Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Police Afsaron Ke Naam, Aik Senior Ka Paigham (2)

    Police Afsaron Ke Naam, Aik Senior Ka Paigham (2)

    خواتین عدمِ تحفظ کا شکار ہیں، پولیس افسروں پر لازم ہے اُن کے تحفظ کو ترجیحِ اوّل بنائیں۔

    عوام اور پولیس کا سب سے بڑا رابطہ مرکز، تھانہ (پولیس اسٹیشن) ہے اور وہی پولیس کا سب سے کمزور پہلو بھی ہے، عوام کو تھانوں سے دو بڑی شکایات ہیں، وہاں مظلوم اور مدعی کی رشوت کے بغیر شنوائی نہیں ہوتی، تھانے کے اہلکاروں کا عام آدمی کے ساتھ رویہ بڑا غیر مہذب اور غیر ہمدردانہ ہوتا ہے۔

    تھانہ کلچر کی تبدیلی کا ذکر بہت ہوتا ہے مگر اس اصطلاح کا بے تحاشا استعمال کرنے والے سیاستدان ہوں یا پولیس افسران، دونوں اس کے مفہوم سے پوری طرح آشنا نہیں۔ ویسے تو تھانے کے ساتھ پٹوار خانے، عدالت، کچہری، سیاست اور صحافت کا موجودہ کلچر بھی تبدیل ہونا چاہیے مگر ہم صرف تھانہ کلچر کی بات کریں گے۔

    تھانہ کلچر بدلنے کی ضرورت ا س لیے ہے کہ تھانے کا موجودہ کلچر Pro-Criminal ہے۔ مظلوم اور بے سہارا شخص کے لیے تھانے کا ماحول بڑا ناخوشگوار اور غیر ہمدردانہ ہے۔ صورتِ حال اس کے برعکس ہونی چاہیے مگر یہ کسی وزیرِاعلیٰ کے ڈائریکٹیو سے یا آئی جی کی تحریری ہدایات سے نہیں ہوسکتا۔ اس تبدیلی کے لیے طویل ریاضت اور جدوجہد درکار ہے جس کے لیے پولیس کے ضلعی سربراہ کا کیریکٹراور مضبوط عزم (Strong Will)سب سے اہم ہے۔

    قومی سطح کے بہت سے دانشور اور صحافی لکھ چکے ہیں کہ تھانوں کا ماحول اور کلچر تبدیل کرنے کی اگر کہیں جو ش و جنون کے ساتھ کوشش ہوئی جس کے نتیجے میں تھانوں کا ماحول واقعی تبدیل ہوا تو وہ 2009-10 میں گوجرانوالہ میں ہوا۔ اسی لیے قومی پریس "گوجرانوالہ ماڈل" کی پیروی پر زور دیتا رہا۔ یہ کیسے ہوا؟ میری کتاب "دوٹوک"میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

    مختصر یہ کہ جب 2009میں گوجرانوالہ پولیس نے انتہائی خطرناک ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے منظم گروہوں کے خلاف معرکہ جیت لیا تو ڈی آئی جی نے پولیس افسروں کی میٹنگ بلا کر انھیں پہلی جنگ جیتنے کی مبارکباددینے کے بعد کہا "ہمارا اگلا ٹارگٹ اس سے بھی مشکل ہے اور وہ ہے تھانے کے ماحول اور کلچر کی مکمل تبدیلی۔ تھانوں کے اکثر اہلکار کرپٹ بھی ہیں اور بدتمیز بھی، ان کے دل میں مظلوم کے لیے ہمدردی اور عام شہری کے لیے عزت نہیں ہے۔

    پولیس اہلکاروں کی یہ مجرمانہ سوچ جڑ سے کھرچ کر نکال باہر پھینکنی ہوگی۔ ہم نے تھانوں میں ایمانداری، خوش اخلاقی اور انسانی ہمدردی کے کلچر کو پروان چڑھانا ہے، یادرکھیں! انسانی سوچ کی تبدیلی مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اور ہم نے ہر قیمت پر یہ سوچ تبدیل کرنی ہے۔" ہدف کے حصول کے لیے چھ مرحلوں پر مشتمل حکمتِ عملی ترتیب دی گئی۔

