1947 میں برصغیر کی آزادی کے فوراً بعد بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ملک کے تمام سینئر سیاستدانوں، کابینہ کے وزرأ اور اعلیٰ افسران کے اجلاس سے خطاب کیا جس میں نئے ملک کے حاکموں کو سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے اور سرکاری پیسہ (public money) انتہائی احتیاط اور جوابدہی کے احساس کے تحت خرچ کرنے کی تلقین کی۔
گاندھی جی نے کہا، "اب آپ نئے ملک کے حکمران ہیں، آپ کو کیسا طرزِ زندگی اختیار کرنا چاہیے، اس ضمن میں مجھے انسانی تاریخ سے صرف دو حکمران ایسے نظر آئے ہیں جنھیں رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
اتفاق سے دونوں مسلمان ہیں، اسلامی تاریخ کے اوّلین حکمران ابوبکر اور عمر، لہٰذا میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ بحیثیت حکمران ابوبکر اور عمر کے طرزِ زندگی کا مطالعہ کریں اور ان کی پیروی کریں۔ " ان دونوں ہستیوں کے بارے میں سیکڑوں غیر مسلم مورخ اور حکمران ایسی ہی باتیں کہہ چکے ہیں جیسی ایک کٹر ہندو رہنما نے کی تھیں۔ آئیں! کچھ دیر کے لیے اپنے ملک کی گندی اور بے اصولی سیاست کو پرے پھینکیں اور اُن پاکیزہ ہستیوں کے طرزِ حیات اور طرزِ حکمرانی پر نظر ڈالیں اور اپنے قلب و روح کو منور کریں۔
اس بات پر شروع سے اجماعِ امت رہا ہے کہ آقائے دوجہاں نبی کریمﷺ کے بعد انسانوں میں افضل ترین ہستی ابوبکرؓ کی تھی، جنھیں نہ صرف زندگی بھر رفاقتِ رسولؐ کا شرف حاصل رہا بلکہ بعد از وصال بھی نبی کریم کے قرب کا اعزاز قائم رہا، خالقِ کائنات نے آپؓ کو وہ غیر معمولی اعزاز عطا کیے جو جلیل القدر صحابہ میں سے کسی اور کے حصے میں نہ آسکے۔ حضرت ابوبکر ؓ حضرت محمدﷺ سے دو سال چھوٹے تھے۔ بچپن میں ہی دونوں میں دوستی تھی، جوان ہوکر تجارت بھی اکٹھے کی۔ ظہورِ اسلام سے پہلے بھی حضرت ابوبکرؓ ایک پاکیزہ کردار اور ایماندار تاجر کے طور پر معروف تھے۔
زمانۂ جاہلیت میں بھی وہ کبھی شراب اور بدکاری کے قریب تک نہ گئے۔ عقل و دانش، بلندیٔ فکر اور بالغ نظری کے لحاظ سے مکہ کے بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے۔ معروف مصری صحافی، دانشور اور مصنف محمد حسنین ہیکل خلیفہ اوّل کے بارے میں اپنی تحقیقی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ "صدیقِ اکبرؓ کی عظیم شخصیت کے گوناگوں پہلو سامنے آتے ہیں تو انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے، ایک طرف تو یہ بطلِ جلیل غرباء اور مساکین کی مدد اور اعانت کے لیے ہمہ وقت بیقرار دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف وہ سر بلندیٔ اسلام کی خاطر بڑے سے بڑے خطرے کے سامنے اس طرح ڈٹ جاتے ہیں کہ دنیا کی تمام قوتیں مل کر بھی انھیں اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شانِ صدیقیؓ کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن امر ہے کیونکہ ان کے دل میں اﷲ اور نبی کریمؐ کی بیکراں محبت کا صحیح اندازہ صرف اﷲ کی ذات ہی کو ہو سکتا ہے"۔
