5اگست کے بھارتی اقدامات اور کشمیر کی بگڑتی صورتحال نے اس یومِ دفاع کو کافی اہمیت دے دی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لیے اپنے وطن کا دفاع سب سے مقدم فریضہ ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہم اپنے پیارے وطن کا دفاع نہ کر سکے تو پھر ہندؤ ں کا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو جائے گا۔
ہم آئے دن ایسے مناظر دیکھتے ہیں جن میں مسلمانوں کو مار پیٹ کر، جلا کر، ان کے پیٹ چھریوں سے کاٹ کر، اذیتیں دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ جے شری رام کا پاٹ کریں، شیوا لنگم کی پوجا کریں اور وشنو بھگوان کے گیت گائیں۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ اس نے ہمیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کیا اور آزادی کے وقت ایک دور اندیش اور معاملہ فہم قیادت قائدِاعظم محمد علی جناح کی شکل میں نصیب کی ورنہ ہم اوپر بیان کی گئی غلاظت اور گندگی میں لتھڑے ہوتے۔
آجکل کے دور میں لڑائی صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جاتی۔ فضائیہ کی قوت سے کوئی بھی دشمن کہیں بھی وار کر سکتا ہے مگر میزائل ٹیکنالوجی میں بے انتہا پیش رفت سے اب ہوائی حملوں کے ساتھ ساتھ میزائل کی بارش بھی ہوتی ہے۔ اس لیے ہمہ گیر دفاعی پالیسی اپنانا اور ترتیب دینا ضروری ہے۔
ہماری بہادر افواج پچھلی کم و بیش تین دہائیوں سے اپنے اندرونی بیرونی دشمنوں کے ساتھ نبرد آزما رہی ہیں۔ جنگ جیسی صورتحال سے گذر کر افواج ِپاکستان Battle Hardened ہو چکی ہیںاور کسی بھی صورتحال کا سامنا کر سکتی ہیں، ہمارے سیکیورٹی اداروں نے اس دوران بہت کچھ سیکھا ہے اور امید ہے کہ انھوں نے اپنی دفاعی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بہترین ہتھیاروں کو چنا، خریدا، بنایا اور ٹیسٹ کیا ہوگا اور ساتھ ہی تربیت میں کوئی کسر نہیںچھوڑی ہو گی۔
ہماری دفاعی قیادت کو سب سے پہلے اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنی ہو گی، اپنی غلطیوں سے صرفِ نظر نہیں کرنا بلکہ ان سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا تاکہ دشمن کو بخوبی جان کر اچھی پلاننگ سے بہترین نتائج بر آمد کیے جا سکیں۔
دفاعِ پاکستان کا پہلا مرحلہ اپنی سرحدوں کا دفاع ہے جس کے لیے ہماری افواج ہر وقت تیار ہیں۔ پاکستان کی افواج اور بھارتی افواج کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی اس لیے دونوں کی اٹھان، تربیت اور جنگی حکمتِ عملی ایک جیسی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے پاس فوجی افرادی قوت بھارتی افواج کے مقابلے میں کم ہے لیکن بھارتی عددی برتری سے ہم بہت اچھی طرح نبٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ایک کے مقابلے میں دو کوئی جیت دلانے والا کمبی نیشن بھی نہیں ہے۔
ہزار ہا جنگوں میں دیکھا گیا ہے کہ کم افرادی قوت والی فوج نے بہتر حکمتِ عملی سے واضح عددی اکثریتی فوج پر غلبہ پایا ہے، ہمارے پاس تمام قسم کا جنگی سامان مناسب مقدار میں موجود ہے، آجکل کے دور میں ہر قسم کا ہتھیار بہت حد تک کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے، ہماری افواج بھی اس مہارت میں پیچھے نہیں ہیں۔ ہماری فارمیشنز بہت مناسب جگہ پر موجود ہیں۔ جو چیزیں واضح فرق ڈالتی ہیں وہ حکمتِ عملی، بہترین تیاری اور سب سے اہم انٹیلی جنس اکٹھا کرنے اور خطرے سے پہلے اس کو بھانپ لیناہے، اگر دشمن سر پرائز دینے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارابہت نقصان کر سکتا ہے لیکن پاکستانی اداروں کی انٹیلی جنس کارگر دگی اچھی رہی ہے۔
فضائی محاذ پر ابھی فروری میں ہماری ایئر فورس نے بہت عمدہ پرفارمنس دی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ساری عزت ہی ایئر فورس کی بہترین کارکردگی کی مرہونِ منت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انڈین ایئر فورس کے پاس ایس یو تھرٹی جیسے بہتر طیارے موجود ہیں لیکن پاکستان ایئر فورس کے افسروںنے اسے دنیا کی بہترین ایئر فورس بنا دیا ہے۔