    سب سے پہلے تھانوں سے راشی اور بدنام افسروں کو نکال باہر کیا گیا اور ان کی جگہ اچھی شہرت کے افسر تعینات کیے گئے۔ اس کے بعد ایس پی اور ایس ایس پی رینک کے افسران نے تھانوں میں ایس ایچ اوز اور محرران کے ساتھ بیٹھ کر تھانوں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا، اس میں اسٹیشنری، بلب، ڈیزل، چائے وغیرہ کے تمام اخراجات شامل تھے۔ تمام تھانوں کو وہ اخراجات سرکاری فنڈز سے ادا کیے گئے۔

    اس کے بعد سینئر افسر تھانوں میں کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر تھانہ اسٹاف کی کونسلنگ کرنے لگے اور انھیں رزقِ حلال کی فضیلت اور مالِ حرام کے مضر اثرات کے بارے میں Sensitise کیا جانے لگا، یہ سلسلہ کئی مہینے جاری رہا۔ اسکے بعد تھانے کے اہم ترین افسروں، SHO، محرر اور تفتیشی افسران کے لیے کورسز شروع کیے گئے۔

    ان میں تین قسم کے اسپیکرز کا انتخاب کیا گیا۔ ایسے سینئر پولیس افسران جنہیں پولیس فورس رول ماڈل سمجھتی تھی، ایسے ایماندارSHOs جو پوری ڈویژن میں معروف تھے اور پاکیزہ کردار کے جید علمائے ِ دین۔ مجھے یاد ہے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے سابق پرنسپل محترم حافظ ارشد صاحب جب حضور نبی کریمؐ کی انتہائی سادہ طرزِ زندگی کے واقعات سناتے تھے تو بڑے بڑے سنگدل پولیس افسروں کی آنکھیں نمناک ہوجاتی تھیں۔

    پولیس کے جوانوں اور جونیئر افسروں کی ویلفیئر پر خصوصی توجہ دی گئی اور ان کے ذاتی مسائل حل کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں اور مالی امداد اور قرضے کی رقم بڑھا دی گئی۔ بالآخردس گیارہ مہینوں کی دن رات کی ریاضت کے بعد وہ مرحلہ بھی آگیا جب ہر تھانے میں سیکڑوں شہریوں کے سامنے تھانے کے انچارج نے خود اعلان کیا کہ "آج کے بعد اگر اس پولیس اسٹیشن کے کسی اہلکار نے کسی بھی شخص سے رشوت مانگی یا قبول کی یا کسی شریف شہری سے بدتمیزی کی تو اس کا ذمّے دار میں ہوں گا"۔ ملک کے قابلِ اعتبار اداروں نے سروے کے بعد تھانوں میں رشوت کے خاتمے اور طرزِ عمل میں بہتری کی تصدیق کردی۔

    انسانی ذہن کی تبدیلی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سختی بھی، پیار بھی، سزا بھی، انعام بھی، ڈراوا بھی، دلیل بھی، کونسلنگ بھی اور موٹیویشن بھی، جب کہ کمانڈر اور لیڈر کا ذاتی کردار اور ارادہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔

    تھانہ کلچر بدلنا مشکل ہے مگر یہ تبدیل کیا جاسکتا ہے اور یہ تبدیل کرکے دکھایا گیا ہے۔ گوجرانوالہ کے عوام اور پولیس فورس اس کی گواہ ہے۔ ملک کے ہر شہر اور قصبے میں منشیات فروش، بدکاری اور جوئے کے اڈے چلتے ہیں جنہیں عموماً پولیس کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے، اچھے افسروں کو چاہیے کہ مختلف قابلِ اعتماد ذرائع سے معلومات حاصل کرکے پہلے مہینے میں ہی ان کا خاتمہ کردیں۔ بپھرے ہوئے ہجوم کے ساتھ آج بھی پولیس انتہائی نان پروفیشنل طریقے سے نپٹتی ہے۔

    اس سلسلے میں مضبوط جسم کے لمبے قد کاٹھ کے جوان منتخب کریں اور انھیں پولیس لائینز میں کم از کم چار مہینے تک Crowd Control کی ٹریننگ دیں تاکہ وہ آیندہ ہجوم کے ہاتھوں یرغمال بن کر یا فسادیوں کے آگے آگے دوڑ کر پولیس کی تضحیک و تذلیل کا موجب نہ بنیں۔

