Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Usi Sorakh Mein Dobara Haath Daal Dein?

Usi Sorakh Mein Dobara Haath Daal Dein?

باشعور افراد اور اندھے پیروکاروں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ باشعور لوگ کچھ نئے حقائق جاننے کے بعد اپنی رائے تبدیل کرلیتے ہیں مگر اندھے پیروکار، پجاری اور عقل وشعور سے عاری ہوتے ہیں۔ 2018سے پہلے تک عمران خان کے حامیوں کی اس دلیل میں یقیناً وزن تھا کہ باقی پارٹیوں کو آزمایا جاچکا ہے، ایک بار خان کو بھی آزمانا چاہیے۔

پھر ان کا پونے چار سال کا دورِ حکمرانی بھی قوم نے دیکھ لیا۔ اب اُس دور کی "شاندار" کارکردگی کے بعد وہ دوبارہ وہی "بابرکت" دور واپس لا کر عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی دیدہ دلیری ہے۔ آخر وہ دودھ اور شہد کی کونسی نہریں تھیں جن سے وہ قوم کو دوبارہ فیضیاب کرنا چاہتے ہیں!

اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا کہ عمران خان چارسالوں میں کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہ کرسکے اور انھوں نے پولیس، ریونیو اور عدلیہ سمیت کسی ادارے کے بوسیدہ نظام کو بدلنے کے لیے معمولی سی کوشش بھی نہ کی۔ چلیں ابھی اسے رہنے دیں، تین بڑے سیکٹروں معیشت، گورننس اور خارجہ امور میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔

عمران خان کے حامی اپنے دل ودماغ سے تعصب کا غبار جھاڑ کر بتائیں کہ اُس دور میں ڈالر کی اڑان کبھی رک سکی؟ کیا کبھی پٹرول کی رفتار کم ہوئی؟ ڈالر اور پٹرول جب آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے تو ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ گئی، روزمرہ کی اشیاء پر ہاتھ ڈالتے ہوئے غریب ہی نہیں مڈل کلاس کے بھی ہاتھ جلنے لگے۔

پچپن روپے کلو والی چینی سو سے اوپر چلی گئی اور گھی اور آٹا بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے لگے۔ کسانوں کی زبوں حالی یہاں تک پہنچ گئی کہ نواز دور میں 2500 روپے والی ڈی اے پی کھاد دس ہزار سے اوپر چلی گئی اور یوریا مارکیٹ سے ہی غائب ہوگئی۔

اُس دور کی ناقابلِ برداشت مہنگائی کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ بوڑھوں نے ہاتھ اور خواتین نے جھولیاں اٹھالیں اور حکومت اور وزیرِاعظم کو بددعائیں دینے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی مارچ 2022تک یہی کہتے تھے کہ آیندہ الیکشن میں کوئی شخص پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔

ان دنوں پنجاب میں جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ان میں حکمران جماعت کو تمام تر حکومتی امداد اور حربوں کے باوجود شکست ہوئی۔ معیشت اس طرح برباد کی گئی کہ ان کے اقتدار کے آخری دن تک اس میں معمولی سی بھی بہتری نہ آسکی۔

اس کے جواب میں ان کی پارٹی کے لیڈر اعشارئیے اور اعداداوشمار دکھاتے ہیں مگر ان کے اعدادوشمار عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہ لاسکے اور قوم کی جھولی میں ریلیف کا کوئی ایک پھول بھی نہ ڈال سکے۔ موجودہ مہنگائی عمران خانی مہنگائی کا تسلسل ہے، عوام کی وہ بلبلاہٹ اور بددعائیں ابھی بھی کانوں میں گونجتی ہیں۔

عمران کابینہ کے ایک نیک نام وزیر پچھلے دنوں ایک شادی کی تقریب میں میرے ساتھ بیٹھ گئے، اپنے لیڈر کی "اہلیت" اور "استعداد" کے بارے میں یہ بتا کر انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق کردی کہ حکومت ملنے کے سات آٹھ ماہ بعد کچھ سینئر حکام نے اسٹیبلشمنٹ کو بتایا کہ "آپ کے پسندیدہ پرائم منسٹر صاحب حکومتی امور کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔

