ہمارے اوورسیز پاکستانی بلاشبہ ملک کے بارے میں ہم سے زیادہ حساس ہیں۔ وہ وطن عزیز کے بارے میں بری خبر سن کر تڑپ اٹھتے ہیں، کسی مشکل کا شکار ہوکر ملک مدد کے لیے پکارے تو فوراً لبیک کہتے ہیں اور اس کے لیے مالی ایثار میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
مجھے یاد ہے 1998 جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو بتادیا کہ "اب پاکستان ایک ایٹمی قوّت ہے" تو امریکا اور یورپ نے ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ اُس وقت وزیراعظم نوازشریف نے جب اس عزم کا اظہار کیا کہ "ہمیں عالمی مہاجنوں کی محتاجی قبول نہیں، ہم ان کے سارے قرضے اتاردینگے" تو پرائم منسٹر آفس میں ہر روز اوورسیز پاکستانیوں کے صرف یہ پوچھنے کے لیے ہزاروں میسج موصول ہوتے تھے کہ "ہمیں بینک اور اکاؤنٹ نمبر بتادیں، جہاں ہم ملک کا قرض اتارنے کے لیے پیسے بھیج سکیں۔ " بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کے انھی جذبوں کے پیشِ نظر انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ کالم اسی خواہش پر لکھا گیا ہے کہ ملک کی محبت سے سرشار ہماری یہ انتہائی قابلِ احترام کمیونٹی پھلے پھولے اور وطنِ عزیز کے لیے مذید بہتر، موثراور تعمیری کردار ادا کرسکے۔ اب میں براہِ راست اپنے اوورسیز بھائیوں، بہنوں اور نوجوانوں سے مخاطب ہوتا ہوں۔
میرے پیارے اور محترم بھائیو اور بہنو! آپ صدیوں سے تسلیم شدہ اس اٹل حقیقت سے تو انکار نہیں کریں گے کہ "ہم تقسیم ہوئے تو گر جائیں گے اور متحد رہے تو کھڑے رہیں گے" یعنی اتحاد میں ہماری طاقت مضمر ہے اور نفاق اور انتشار ہمیں کمزور کردے گا۔ لہٰذا اگر آپ دبئی، برطانیہ یا امریکا میں رہتے ہوئے گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ دوسرے کا گریبان پکڑے گا اور دوسرا گروہ چوکوں اور چوراہوں میں پہلے کے خلاف نعرے لگائے گااور اپنے ہی ہم وطنوں کو سرِ عام گالیاں دے گا تو کیا اس سے آپ کی اور آپ کے ملک کی عزت میں اضافہ ہوگا؟ کیا اس سے آپ کی جگ ہنسائی نہیں ہوگی؟ کیا دیکھنے والے آپ کا اور آپ کے ملک کا مذاق نہیں اڑائیں گے؟ تلخ حقیقت یہی ہے کہ ایسا کرنے سے اغیار آپ پر ہنسیں گے، اس سے آپ اپنا مذاق بھی بنوائیں گے اور آپ کے ملک کا امیج بھی مسخ ہوگا۔
بھارت میں بھی ہماری طرح سیاست بہت گرم ہے اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتی ہیں، اگر آپ کو لندن کے ٹریفالگر اسکوائر پر یہ تماشا دیکھنے کو ملے کہ مودی کی بی جے پی کے سپورٹرز، راہول گاندھی کی کانگریس پارٹی کے حامیوں پر حملہ آور ہوئے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا اور جو تم پیزار ہیں، تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اسے اظہارِ رائے کی آزادی قرار دے کر اس کی تحسین کریں گے یا اس کا ٹھٹھہ اڑائیں گے اور اس پر ناپسندیدہ رائے کا اظہار کریں گے؟ آپ یقیناً اس کا مذاق اڑائیں گے، اور بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوگی۔ مگر آپ ایسا تماشا کبھی نہیں دیکھ پائیں گے کیونکہ وہ کسی کو اپنے ملک کا مذاق اڑانے کا موقع نہیں دیں گے۔
