الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر دو گھنٹے میں الیکشن شیڈول جاری کر دیا ہے۔ آٹھ فروری کو الیکشن ہو رہے ہیں۔ یہ الیکشن کس حد تک شفاف ہوں گے اور جمہوری عمل کو کتنا طاقت ور بنائیں گے، اس پر تاحال بحث جاری ہے۔ نواز شریف کو جس تیزی سے انصاف ملا، اس کی مثال پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی، وہ نواز شریف جو گزشتہ ساڑھے تین سال عدالتی نظام پر برہم رہے، ججوں اور جرنیلوں کو اپنا دشمن سمجھتے رہے، انھیں راتوں رات صادق او رامین قرار دے دیا گیا اور یہی نہیں بلکہ صرف اور صرف نواز شریف کے لیے تحریک انصاف جیسی مضبوط، طاقت ور اور مقبول پارٹی کو دیوار سے لگانے کا عمل کئی ماہ سے جاری ہے۔
سانحہ نو مئی کی مذمت اپنی جگہ مگر کیا ایک مقبول سیاسی پارٹی جس کا مستقبل بالکل واضح ہے، اسے محض اس لیے دیوار سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار پر نواز شریف کو لانا ہے۔ وہی نون لیگ تھی اور پیپلز پارٹی بھی، ایم کیو ایم بھی تھی اور جے یو آئی بھی، کیا تیرہ سیاسی جماعتیں مل کر بھی جمہوری نظام کو مضبوط کر سکیں؟ کیا گزشتہ سولہ ماہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین وقت نہیں تھا؟ عمران خان سے دشمنی میں پاکستان کو دیوار سے نواز شریف کی وہ تمام تقاریر کیسے فراموش کر دیں جن میں وہ سرعام عدالتی نظام پر تنقید کرتے تھے، جنرل باجوہ سمیت کئی اہم فوجی جرنیلوں کو اپنی شکست کی وجہ قرار دیتے تھے۔
سیاسی مخالفین کو ملک دشمن اور غدار کہتے تھے۔ جب نواز شریف تمام کیسوں میں بری ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم نے کبھی اداروں کو بر بھلا نہیں کہا، ہم ملکی سلامتی کے لیے ہمیشہ اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوئے وغیرہ وغیرہ، میں شدید حیران بھی تھا اور شرمندہ بھی۔ حیران اس لیے کہ کل تک لندن میں جو کچھ ہوتا رہا، ہم سب کے سامنے ہے، شرمندہ اس لیے ہوں کہ جن اداروں نے کل میاں صاحب کو ڈیفالٹر اور کرپٹ کہا تھا، وہی آج انھیں صادق اور امین کہہ رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوگا، جنہوں نے کل اسے صادق اور امین کہا تھا، آج وہی میں اس کی حب الوطنی اور صداقت پر سوال اٹھا رہے ہیں، نتیجہ کیا نکلے گا، ہم سب جانتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کا اعلان تو کروا دیا مگر تحریک انصاف کو کھوکھلے سیاسی عمل کے ذریعے باہر نکال کر جو الیکشن کروائے جائیں گے، کیا وہ قابلِ قبول ہوں گے؟ کل جب نواز شریف کو سیاسی عمل سے باہر نکالا جا رہا ہے، ہم اس وقت بھی کہتے تھے کہ سیاسی عمل سے کسی بھی جماعت یا شخص کو باہر نہیں کیا جا سکتا ہے، ایسے گھنائونے کھیل سے نقصان صرف اور صرف ملک کا ہوتا ہے، ہمیں ہر فورم پر ایسے عمل پر آواز اٹھانا ہوگی جس سے سیاسی و جمہوری عمل مشکوک ہو جائے کیوں کہ الیکشن میں پیسہ صرف اور صرف عوام کا لگتا ہے لہٰذا عوام کا پیسہ ایک مشکوک کام میں ضائع نہیں کیا جا سکتا۔
