کے دوسرے روز کمانڈنٹ کا پھر فون آیا، "ڈپٹی کمانڈنٹ میرا ہم خیال ہوگیا ہے اور اب اس کی درخواست ہے کہ آپ ایک بار پھر لیکچر کے لیے آئیں کیونکہ ہال میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ہم سارے افسرجمع کرسکتے۔ "
ایک بار پولیس اکیڈمی میں زیرِ تربیت اے ایس پی صاحبان سے خطاب کے لیے ایک ریٹائرڈ آئی جی کو بلایا گیا۔ اُس نے دیانتداری پر وعظ کرنا شروع کیا تو نوجوان اے ایس پی منہ نیچے کرکے ہنسنے لگے کیونکہ وہ موصوف کے "کارناموں" سے واقف تھے۔
کسٹمز سروس کے کولیگ بتاتے تھے کہ کسٹمز اکیڈمی میں جس اسپیکر نے سب سے زیادہ اثر (impact) چھوڑا وہ ایک اپریزر تھاجو رزقِ حلال پر قناعت کرتا تھا، اس لیے پورے محکمے میں اس کی سب سے زیادہ عزت تھی۔ راقم کچھ دیر کے لیے نیشنل پولیس اکیڈمی کا کمانڈنٹ مقرر ہوا تو ایک روز ہم گیسٹ اسپیکرز کی لسٹ تیار کرنے لگے۔
کئی آئی جی صاحبان کے نام آئے جس پر فیکلٹی کے نوجوان افسروں نے اعتراض کیا کہ "یہ تو عہدوں کے لیے بااثر لوگوں کی منتیں کرتے رہتے ہیں، ان کا طرزِ عمل قائدانہ نہیں فدویانہ اور خوشامدانہ رہا ہے، یہ نوجوان افسروں کو کیا میسج دیں گے" لہٰذا ان کے نام پر سرخ دائرہ لگا دیا گیا۔
یہ درست ہے کہ کچھ مقرر اپنے زورِ خطابت سے اور کچھ اسپیکرچند بڑے اور کامیاب لوگوں کے واقعات سنا کر سامعین کو متاثر کرلیتے ہیں لیکن یہ تاثر وقتی اور محدود وقت کے لیے ہوتا ہے۔ سب سے شدید اور دُوررس اثر مقرر کے اپنے کردار کا ہوتا ہے۔
اگر سامعین کویہ پتا ہو کہ جو شخص انھیں ایمانداری کی فضیلت بتا رہا ہے وہ خود ہر قسم کی ترغیبات کو ٹھکراتا رہا ہے اور مواقعے ہوتے ہوئے بھی صرف رزقِ حلال کھاتا رہا ہے تو خطابت کے فن سے نا آشنا ہونے کے باوجود اس کی سیدھی سادھی باتیں بہت اثر کرتی ہیں۔
اگر کوئی سیلف میڈ آدمی کسی سیڑھی اور سہارے کے بغیر صرف اپنی محنت اور جدوجہد کے بَل پر ترقی کے اوجِ کمال تک پہنچا ہے تو اسے مبالغہ آمیز کہانیاں گھڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی، اس کا ہر لفظ وزنی ہوگا اور اس کی ہر ادا اثر چھوڑے گی۔
میری دوسری کتاب "دو ٹوک" مارکیٹ میں آئی تو اس کے کچھ عرصے بعد ہمارے دوست شہباز احمد شیخ نے مجھے ایک کلپ بھیجا جس میں معروف اسپیکر قاسم علی شاہ نے کتاب اور مصنف کا بڑی عزت اور احترام سے تعارف کرایاتھا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد لاہور کے الحمرا ہال کی ایک تقریب میں موصوف سے مختصر ملاقات ہوئی۔
اس کے علاوہ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر میرا ان کے بارے میں حُسنِ ظن رہا ہے کہ وہ لوگوں کو کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے اصول اور طریقے بتاتے ہیں اور نوجوانوں کو اخلاقی اقدار سے روشناس کراتے ہیں، میرا گمان ہے کہ ان کے موضوعات یہی ہوتے ہوں گے۔
موٹیویشنل اسپیکرز کا کاروبار اب دنیا بھر میں چل رہا ہے۔ کئی لوگوں نے اسے پیشے کے طور پر اپنالیا ہے، ہر شخص کو قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔
اگر وہ محنت کرتے ہیں اور مختلف کتابوں سے کامیابی کے گُر یاد کرتے ہیں، مختلف فیلڈز کے کامیاب افراد کے حالاتِ زندگی پڑھتے ہیں اور پھر وہ چیزیں اپنے سامعین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کچھ ادارے یقیناً یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی تقریریں ان کے ورکروں میں محنت کرنے کا جذبہ پیدا کرسکتی ہیں، اسی لیے انھیں مدعو کیا جاتا ہے۔
پیشہ ور اسپیکرز پر عموماً دو قسم کے اعتراض کیے جاتے ہیں، پہلا یہ کہ یہ لوگ عملی نہیں ہوتے، صرف کتابی باتیں کرتے ہیں۔
کتابی باتیں عملی زندگی کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے میں ہمیشہ مفید ثابت نہیں ہوتیں اور کتابی ٹوٹکے ناموافق ہواؤں میں زندگی کی کشتی دریا پار کرکے کنارے پر لگانے میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوپاتے۔ دوسرا یہ کہ وہ تقریروں کے پیسے وصول کرتے ہیں یعنی اپنا علم اور ہنر بیچتے ہیں اور تقریر یا گفتگو کے پیسے لینے والے مقرر کبھی کسی کو imotivate نہیں کرسکتے۔ مگر یہ ایک نقطۂ نظرہے، اس کی مخالفت میں بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیاں مختلف ممالک کے سابق حکمرانوں کو بھاری معاوضے دے کر لیکچر کے لیے بلاتی ہیں، مگر ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ سابق حکمرانوں کو موٹیویشنل اسپیکرز کے طور پر نہیں بلکہ ایسے باخبر اور بااختیار افراد کے طور پر بلایا جاتاہے جنھوں نے اپنے فیصلوں سے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثرکیا۔