بدقسمتی سے اپنے آپ کو تماشہ بنانے کا اعزاز صرف پاکستانیوں کو حاصل ہے، جرمنی میں بڑی تعداد میں ترک آباد ہیں، ترک قوم بھی طیب اردوان کے حامیوں اور مخالفوں میں تقسیم ہے، اپنے ملک میں وہ کھل کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، مگر کیا کسی نے کبھی جرمنی کے چوکوں اور چوراہوں پر ترکوں کو ایک دوسرے سے دست وگریباں دیکھا ہے؟ ہرگز نہیں، اس لیے کہ وہ ایک شاندار ماضی کے حامل ہیں اور انھیں قابلِ فخر رہنما statesmen)) میسر رہے ہیں اور آج بھی میسرہیں، جنھیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ وہ ترکی کی سیاست کو اپنے گھر سے باہر یعنی غیر ملکی سرزمین پر لے جائیں گے اور دیارِ غیر میں ایک دوسرے پر تنقید کریں گے تو پوری دنیا میں خود بھی مذاق کا نشانہ بنیں گے اور ملک کو بھی رسوا کریں گے۔
لہٰذا مہذب قوموں نے یہ طے کررکھا ہے کہ ہم اختلافی سیاست گھر کے اندر رہ کر کریں گے، اپنے گندے کپڑے دوسرے ملکوں کی سڑکوں اور چوراہوں پر کبھی نہیں دھوئیں گے اور اپنے ادنیٰ سیاسی مقاصد کے لیے اپنے آبائی وطن کو کبھی بے توقیر نہیں ہونے دیں گے، بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور رہنماؤں نے بیرون ملک جانے والے پاکستانی باشندوں کو نہ Ethics کی تربیت دی اور نہ ہی انھیں وہاں پاکستان کی سیاست کرنے اور تقسیم ہونے سے روکا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
آج سے بارہ سال پہلے میں نے "خدارا اووسیز پاکستانیوں کو تقسیم نہ کریں " کے عنوان سے پہلا کالم لکھا تھا جس کی حمایت میں مجھے بیرون ممالک سے سیکڑوں ای میلز موصول ہوئی تھیں، بیرون ممالک رہنے والے پروفیشنلز اور باشعور خواتین وحضرات پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی بیرون ملک شاخیں قائم کرنے اور وہاں پاکستان کی سیاست کرنے اور اس کی وجہ سے باہم اختلاف اور انتشار کا شکار ہونے پر سخت نالاں ہیں۔
یورپ اور امریکا میں تعینات رہنے والے درجنوں پاکستانی سفیروں سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا ہے، سب اس چیز کے پرزور حامی ہیں کہ بیرون ممالک میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر بند ہونے چاہیے، انھیں کسی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لینا چاہیے جو انھیں تقسیم کرے۔ اگر وہ متحدرہیں گے تو ان کی طاقت اور اہمیت میں اضافہ ہوگا اور وہ اپنی کمیونٹی اور ملک کے لیے زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں گے۔
چند ماہ پہلے مجھے یورپ کی ایک معیاری یونیورسٹی میں پڑھانے والی ڈاکٹر ارم آفتاب صاحبہ نے ای میل بھیجی تھی، انھوں نے لکھا تھا "پاکستان واحد ملک ہے جس کے باشندے برطانیہ میں ایک دوسرے کے خلاف جلوس نکالتے ہیں۔ اتنا دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ قومی تہواروں پر بھی پاکستانیوں نے قومی پرچم کے بجائے اپنی پارٹیوں کے جھنڈے اُٹھائے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیڈروں کو چور اور بدکار کہہ کر گالیاں دیتے ہیں۔