ان کی ٹریننگ کرائیں کیونکہ امورِ مملکت بالکل ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں" روزانہ ڈھائی گھنٹے ورزش کرنے والے عالمی سطح کے کھلاڑی کی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں مجھے کبھی بھی خوش گمانی نہیں رہی، اس سطح کا کھلاڑی نہ کبھی اچھا حکمران ثابت ہوا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔

گورننس میرا اپنا فیلڈ ہے، عمران خان نے جتنی بری کارگردگی کا مظاہرہ اس فیلڈ میں کیا، سترسال میں کسی اور سیاستدان نے نہیں کیا ہوگا۔

سب سے پہلے کسی اچھی شہرت رکھنے والے سیاستدان کے بجائے اپنی اہلیہ اور اس کی سہیلی کی سفارش پر ایک نااہل اور کرپٹ شخص کو سب سے بڑے صوبے کاوزیراعلیٰ مقرر کردیا۔ پھر اسے اور اپنے عزیز و اقرباء کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی۔

جس نے بھی عمران خان کے سامنے اُن کی شکایت کی اُس نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ عمران خان نے پولیس اور انتظامیہ کے کاموں میں بدترین مداخلت کو پروان چڑھایا، جس افسر نے پی ٹی آئی کے کسی ہارے ہوئے امیدوار کا ناجائز کام نہ کیا اسے اسی وقت تبدیل کردیا گیا، دیانتدار افسروں کو ہٹا کر اہم عہدوں پر انتہائی کرپٹ اور بدنام افسر تعینات کردیے گئے۔

عمران خان نے خود سب سے بڑے صوبے میں اینٹی کرپشن کے محکمے سے ایک گریڈ بائیس کے نیک نام افسر کو ہٹا کر بیس گریڈ کے ایسے بدنام افسر کو سربراہ مقرر کردیا۔

جس کے اپنے خلاف انکوائریاں چل رہی تھیں۔ خان نے تعیناتی کا معیار دیانتداری کے بجائے پارٹی سے وفاداری قرار دیا، اسی بناء پر چھ سات آئی جی بدل دیے کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین کا خاتمہ نہ کرسکے۔

اداروں کی اصلاح یا بہتری عمران خان کی ترجیحات میں ہی نہیں تھی، ان کا ایک ہی ہدف تھا، اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا اور اس کے لیے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس بدنام افسر نے جا کر کہہ دیا کہ میں ن لیگ کو ختم کر دوں گا فوری طور پر اسے لاہور یا پنجاب پولیس کا سربراہ مقرر کردیا۔

ڈی سی، کمشنر اور اعلیٰ پولیس افسر کروڑوں روپے دے کر فیلڈ پوسٹنگ خریدنے لگے، میڈیا نے ان کے نام بھی لکھ دیے مگر عمران نے کوئی کارروائی نہ کی۔ نتیجتاً تھانے، کچہریاں اور سرکاری دفاتر کرپشن کے گڑھ بن گئے، جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا اور امن وامان کی صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی۔

جب انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمے دار افسروں نے انھیں کرپشن کے ثبوت دکھائے تو ان پر کارروائی کرنے کے بجائے نشاندہی کرنے والے اعلیٰ افسرکو تبدیل کردیا گیا۔

عمران خان نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ قانون کی حکمرانی (Rule of law) پر بالکل یقین نہیں رکھتا، وہ Equality before law یعنی ہر شخص پر قانون کے یکساں اطلاق کے بھی خلاف ہے۔

اس نے ثابت کیا کہ احتساب سے اس کی مراد صرف یہ ہے کہ اس کے سارے ناقدین کوجیلوں میں بند کردیا جائے، سوال اٹھانے والے چینلوں اور صحافیوں پر پابندی عائد کر دی جائے اور ملک میں ہٹلر کی طرح ایک پارٹی کی حکمرانی اور فاشزم کا راج ہو۔

