سیاسی میدان سے آنے والی خبریں تشویشناک بھی ہیں اور شرمناک بھی۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر آئے تو وہ بھی قارئین سے شیئر کرنا ضروری ہے۔ سیاست میں نہ تو وضعداری رہی ہے نہ شرم وحیا۔ ایک دوسرے کو سرِبازار ننگا کرنے کا چلن عروج پر ہے۔
صورتِ حال اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گلے میں اقتدار کی مالا ڈالنے کے لیے وہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میڈیا نے بھی چونکہ عوام کو سیاست اور کرکٹ کے جنون میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اس لیے سیاستدانوں کے اسکینڈلز سے لبریز کہانیاں سننا اور ٹی وی اسکرینوں پر ان کے کپڑے اترتے دیکھنا عام لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔
ایک طے شدہ اسکیم اور ڈاکٹرائن کے تحت بھی اہلِ سیاست کو مبالغے کی حد تک گنداکیا گیاہے ورنہ اس حمام کا بغور جائزہ لیا جائے تو افسر شاہی ان سے زیادہ عریاں نکلے گی۔
چونکہ اقتدار کے کھیل میں وہ سیاستدانوں کی شریکِ کار ہوتی ہے، احتساب اور کرپشن کے خاتمے کے لیے قائم اداروں میں بھی اس کا عمل دخل ہوتا ہے، میڈیا کے ریگولیٹری اداروں میں بھی کرتا دھرتا وہی ہیں، سیاسی حکمران اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے بھی افسر شاہی کے محتاج ہوتے ہیں اور صحافی بھی چھوٹی موٹی مراعات لینے کے لیے ان کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
اس لیے زیادہ تر حکمران، بیوروکریسی کے خلاف موثر کارروائی سے گریز کرتے ہیں اور ان کی کرپشن اور لوٹ مار کے قصے عوام تک نہیں پہنچ پاتے ورنہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سول سروسز اب ایمانداری، اہلیت، مستعدی (efficiency) اور عوامی خدمت کے جذبوں سے محروم ہو چکی ہے اور معاشرے کے پست کردار طبقوں کی طرح ناجائز دولت کمانے کی دوڑ میں نہ صرف شامل ہے بلکہ سب سے آگے ہے۔
رزقِ حلال پر قناعت کرنے والے افسروں کو اب چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑتا ہے، جو رشوت خوری سے بچے ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نااہل اور غیر موثر ہیں۔ سول سروسز کے ایسے قابل لوگ جو رزقِ حلال کھاتے ہوں اور عوام کی خدمت کے جذبوں سے بھی سرشار ہوں، قدرت کا خاص تحفہ ہیں۔
چھوٹے اور پسماندہ صوبوں میں تعیناتی کے بعد زیادہ تر افسران کا طرزِعمل حاکموں جیسا ہوتا ہے مگر ان براؤن صاحبوں نے انگریزحاکموں سے صرف "صاحبی" سیکھی ہے، ان سے دیانتداری، محنت، ڈسپلن اور قانون کی حکمرانی جیسے اوصاف نہیں سیکھے، عوام کو صرف کمتر، حقیر اور رعایا سمجھنا سیکھا ہے۔ زیادہ تر افسروں کا طرزِعمل خادمانہ نہیں حاکمانہ ہوتا ہے۔
اس لیے ان کے ایسے رویے کی وجہ سے وہاں کے عوام کے دلوں میں ریاست سے محبت کے بجائے ناراضگی پیدا ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری محی الدین وانی مگروکھری ٹائپ کے افسر ہیں کہ انھوں نے سیروسیاحت یا شکار کے بجائے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا ہے۔ علاقے اور عوام کی خدمت کے لیے ان کا جوش و جذبہ دیکھ کر اپنا بھانجا اُسامہ شہید (سابق ڈپٹی کمشنر چترال) یاد آتا ہے۔