دنیا بھر کا میڈیا ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ برطانوی شہری پاکستانیوں کو برطانیہ کی سرزمین پر ایک دوسرے سے دست و گریبان دیکھ کر بڑی حقارت سے کہتے ہیں "یہ پاکستانی کس طرح کی قوم ہے" بھارت کے تارکینِ وطن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے، مگر وہ برطانیہ کی سرزمین پر بھارت کی سیاست نہیں کرتے، وہ متحد ہوکر یہاں کی مقامی سیاست میں حصّہ لیتے ہیں، اسی لیے ان کے ہم سے کہیں زیادہ لوگ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، پاکستانی متحد ہوں تو برٹش پارلیمنٹ کی زیادہ نشستیں جیت سکتے ہیں اور پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں"۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے علامہ اقبال کونسل کی جانب سے اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا تھا جس میں منتخب نمایندوں، دانشوروں اور سینئر صحافیوں کے علاوہ پاکستان کے وہ سفیر حضرات بھی شریک ہوئے جو برطانیہ، امریکا اور مڈل ایسٹ میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ تمام شرکاء کا یہ متفقہ موقف تھا کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں میں Polorisation اور تقسیم کم کرنے کی ضرورت ہے، انھیں پاکستانی سیاست میں الجھانے سے ان کے درمیان نفاق بڑھے گا اور ان کی طاقت کمزور ہوگی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی باشندوں کے درمیان نفرت اور مخاصمت کے کانٹے بونے کے بجائے اتحاد اور یگانگت کا پھول اُگائیں۔
مجھے بارہا برطانیہ جانے اور وہاں برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں پاکستانیوں کے اجتماعات سے خطاب کرنے کا موقع ملاہے، اُن سے جب بھی پوچھا کہ برطانیہ میں پاکستانی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر ہونے چاہئیں؟ تو وہ باآوازِ بلند کہتے تھے "ہرگز نہیں ہونے چاہئیں " برطانیہ میں کئی نسلوں سے مقیم پاکستانی ڈاکٹروں، پروفیسروں اور پروفیشنلز سے بھی رابطہ رہتا ہے، ان کی واضح اکثریت divided loyality کے حامل افراد کو پاکستانی پارلیمنٹ کا ممبر بنانے بلکہ ووٹ کا حق دینے کی حامی نہیں ہے۔
ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دی جاتی ہے، صرف متحدہ عرب امارات میں رہنے والے بھارتی باشندے 42ارب ڈالر سالانہ اپنے وطن بھیجتے ہیں، مگر انھیں بھارت میں ووٹ کا حق نہیں ہے، کسی بڑے جمہوری ملک میں دہری شہریت رکھنے والوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، اور نہ وہ اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کا حق اتنا دلکش نہیں کہ جس کے لیے ہمارے تارکینِ وطن تڑپ رہے ہوں یا پُرزور مطالبہ کررہے ہوں۔ ووٹ کا حق اوورسیز پاکستانیوں کامطالبہ نہ کبھی رہا ہے اور نہ اب ہے۔ یہ حق اتنا ہی دلکش ہوتا تو پاکستان میں رہنے والے (جنھیں یہ حق حاصل ہے) تمام شہری یہ حق استعمال کیا کرتے مگر ان میں سے آدھے بھی یہ حق استعمال نہیں کرتے۔
بارہ سال پہلے لکھے گئے کالم میں کیا گیا مطالبہ کچھ ترمیم کے ساتھ آج پھر دہراتا ہوں کہ اگر ہمارے سیاسی رہنما بیرون ملک میں اپنی پارٹیوں کی شاخیں ختم نہیں کرتے تو پھر میں اوورسیز پاکستانیوں سے کہوں گا کہ وہ خود پاکستانی لیڈروں سے مطالبہ کریں کہ پاکستانی سیاست کو پاکستان تک محدود رکھا جائے اور بیرون ملک پاکستانی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر فوری طور پر بند کیے جائیں۔ غیر ممالک میں پاکستانی باشندے "پاکستان سوسائٹی" کے نام سے منظّم اور متحد ہوں۔ قومی تہواروں پر پاکستانی فیمیلیز جمع ہوں، مگر ان کے ہاتھوں میں صرف پاکستانی پرچم ہوں اور زبان پر صرف پاکستان زندہ باد کے نعرے ہوں۔