اس وقت بھی پنجاب میں عمران خان کی حکومت ہے جو بدترین گورننس کا شاہکار ہے، پنجاب کے حالیہ حکمران انصاف اور میرٹ کو پامال کررہے ہیں۔ باخبر صحافیوں کے بقول پنجاب میں پانچ مہینوں میں اتنا کچھ ہوا ہے کہ دوسرے کرپٹ حکمران تیس سالوں میں نہ کرسکے، مگرعمران کوان کی گورننس پر کوئی اعتراض نہیں، وہ صرف اس بات پر سابق وزیرِاعلیٰ کی تعریفیں کررہا ہے کہ اس نے اسمبلی تحلیل کردی ہے۔

عمران پچھلے چار سالوں میں کسی دیانتدار اور باضمیر سول سرونٹ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا اور اس نے کبھی کسی باکردار افسر کو غیر جانبدار رہ کر قانون کی حکمرانی قائم کرنے پر سپورٹ نہیں کیا۔ اس لیے ایماندار اور باضمیر افسروں کے لیے عمرانی دور ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے جس کا ذکر سن کر وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔

کسی سیاستدان کا دورِ حکمرانی جانچنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ُاس نے خارجہ تعلقات میں کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس محاذ پر بھی عمران خان کے دامن میں ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سی پیک کا Initiative چونکہ نوازشریف کا تھا۔

اس لیے عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی سی پیک منصوبوں کے خلاف بیان دیے، جس سے اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری رک گئی اور چین جیسا دوست بھی پاکستانی حکومت سے ناراض ہوگیا۔

سعودی عرب یمن کے معاملے میں فریق بننے سے انکار کرنے پر نوازشریف سے ناراض تھا اس لیے اس نے عمران خان کا پرجوش خیرمقدم کیا، مگر ہمارے وزیراعظم نے اپنی غلط پالیسی کی وجہ (جنھیں تحریر بھی نہیں کیا جاسکتا) سعودی عرب کو بھی ناراض کردیا۔

پرنس محمد بن سلمان کا دیا ہوا تحفہ بیچ دینے پر قوم کا سر شرم سے جھکا دیا گیا اور پاکستانی حکمران سعودی حکمرانوں کی نظروں سے گِرگئے۔

امریکا مشکل وقت میں ہمیں اقتصادی اور فوجی امداد دیتا رہا ہے، عمران نے اپنے غیر ذمے دارانہ رویے سے اُسے ناراض کردیا۔ ترکی ہمارا سگے بھائیوں کی طرح قابلِ اعتماد دوست تھا، عمران خان طیب اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر کواپنا آئیڈیل قرار دیتا تھا۔

دونوں راہنماؤں کے ساتھ مل کر اس نے پریس کانفرنس کی اور بڑے بلند بانگ عزائم کا اظہار کیا۔ مگر پھر دباؤ برداشت نہ کرسکا اور ہمیشہ کی طرح اپنے عہد سے مُکر گیا اور اس طرح اس نے ترکی اور ملائیشیا کا اعتماد بھی کھودیا۔

اس کے اقتدار کے آخری مہینوں میں صورتِ حال یہ تھی کہ پوری دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں تھا جو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ عمران خان نے اپنی نااہلیوں اورغیرذمے دارانہ بیانات اور حرکتوں سے تمام دوستوں کو ناراض کر کے پاکستان کو تنہا کر دیا تھا۔

عمران خان نے اس ملک اور قوم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ قوم کو تقسیم کرکے سیاست میں نفرت اور تشدد کا زہر گھول دیا اور نئی نسل سے اعلیٰ اقدار اور اچھے اخلاق کا جوہر چھین کر اسے بداخلاق بنادیا۔

عمران خان چاہتے ہیں کہ عوام ایک دفعہ ڈسے جانے کے بعد پھر اپنا ہاتھ اُسی سوراخ میں ڈال دیں مگر اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ دوسری بار کا ڈنگ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ کیا پاکستانی قوم دوبارہ ڈسے جانے اور ایک زہر آلود کلہاڑی سے خود اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کے لیے تیار ہوجائیگی؟