غربت، بیروزگاری اور مہنگائی سے بلبلاتی ہوئی قوم پر آئے روز اتنی شدید بمباری صرف وہی حکومت کرسکتی ہے جو یا تو بے رحم اور بے حِس ہو یا پھر حکمران خود کو شہنشاہ ہو اور عوام کو رعایا سمجھتا ہو۔ ویسے عمران خان صاحب نے تو خود کہا تھا کہ میں رلاؤں گا، انھوں نے یہ وعدہ پورا کردکھایا ہے۔
ایک رات سوئی ہوئی قوم پر پہلے پٹرول بم پھینکے اور دوسرے روز بجلی کی قیمت میں اضافہ کرکے مہنگائی کی ماری ہوئی قوم پر بجلی گرادی۔ غالباً حکمران عوام کی چیخوں سے لذت اُٹھاتے ہیں۔ حکومت کے افلاطونوں نے تین سالوں میں مڈل کلاس کو تقریباً ختم کرڈالا ہے اور نچلا طبقہ خودکشیوں میں عافیت ڈھونڈنے لگا ہے۔
وطنِ عزیز کی اس بربادی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب ہر باشعور شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ موجودہ تین سالہ حکومت میں ہر ادارہ برباد ہواہے۔ سرکاری محکموں میں رشوت کئی گنا بڑھ گئی ہے، عوام کے مصائب میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو اللہ کا عذاب سمجھنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کروڑوں لوگوں کے لیے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنامشکل ہوچکا ہے۔
تین سالوں میں ریاستِ پاکستان کو جتنا بے توقیر کیا گیا ہے، گزشتہ ستر برس میں اتنا نہیں ہوا ہے۔ 1965اور 1971 کی جنگوں میں بھی ملک کی سب سے اہم شاہراہ(جی ٹی روڈ) کو نہیں توڑا گیااور اس پر کہیں خندقیں نہیں کھودی گئیں۔ 2014 کے پر تشدد مارچ کا تو نعرہ ہی وزیرِاعظم سے استعفیٰ لینا تھا مگر اُس وقت بھی وزیرِاعظم نوازشریف نے کہیں جی ٹی روڈ یا کسی دریا کا پل توڑنے کا حکم نہیں دیا بلکہ جلوس کو اسلام آباد آنے کی اجازت دے دی۔
مگر موجودہ حکومت آٹھ دس ہزار افراد کے جلوس سے اس قدر خوفزدہ ہوگئی کہ اس نے جی ٹی رو ڈ پر خندقیں اور کنویں کھود دیے، حتٰی کہ ریاست کی رِٹ قائم کرنے کی کوشش میں جانیں قربان کرنے والے پولیس کے شہیدوں کا خون بیچ دیا اور ایک جتھے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، اب کوئی پولیس افسر جلوسوں کے سامنے کیسے کھڑا ہوگا؟ جی ٹی روڈ کی خندقوں کو پندرہ روز کے بعد بھی نہیں بھرا جاسکا، جس سے ٹریفک معطل ہے، کئی شہروں کے درمیان رابطہ منقطع ہے اور بے حس حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں، وہ عوام کی تکالیف سے بے نیاز ہیں۔ وہ خود تو جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں پھرتے ہیں اور ہر روز اُن پر مہنگائی کے ڈیزی کٹر پھینکتے ہیں اور اس پر انتہائی مضحکہ خیز جواز پیش کرکے عوام کے زخموں پر نمک رگڑ تے ہیں۔
وہ نہیں جانتے کہ پٹرول اور بجلی مہنگی کرنے سے ہر چیز کوپَر لگ جاتے ہیں اور اشیائے خورو نوش عوام کی قوت خرید سے باہر نکل جاتی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں گھروں کے چولہے بند ہوجاتے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ پڑھی لکھی خواتین جو 2018میں عمران خان کی پرجوش سپورٹر تھیں اب انھیں کوسنے دیتی ہیں اور اگلے الیکشن کی تاریخ پوچھتی پھرتی ہیں۔ لوگ جو تبدیلی کے شوق میں پی ٹی آئی کے پیروکار بن گئے تھے، اب یہ کہتے ہیں کہ
تم نے تو یہ کہا تھا اُجالا کروں گا میں
تم نے سب چراغ گھروں کے بجھادیے
ملک کے کسی بازار یا مارکیٹ میں جاکر خریداروں یا دکانداروں سے رائے پوچھیں تو پچانوے فیصد لوگ حکومت اور حکمرانوں کو کوسنا شروع کردیتے ہیں۔ اپنی نااہلی کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کے عُذر کو لوگ اب بدتر ازگناہ قرار دیتے ہیں۔
کرپشن میں ملوث ہونے والے اپنے ساتھیوں کا جس طرح کھل کر عمران خان نے تخفظ کیا ہے اور ان کی مسلسل سرپرستی کررہے ہیں، ایسا کوئی سابق حکمران نہیں کرسکا۔ پہلے دن سے ہی عوام کو ریلیف دینا یا اداروں میں اصلاحات لانا حکومت کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں رہابلکہ سیاسی مخالفین پر جھوٹے کیس بناکر انھیں جیل بھجوانا ان کا واحد ٹارگٹ رہا ہے، اب بھی حکومت کا ہدف اپنی کارکردگی بہتر کرنا نہیں بلکہ مخالفین اور ناقدین کا منہ بند کرنا ہے۔