خالقِ کائنات نے جب حضرت محمدﷺ کو منصبِ نبوت پر فائز کیا تو ابوبکرؓ تجارتی سفر پر مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انسانوں کے لیے اللہ کے منتخب کردہ آخری نمایند ے نے مکہ کے باشندوں کو جعلی خداؤں کی پوجا چھوڑ کر ایک اصلی خدا کی اطاعت قبول کرنے کے لیے پکارا تو عرب کے سرداروں کو اپنی سرداری ختم ہوتی ہوئی نظر آئی، لہٰذا انھوں نے تلواریں نکال لیں۔ وہ داعیٔ حق کا گریبان پکڑنا چاہتے تھے۔
انھوں نے ابوبکرؓ کی واپسی پر انھیں بھی ساتھ ملانا چاہا۔ ابوبکرؓ واپسی پر اپنے عظیم دوست کے پاس پہنچے تو انھوں نے گریبان نہیں اپنے محبوب دوست ؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر اسے زندگی بھر کوئی نہ چھڑا سکا۔ قبولِ اسلام کے ساتھ ہی حضرت ابو بکر ؓ نے حیرت انگیز اور بے مثال جرأت کا مظاہرہ کیا اور ان خطرات کی بالکل پرواہ نہ کی جو ان کی ذات اور تجارت پر اثر انداز ہوسکتے تھے۔
نورِاسلام سے ان کے دل میں وہ قوتِ ایمانی پیدا ہوگئی کہ وہ بڑی سے بڑی دنیاوی طاقت سے بے نیاز اور بے خوف ہوگئے۔ نبی کریمؐ کے اس مخلص ترین ساتھی نے اپنی دولت کو مسلمانوں کی مدد اور غلاموں کی آزادی پر بے دریغ خرچ کیا۔ اسلام کے پہلے موذن اور نبی کریمؐ کے جانثارحضرت بلالؓ سمیت بہت سے غلاموں کو آزاد کرانے کا اعزاز حضرت ابوبکر ؓ کے حصے میں آیا۔
جب انسانیت کی بھلائی کے لیے آنے والے انقلاب کے قائد نے کھل کر بت پرستی کی مذمت کی تو قریش کے سرداروں نے نبی کریمؐ پر مظالم اور ایذارسانیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس موقعے پر ابوبکر ؓ نبی کریمؐ کی حفاظت کے لیے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔ جب نبی کریمؐ نے اہلِ مکہ کو واقعۂ معراج سناتے ہوئے بتایا کہ "آپؐ کو خانہ کعبہ سے بیت المقدس لے جایا گیااور وہاں آپؐ نے مسجدِاقصیٰ میں نماز ادا فرمائی" تو مشرکین نے مذاق اڑایا، بعض مسلمانوں کے دل میں بھی وسوسہ پیدا ہوگیااور انھوں نے یہ تمام واقعہ حضرت ابوبکر ؓ کے گوش گزار کیا۔ جس پر ابوبکرؓ نے پورے یقین اور ایمان کے ساتھ کہا، "اگر محمدﷺنے واقعی یہ کہا ہے تو یہ بالکل صحیح ہوگا۔
جب اﷲ آسمانوں سے چند لمحوں میں وحی نازل فرماسکتا ہے تو اس کے لیے رات بھر میں مکہ سے بیت المقدس لے جانا اور واپس لانا کونسا مشکل ہے۔ " حضرت ابوبکر کی شہادت اور تصدیقِ حق نے عام مسلمانوں کے اذہان وقلوب سے شکوک کا خاتمہ کر کے انھیں گمراہ ہونے سے بچالیا۔ اُسی وقت آسمانوں پر دربارِ الٰہی سے آپؓ کو نبیوں کے بعد سب سے بڑے منصب پر تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگیااور خالقِ کائنات کی منظوری کے ساتھ رسولِ کریم ؐنے ابوبکرؓ کو، صدّیق کا خطاب عطا فرما دیا۔