پاکستان ایئر فورس نے ابتدا سے ہی اپنے جنگی جہازوں کی مرمت، اوورہالنگ اور اپگریڈیشن پر بہت توجہ دی ہے اور خدا کا شکر ہے کہ ہماری ایئر فورس نے ان تمام شعبوں میں وہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ ہمارے جنگی طیارے جو بظاہر پرانے ہو چکے ہیں وہ سارے کے سارے اپنی ابتدائی اصلی استعداد سے بڑھ کر فضائی جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہیں، قابلِ قدر بات یہ ہے کہ ان اپگریڈڈ طیاروں پر ہمارے اپنے بنائے ہوئے سسٹم نصب ہیں جس سے ان کی پر فارمنس بہت بڑھ چکی ہے۔ بھارتی ایئر فورس کے پاس جب تک رافیل طیارے نہیں آ جاتے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ایئر فورس کی کار کردگی قوم کی امنگوں کے مطابق ہو گی۔
رافیل کی Detection )دور دیکھ لینے کی (رینج بہت ہے لیکن ایسے سسٹم جن کی رینج رافیل کی رینج سے زیادہ ہے وہ سسٹم نصب کر کے ہم مات دے سکتے ہیں بہر حال اس بات پر بہت انحصار ہو گا کہ کون دیکھ کر اڑ رہا ہے اور کون اندھا جس طرح ابی نندن پوچھ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں۔
پاکستان نیوی کا کردار کسی بھی ایمرجنسی میں بہت ہی اہم ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں پاکستان نیوی کی استعدادِکار بہت بڑھ چکی ہے اور وہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس وقت ہمارے پانیوں کے پاس آبنائے ہرمز اور خلیج کے علاقے میںپہلے ہی حالات بہت خراب ہیں۔ امریکا، اسرائیل، برطانیہ، خلیجی ممالک اور ایران کے درمیان سخت کھچاؤ ہے، ایک نیول فورس امریکا کی سربراہی میں اس علاقے میں تعینات ہو چکی ہے۔ ادھر ایران بھی خم ٹھونک کر مقابلے کے لیے تیارہے اور سو سے زیادہ اسپیڈ بوٹس کے ساتھ موجود ہے۔
ایران نے روس سے حاصل کردہ ایس یو 300 میزائل بیٹریاں اپنے ساحل پر نصب کر رکھی ہیں، ان حالات میں یہ علاقہ کسی ایک غلطی سے جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، اب بھارت کی طرف سے بھی ہمارے پانیوں میں شرارت متوقع ہو سکتی ہے، امیدہے ہماری بحری افواج کی اعلیٰ قیادت اس سارے منظر پر نظر رکھے ہوئے ہو گی۔ کسی بھی ایمر جنسی کی صورت میں بھارتی نیوی کی کوشش ہو گی کہ وہ ہماری کوسٹل لائن کو غیر محفوظ کرے۔
کراچی کو نشانہ بنائے، گلف کی طرف سے ہماری سپلائی لائن کو منقطع کرے اور آئل ریفائنریز کو بمباری کر کے تباہ کر دے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانے والے ٹیکٹیکل ہتھیاروں سے لیس پاکستان نیوی ان تمام ممکنہ خطرات سے نبردآزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ہماری نیوی کے ایوی ایشن ونگ نے بھی خاطر خواہ ترقی کر لی ہے اور وہ پانی کے اندر موجود خطرے کو دیکھنے کی صلاحیت سے لیس ہے، ابھی فروری میں جب ایک بھارتی سب میرین نے پاکستانی پانیوں میں حرکت کی تو اس کو دیکھ بھی لیا گیا اور پیغام دیا گیا کہ دفع ہو جاؤ ورنہ تباہی کے لیے تیار ہو جاؤ۔
ہمارے دفاع کا سب سے اہم حصہ ہماری ایٹمی صلاحیت ہے۔ اس شعبے میںہماری برتری بہت واضح ہے، ہماری نیوکلر ڈاکٹرائن بہت عمدہ ہے۔
سول ڈیفنس دفاع کا ایک جزو ہوتا ہے۔ ہم نے اس طرف سے بہت غفلت برتی ہے لیکن اس پر ایک مکمل کالم درکار ہو گا۔
اسلام آباد میں بری، بحری اور فضائی افواج کا مشترکہ آپریشن روم ہونا چاہیے تاکہ تینو ں مسلح افواج کی اعلیٰ ترین قیادت سر جو ڑ کر پلاننگ اور execution کر سکے۔ اسی طرح Joint Integrated Survilence System کی بہت ضرورت ہے۔ جنگیں قوموں کو کمزور اور برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔ یہ جنگیں ہی تھیں۔
جنھوں نے برطانیہ کی سلطنت جس پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اسے اتنا کمزور کر دیا کہ اس کی تمام نو آبادیاں چھن گئیں اور اب برطانیہ کے پاس امریکا کی کاسہ لیسی کے سوا کوئی چارہ نہیں، اس لیے جنگ بالکل کوئی آپشن نہیںہونا چاہیے لیکن جنگ کے لیے اپنے آپ کو اتنا تیار کرنا چاہیے کہ دشمن کے دل میں خوف پیدا ہو جائے۔ قرآنِ مجید سورہ انفال آیت ساٹھ میں یہی تلقین کرتا ہے کہ اتنی قوتِ جنگ مہیا کرو کہ دشمن تمہارے بارے میں سوچتے ہی لرزہ بر اندام ہو جائے۔ پاکستان پایندہ باد۔