محی الدین وانی چند ماہ قبل گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری مقررہوئے، اپنی تعیناتی کے فوراً بعد سرکار کے ہر شعبے کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے مگر ان کی توجہ کے بڑے مرکز تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے ہیں۔
سب سے پہلے انھوں نے بچوں کے اسکولوں پر توجہ دی، انھوں نے اسکولوں کے دوروں کے دوران مشاہدہ کیا کہ اس خطے میں غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو مطلوبہ بنیادی خوراک مہیا نہیں کرپاتے، یوں بچے جسمانی کمزوری کے علاوہ آنکھوں اور پٹھوں کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ "Where there is a wiill، there is a way" جب نیت نیک اور ارادہ پختہ ہو تو قدرت سَو راستے نکا ل دیتی ہے۔ کہیں نیک نیتی اور اخلاص نظر آئے تو قضا و قدر کا مالک مدد کے لیے فرشتے بھیج دیتا ہے۔
بعض اوقات فرشتے انسانی روپ میں ہوتے ہیں۔ چیف سیکریٹری نے بچوں کو ہفتے میں پانچ دن مفت کھانا کھلانے کا پروگرام بنایا تو "اﷲ والے" مدد کے لیے پہنچ گئے اور اب جی بی کے سرکاری اسکولوں کے تقریباً چھ ہزار بچوں کو "اﷲ والے ٹرسٹ" کے تعاون سے ہفتے میں پانچ روز اعلیٰ معیار کا کھانا دیا جارہا ہے۔ اس ایک اقدام کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی حاضری سو فیصد ہوگئی ہے، دوسرا یہ کہ معیاری خوراک کھانے سے بچوں کی صحت بہتر ہوگئی ہے۔
ان کی بینائی اور پٹھوں کے مسائل کم ہورہے ہیں۔ والدین بھی خوش ہیں اور بڑی خوشی، مسرت اور جوش و جذبے کے ساتھ بچوں کو تیار کرکے اسکول بھیجتے ہیں، اس سے یقیناً پورے صوبے کا معیارِ تعلیم بہتر ہوگا۔
وانی صاحب نے اور کئی initiateves لیے ہیں جن کے تحت سرکاری اسکولوں میں robotics کی تربیت شروع کردی گئی ہے۔
ایسی ٹریننگ کا اہتمام صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہورہا ہے، گلگت بلتستان کے طلباء کو اگر یہ سہولت میسر ہوگئی تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے دروازے کھل جائیں گے۔
اس کے علاوہ چیف سیکریٹری نے اسکولوں کے سربراہوں کو مالی طور پر خود مختار بنادیا ہے، اس سے یہ ہوگا کہ اُن کا جو وقت سرکاری دفتروں کے چکر لگانے میں برباد ہوتا تھا، وہ بچ جائے گا اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دے سکیں گے اور سرکاری فنڈز اپنی اصل ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرسکیں گے۔
کسی بھی ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے جزا اور سزا (Reward and Punishment)کا نظام رائج کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ جی بی کے متحرک چیف سیکریٹری نے اس سلسلے میں بہترین نتائج دینے والے اسکولوں کے سربراہوں اور اساتذہ کو بڑے دلکش مالی انعامات دینے کا اعلان کیا ہے۔
امید ہے کہ یہ اقدام ان میں ایک صحت مندانہ مقابلے کا رجحان پیدا کرے گا اور اساتذہ اچھی کارکردگی اور اچھے نتائج کے لیے زیادہ محنت کریں گے جس سے طلباء کے نمبر اور گریڈ مزید بہتر آئیں گے اور انھیں پروفیشنل کالجوں میں آسانی سے داخلہ مل جائے گا۔