کل جب تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر مصر تھیں کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہی ہونے چاہیں، لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ یاد آ گیا جس میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابات کے لیے کہا گیا تھا، اس حکم کو پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں نے نظر انداز کر دیا تھا، صرف اپنے ذاتی مفاد اور سیاسی لوٹ کھسوٹ کے لیے عدالتی آرڈر اور پاکستانی آئین سے کھلواڑ کیا گیا، اس کی سزا کسے ملنی چاہیے؟ ایک آرڈر وہ بھی تھا اور ایک آرڈر کل بھی آیا، کل والا سب نے تسلیم کر لیا مگر اس سے پہلے والا سب نے ٹھکرا دیا، کیا سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہر اس آرڈر کو ٹھکرا سکتی ہیں جو ان کے مفاد میں نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ ریلیف صرف سیاست دانوں کو ہی کیوں، ہر شہری کو ملنا چاہیے۔
آج سولہ دسمبر ہے، سقوطِ ڈھاکہ کس کو یاد نہیں۔ جب ایک ڈکٹیٹر نے 1956ء کا آئین توڑکر ملک پر قبضہ کیا تھا، اس قبضے کا سب سے بڑا نقصان سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں ہوا۔ اس وقت کئی سیاسی و مذہبی جماعتیں اس سیاہ عمل کا حصہ تھیں اور آج جب 1973ء کا آئین باربار توڑا جا رہا ہے، آج بھی کئی سیاسی و مذہبی جماعتیں اس عمل کا حصہ ہیں۔
ہم نے جب جب اپنے سیاسی عمل میں اپنے آئین سے روگردانی کی اس کا نقصان پورے ملک کو اٹھانا پڑا۔ خدشہ ہے کہ کہیں ہم دوبارہ کسی گھنائونے کھیل کا حصہ نہ بن جائیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو سقوطِ ڈھاکہ اور اس سے وابستہ حقائق نہیں بھولنے چاہیں، ہمیں پچھہتر سالہ تاریخ کے جمہوری ادوار بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ دکھ یہ نہیں کہ پاکستان میں آئین نظرانداز ہمیشہ سیاست دانوں نے کیا بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ سیاست دان مہرہ بنتے رہے، فوائد کوئی اور اٹھاتا رہا، نظام کی تبدیلی کی بات کرنے والے خود ہی نظام کی تباہی کا سامان پیدا کرتے رہے۔
آج نواز شریف کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہی ہے، کل عمران خان کو مل رہی تھی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی ہمیشہ اس راستے کا انتخاب کیا جس سے اقتدار بآسانی مل سکتا تھا یعنی ہر کوئی اسی کوشش میں رہا ہے کہ مجھے راستہ صاف ملنا چاہیے۔ آج اگر تحریک انصاف الیکشن سے باہر ہوتی ہے تو اس کا فائدہ تحریکِ انصاف کو ہوگا اور نقصان نون لیگ کا، نون لیگ کو کسی نے غلط پٹی پڑھائی ہے کہ نواز شریف بہت مقبول لیڈر ہیں اور اب عوامی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں، یہ سراسر جھوٹ ہے کہ نواز شریف یا نون لیگ جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر آپ نے آزمانا ہے تو عمران خان اور نواز شریف کو ایک ہی حلقے سے الیکشن لڑوا لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ آپ نون لیگی امیداواروں کے حلقوں کا وزٹ کریں، عوامی سروے کریں، آپ جان جائیں گے کہ مقبول کون ہے۔
میری تمام معزز اداروں سے دست بستہ اپیل ہے کہ اگر الیکشن ہو ہی رہے ہیں تو ان کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، عمران خان، نواز شریف یا کسی بھی سیاسی آدمی کے لیے قومی اداروں کی ساکھ دائو پر نہیں لگنی چاہیے، اعلیٰ عدلیہ ہو یا پھر ہماری عظیم فوج، الیکشن کمیشن ہے یا پھرنیب، ہم کسی پر بھی کوئی الزام برداشت نہیں کریں گے، ہم چاہتے ہیں ہمارے ادارے سیاسی و جمہوری عمل کی مضبوطی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ نواز شریف اور عمران خان کی ذاتی جنگ میں اداروں کا کردار نیوٹرل ہونا بہت ضروری ہے۔ ملک میں جب جب جمہوری عمل پر شب خون مارا گیا، اس کا نقصان وطن عزیز نے اٹھایا۔