کہتے ہیں قریبی رفقاء کی محفل میں پوچھا گیا کہ مہنگائی کا شور مچانے والوں کا منہ کیسے بند کیا جائے، کئی رفقاء نے تجاویز دیں بالآخر ایک نوجوان کی بات پسند فرمائی گئی کہ "کہا جائے کہ دو خاندان پیسے واپس لے آئیں تو مہنگائی کم ہوجائے گی " یہ" وزنی دلیل" سن کر کچھ سینئر رفقاء ہنس پڑے مگر وزیرِاعظم صاحب کو اسی دلیل نے اپیل کیا اور انھوں نے اسے جلسۂ عام میں دھرادیا۔ یہ دلیل سن کر مجھے وہ پٹواری یاد آگیا جو بوقتِ اشتمال ہمارے قریبی گاؤں میں تعینات تھا اور پیسے لے کر ایک کی زمین کا اندراج دوسرے کے نام پرکیے جارہا تھا۔
کافی معقول فیس دینے کے باوجود جب چند لوگوں کو زمین نہ ملی تو وہ وفد کی صورت میں پٹواری سے ملے اور زمین کی بابت دریافت کیا۔ اس پر پٹواری نے انھیں جواب دیا کہ "دیکھیں انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے، وہاں بھی عنقریب زمینیں آباد ہوں گی، نہریں چلیں گی اور وہاں کی زمینیں دربارِ الٰہی سے قرب کی وجہ سے دنیا کی زمینوں سے پانچ گنا زیادہ پیداوار دیا کریں گی لہٰذا آپ فکر نہ کریں آپ کو زمین چاند پر الاٹ کی جائے گی اور نہری رقبہ دیا جائے گا، وہاں بھی آپ کا بھائی مدد علی پٹواری آپ کی مدد کے لیے پوری طرح تیار ہوگا" بہت سے سینئر صحافیوں نے وزیرِاعظم کی اس بات کو مذاق اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
دراصل اب ان کے پاس بیچنے کو کچھ بھی نہیں بچا۔ عام آدمی چونکہ نیب کو حکومت کی اتحادی پارٹی سمجھتا ہے اس لیے عوام کو جتنا حکومت پر اعتبار ہے اتنا ہی نیب پر ہے، لہٰذا اب نیب اور احتساب کی ساری کارروائی کو اس ملک کا کوئی شہری ایک سیاسی ڈرامے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
میں تو پہلے بھی لکھتا رہا ہوں مگر اب ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے پر ہر چیز واضح ہوگئی ہے کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کے افسران دھاندلی میں پوری طرح ملوث تھے، مگر وہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کی ہدایات کے بغیر ایسا نہیں کرسکتے تھے اور ان کے ملوث ہونے کا واضح مطلب ہے کہ ساری منصوبہ بندی اسلام آباد میں بہت اوپر کی سطح پر ہوئی ہوگی۔
اب کسی کو کوئی شبہ نہیں رہا کہ ارباب اختیار کو سول سروس اور پولیس کا غیر جانبدار رہناگوارہ نہیں۔ ڈسکہ دھاندلی میں ملوث ہونے والے تمام افسروں کو بہتر جگہوں پر تعینات کرکے نوازا گیا۔ تو یہ ہے اس خواب کی بھیانک تعبیر جو لوگوں نے پچھلے دس سال سے آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ بہت سے لوگوں کو یہ حسنِ ظن تھا کہ عمران خان حکومت میں آکر سول سرونٹس کو غیر سیاسی اور غیر جانبدار بنادیں گے۔ مگر وہ ایسا نہ ہوسکا۔
وزیرِ خزانہ نے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں یہ بات صاف بتادی ہے کہ "آئی ایم ایف کے پروگرام کے مطابق ہمیں بجلی مزید مہنگی کرنی پڑے گی" یعنی اس میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ اب اس ملک پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے فیصلے مسلط ہوں گے۔ اس میں توکوئی شبہ نہیں کہ عالمی مہاجنوں کے پاس پاکستان کے لیے کوئی خیر کا پروگرام نہیں، نہ ہی وہ پاکستان کو خوشحال اور مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ عالمی اداروں کے سامنے موجودہ حکومت کی سجدہ ریزیاں دیکھتے ہوئے باشعور حضرات گہری تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
وطنِ عزیزکو معاشی طور پر انتہائی لاغر کرکے اگر آئی ایم ایف نے ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول کسی" عالمی ایجنسی" کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا تو کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ملک کی خیر کریں۔ پی ٹی آئی کے دامن میں بدترین ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب حل ایک ہی نظر آتا ہے، تازہ مینڈیٹ۔ ہر قسم کی مداخلت سے پاک انتخابات۔