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ لوگ دیکھتے ہیں کہ بات کرنے والا کون ہے! سامعین پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ مقرر کا ذاتی کردار ہے۔
اعلیٰ کردار حرف کو حرمت عطا کرتا ہے۔ کردار کی خوشبو بادِنسیم کی مانند پھیلتی ہے اور سامعین کے جسم کو ہی نہیں روح کو بھی معطر کردیتی ہے۔ مقرر کے کردار کی پاکیزگی اور پختگی اس کے الفاظ کو وہ تاثیربخشتی ہے جو سامعین کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے۔
1940سے سینتالیس کی تاریخ نے دنیا کو دکھا دیا کہ کردار کی عظمت سامعین کو ایسے اعتماد اور یقین سے سرشار کرتی ہے کہ نہ سمجھ آنے والی اجنبی زبان سن کر بھی وہ مقرر کی بات پر ایمان لے آتے ہیں۔
اور کردار میں کجی ہو اور اخلاص مشکوک ہو تو لاکھوں کے مجمعوں کو مٹھی میں بند کرلینے والے آتش بیان بھی سامعین کو ہمنوا بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔
آج سے پانچ سال پہلے جب مجھے ایشیا کے سب سے بہترین تربیتی ادارے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں" فکرِ اقبال اور جدید لیڈر شپ کا تصور" کے موضوع پر لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تو میں نے اُس وقت کے کمانڈنٹ جنرل ندیم انجم سے پوچھا تھا کہ آپ نے اس موضوع پر گفتگو کے لیے کسی یونیورسٹی پروفیسر کے بجائے ایک منتظم کا انتخاب کیوں کیا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا کہ "ہم نے ایک پریکٹیکل آدمی کو اس لیے بلایا ہے کہ ہمارے افسران کو یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے کہ ایک منتظم کو فکرِ اقبال نے کس طرح متاثر کیا ہے اور ایک اچھی شہرت کے پولیس افسر نے اپنی عملی زندگی میں شاعرِ بے مثل کے نظریات سے کیسے رہنمائی حاصل کی ہے۔ "
خدا کا خاص فضل وکرم اور میری خوش بختی تھی کہ میری پیدائش ایسے گھرانے میں ہوئی جس نے مجھے فکر معاش سے بے نیاز کردیا، لہٰذا میں نے سوچا کہ میں جو کچھ ہوں اس ملک کی وجہ سے ہوں، چنانچہ میں اپنا علم، ہنر اور تجربہ اس ملک کے طلباو طالبات یا نوجوان افسروں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں تو یہ اُن کا حق اور میرا فرض ہے۔
میں ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیکچر کا معاوضہ وصول نہیں کروں گا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ لیکچر کے بعد متعلقہ ادارے کا کوئی افسر لفافہ لے کر آپہنچا یا مجھے بعد میں چیک بھیج دیاگیا، مگر میں دستخط کر کے رقم متعلقہ ادارے کو واپس بھیج دیتا ہوں کہ اس سے مستحق طلبا کی فیسیں جمع کرادیں یا لائبریری کے لیے چند اچھی کتابیں لے لیں۔
مگر ضروری نہیں کہ ہر شخص معاش کے مسائل سے بے نیاز ہو، اگر یہ کسی کا پیشہ اور کیرئیر ہے تو وہ معاوضہ وصول نہیں کرے گا تو گھر کیسے چلائے گا۔
کسی ٹیچر کے لیے لیکچر کی فیس وصول کرنا معیوب نہیں مگر قاسم علی شاہ کا، جو اپنے آپ کو استاد کہتا ہے، ایک سیاستدان کے سامنے اختیار کیا جانے والا طرزِ عمل انتہائی معیوب اور undignified تھا۔ اُن کا بیٹھنے کا انداز فدویانہ، بات کرنے کا انداز خوشامدانہ اور ٹکٹ مانگنے کا انداز دکاندارانہ تھا، استاد مانگتے نہیں، دیتے ہیں۔
انھیں اُستادانہ وقار اور شان کا خیال رکھنا چاہیے تھا، صوبائی اسمبلی کے ایک ٹکٹ کے لیے انھوں نے تمام اساتذہ کو بے توقیر کیا ہے۔
دوسری جانب اگر کوئی ملاقاتی کسی سیاستدان سے ملنے کے بعد اس کے رویے کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے تو اُس کے پیروکاروں کو وہ بات تحمل اور حوصلے کے ساتھ سننی چاہیے، مگر موٹیویشنل اسپیکر نے اُن کے جارحانہ رویے سے خوفزدہ ہوکر اپنے آپ کو مقامِ معلمی سے دوبارہ گرادیا، جو بہت افسوسناک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہماری عزت، پردہ اور بھرم قائم رکھے۔ اس موضوع پر کالم لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، قارئین کے اصرار پر لکھ دیا ہے۔
پسِ تحریر: ملک کے معروف دانشور، کالم نگار اور سابق سول سرونٹ اظہار الحق صاحب نے اپنے حالیہ کالم جسٹس وجیہہ الدین اور ذوالفقار احمد چیمہ کے نام، میں مُلکی حالات سے پریشان اور بیتاب ہوکر جو تجویز دی ہے اُس پر آیندہ اظہارِ خیال کروں گا۔