رسول اللہﷺ طائف تشریف لے گئے تو مکہ میں مسلمانوں کی خبر گیری کے لیے ابوبکرؓ کو چھوڑ گئے۔ مظلوم مسلمانوں کو قریش کے مظالم سے بچانے میں سب سے اہم کردار ابوبکرؓ ہی ادا کرتے رہے۔ مقاطعٔہ قریش کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو شعب ابی طالب کی قید سے نجات دلانے میں بھی آپؓ کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ بیعتِ عقبہ کے بعد یثرب (مدینہ منورہ) میں اسلام پھیلنے لگا تو نبی کریم ؐ نے مسلمانوں کو ہجرت کرکے مدینہ جانے کی اجازت دے دی، اس موقعے پر ابوبکر ؓ نے اپنی ہجرت کی بابت پوچھا تو رسول اللہؐ نے فرمایا "ابوبکر کے لیے اللہ تعالیٰ خود کسی ساتھی کا بندوبست کرے گا جو اس کا ہم سفر ہوگا" اور پھرہجرت کے وقت ابوبکرؓ کے لیے ایسے ساتھی کا اہتمام ہوا جس پر رہتی دنیا تک پوری اُمت رشک کرتی رہے گی۔
خود رسول اللہؐ کو جب ہجرت کی اجازت مل گئی تو سرورِ کائنات نے ہم سفر کے طور پر صدیقِ اکبرؓ کو چُنا۔ ہجرت کے لیے نبی کریمؐ کی مصاحبت کا اعزاز ملنے پر آپؓ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ حضورؐ نے اپنے دوست کو ہجرت کی اطلاع دی تو پُرمسرت لہجے میں بولے "میں نے دو اعلیٰ اونٹنیوں کا بندوبست کررکھا ہے" رسالت مآب نے فرمایا "ایک اونٹنی کا میں خود معاوضہ ادا کروں گا"۔
یہ سن کر صدیق ؓ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور زبان سے نکلا "یارسول اللہؐ ابوبکر سے بھی ایسی مغائرت۔ " یہ ایک مشکل مشن تھا، قریش رسالت مآبؐ کے مقدس خون کے پیاسے ہوچکے تھے اور انھوں نے برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر آپؐ کے مکان کا گھیراؤ کرلیا تھا۔ آپؐ نے شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰ ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ آپؐ کی سبزچادر اوڑھ کر آپ کے بستر پر دراز ہوجائیں، جب تہائی شب بیت گئی تو رسولِؐ خدا قرآنی آیات پڑھتے ہوئے قریش کے مسلح نوجوانوں کے درمیان سے گزر کر ابوبکر ؓکے گھر پہنچے اور وہاں سے تین چار میل کی مسافت طے کرکے غارِ ثور میں پناہ گزین ہوگئے۔ صبح قریش کو آپؐ کے مکہ سے چلے جانے کا علم ہوا تو انھوں نے مسلح گھوڑ سوار آپؐ کی تلاش میں چاروں طرف روانہ کردیے۔
ان میں سے کچھ لوگ غارِثور تک آپہنچے تو پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے ابوبکرؓ کی پیشانی عرق آلود ہوگئی، خطرہ بھانپ کر یارِ غار گبھراگئے، اپنی نہیں، رسول اللہﷺ کی جان کو شدید خطرے میں دیکھ کر ابوبکرؓ زندگی میں پہلی بار پریشان ہوگئے۔ رسولؐ اللہ نے ابوبکر ؓ کی گبھراہٹ دیکھی تو فرمایا:
لَا تَحزَن اِنَّ اللہ َ مَعَناَ (ڈرو مت، اللہ ہمارے ساتھ ہے)
خالقِ کائنات نے اپنے محبوبؐ کی حفاظت کا انتظام خود کر رکھا تھا۔ غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تان لیا جسے دیکھ کر قریشی نوجوان سمجھے کہ اگر محمدؐ غار میں داخل ہوتے تو یہ جالا ٹوٹ جاتا لہٰذا وہ بے نیل و مراد واپس لوٹ گئے۔
مدینہ منورہ پہنچ کر ابوبکر صدیق ؓ کو نبی کریمؐ کے مشیرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل رہی۔ مدینہ میں بھی گرم و سرد اور امن و جنگ میں، ہر موقعے پر ابوبکرؓ کبھی محافظ بن کر اور کبھی مشیر کی حیثیت سے رسول اللہؐ کے ساتھ رہے۔ آپؓ رقیق القلب بھی تھے اور وسیع القلب بھی۔ آپؓ نے نبی کریمؐ سے جنگِ بدر کے قیدیوں کی رہائی کی سفارش کی، مکہ کے جانی دشمنوں سے بھلائی کا برتاؤ ان کی فراخدلی اور فراست کا مظہر تھا۔ (جاری ہے)