اس کے علاوہ انھوں نے اسکولوں میں بیشمار نئی لائبریریاں اور نئی لیبارٹریز بنوائی ہیں اور کھیلوں کے کئی نئے گراؤنڈ بنوائے ہیں، کسی دانشور کا یہ قول درست ہے کہ "جس آبادی میں کھیلوں کے گراؤنڈ زیادہ ہوں گے وہاں اسپتال بہت کم ہوں گے" کیونکہ پلے گراؤنڈ لوگوں کو صحت مند رکھیں گے، جب بیماریاں نہیں ہونگی تو اسپتالوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
گلگت بلتستان میں 34اسمارٹ اسکول قائم کردیے گئے ہیں جس میں جدید ترین آئی ٹی لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جہاں مارکیٹ کی طلب کے مطابق جدید ترین Skills سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھ کثیر المقاصد ٹیکنالوجی لرننگ سینٹرز قائم کیے جارہے ہیں۔
184اسکولوں کی آئی ٹی لیبز کو سولر سسٹم پر لایا جارہا ہے۔ کوچنگ پروگرام کے تحت ذہین اور حقدار طلباء کی شام کو بلامعاوضہ کوچنگ کی جاتی ہے۔ اس سے بھی ان کے گریڈز بہتر ہوں گے اور وہ بہت اعلیٰ اداروں میں داخلہ لے سکیں گے۔
طلباء و طالبات کوPublic Speaking کی تربیت دینے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ اساتذہ کی استعداد اور مہارت میں اضافے کے لیے Teachers Professional Development کا پروگرام بھی شروع کردیا گیا ہے۔
دونوں اہم ترین شعبوں میں بہتری لانے کے لیے چیف سیکریٹری کے یہ اقدامات بلاشبہ لائقِ تحسین ہیں اور وہ شاباش کے مستحق ہیں۔
تعلیم کو ترجیحِ اوّل بنانا بڑا ہی مستحسن ہے۔ ریاستِ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تعلیم انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے اور تعلیمی معیار زمین بوس ہوچکا ہے، تعلیم نہ کسی حکومت کی ترجیحات میں ہے اور نہ ہی اس کا معیار بہتر کرنے کی طرف کسی کی توجہ ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ ایک پسماندہ خطے کے منتظمِ اعلیٰ نے اس پر توجہ دینا شروع کردی ہے۔ کئی بار لکھ چکا ہوں کہ گھر اور اسکول بچوں کی اہم ترین تربیت گاہیں ہوتی تھیں، مگر اِس وقت دونوں غیر فعال ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ وانی صاحب اسکولوں میں بچوں کی تربیت پر بھی توجہ دینا شروع کردیں۔ بڑے غیر محسوس طریقے سے Ethicsکے بنیادی سبق بچوں کے دل و دماغ میں ڈال دیے جائیں، حرام خوری، جھوٹ، چوری، منشیات اور دیگر جرائم سے نفرت اور ایمانداری، سچ بولنا، والدین اساتذہ اور بڑوں کا احترام کرنا، قانون پر عمل اور ملک سے محبت ان کے رگ و پے میں اُتار دی جائے، اگر ایسا ہوگیا تو جی بی کی نئی نسل پورے پاکستان کے لیے رول ماڈل بن جائے گی۔
چند سال قبل میں ہنزہ میں تھا جب گلگت بلتستان کے آئی جی پولیس نے مجھے پولیس افسروں سے خطاب کرنے کے لیے کہا، مجھے یاد ہے کہ میں نے انھیں دو باتیں کہی تھیں، ایک یہ کہ سیاحوں کی حفاظت کے لیےTourist Security Force قائم کریں، جن کا طرزِ عمل اتنا اچھا ہوکہ سیاح ہر جگہ جاکر اس کا ذکر کریں اور دوسرا یہ کہ جی بی پولیس میں موٹروے پولیس کی طرح عوامی پزیرائی اور مقبولیت حاصل کرنے کے مواقعے اور صلاحیت موجود ہے۔
جرائم نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس وقت بھی ہے اس لیے جی بی پولیس کو چاہیے کہ وہ موٹروے پولیس بننے کا موقع ہرگز ضایع نہ کرے، اس سلسلے میں بھی چیف سیکریٹری آئی جی سے مشاورت کے بعد کوئی جامع منصوبہ بنائیں۔