    پولیسنگ کا بنیادی مقصد عوام کے جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے لہٰذا پولیسنگ کے عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانا بے حد اہم ہے۔ عوام کے تعاون اور شراکت سے کی جانے والی پولیسنگ کی بہترین عملی صورت مصالحتی کمیٹیاں ہیں۔ پولیس افسروں کو چاہیے کہ ضلعی نہیں بلکہ تھانوں کی سطح پر باکردار افراد پر مشتمل مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دیں۔ راقم نے پہلے ایبٹ آباد اور پھر گوجرانوالہ میں تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کی تھیں، جن میں معاشرے کے قابلِ احترام افراد، عدلیہ کے ریٹائرڈ جج، سابق پرنسپل، سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران، صنعت و تجارت کے نمایندے اور منتخب کونسلرز میں سے اچھی شہرت کے افراد شامل کیے گئے تھے۔

    ہر پولیس اسٹیشن میں ایک کمرہ ان کے دفتر کے لیے مخصوص کیا گیا تھا، فوجداری اور دیوانی نوعیت کے جھگڑے، میاں بیوی کے تنازعات اور پولیس افسروں کے خلاف درخواستیں مصالحتی کمیٹیوں کو بھیجی جاتی تھیں، ان کمیٹیوں کی کوششوں سے سیکڑوں کیسوں میں صلح ہوئی اور کئی خاندان دشمنی کی آگ میں جلنے سے بچ گئے۔ کروڑوں روپے اصل حقداروں کو واپس دلائے گئے۔ جو کیس عدالتوں میں بارہ بارہ سالوں سے چل رہے تھے، کمیٹیوں نے ان کا دو سے تین ہفتوں میں فیصلہ کردیا جو فریقین کے لیے قابلِ قبول ہوتا تھا۔

    آپ کی کمانڈ کا بہت بڑا ٹیسٹ یہ ہے کہ آپ کے ضلع میں مقدمات کی تفتیش انصاف کے مطابق مکمل ہو۔ اہم کیسوں کی تفتیش کی آپ خود نگرانی کریں، بدنام افسروں کو تفتیشی اسٹاف میں ہرگز تعینات نہ کریں اور دونوں فریقوں کو بلا کر خود سنیں۔ تفتیشی اسٹاف کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کرتے رہا کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ چوروں اور ڈاکوؤں سے برآمد شدہ مال تھانوں سے غائب نہ ہوجائے بلکہ اصل مالکان تک پہنچایا جائے۔ ہم گوجرانوالہ اور شیخوپورہ ڈویژن میں ہر تین مہینے کے بعد ایک بڑی تقریب (جناح ہال وغیرہ میں) منعقد کرتے تھے۔

    جہاں کروڑوں روپے کا برآمد شدہ مال اصل مالکان کے حوالے کیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کئی لوگوں کو تیس تیس لاکھ روپیہ بھی دیا جاتا رہا۔ ایسی صورت میں اُن کی حفاظت کے لیے پولیس کی گاڑیاں ان کے ساتھ بھیجی جاتی تھیں، آپ بھی اس کامیاب ماڈل کو ضرور اپنائیں۔ جہاں آپ پر لازم ہے کہ پولیس کی کالی بھیڑوں کو سخت سزا دیں، ناقابلِ اصلاح (Dead Wood) عناصر کو نکال باہر کریں۔ وہیں ایماندار، بہادر، خوش اخلاق اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں کو عزت و تکریم دیں اور بڑی فیاضی اور فراخدلی کے ساتھ نقد انعامات بھی دیں۔

    ہم ہر تین مہینے بعد کسی بڑے ہال میں ایسی تقریب منعقد کیا کرتے تھے جس میں شہر کے معززین کے سامنے سپاہیوں اور حوالداروں کو بھی لاکھوں روپے کے انعامات دیے جاتے تھے جس سے ان کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوتی اور دوسروں کو motivation ملتی تھی۔ یاد رکھیں بہترین پولیس افسر بننے کا معیار صرف ایک ہے کہ کیا آپ پولیس پر عوام کا Trust defecit ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا ناکام رہے ہیں! آپ سوشل میڈیا پر تشہیر یا پراپیگنڈے سے نہیں بلکہ اپنی مالی اور اخلاقی پاکیزگی اور جرأتمندی سے عوام کے دل جیت سکتے ہیں، اگر آپ نے ایسا کرلیا تو عوام کی طرف سے آپ کو اتنی عزّت اور محبّت ملیگی جو صرف قومی ہیروز کو ملتی ہے۔