ماشاء اللہ ہمارے ہاں بحرانوں کی کبھی کمی نہیں رہی ہے مزے کی بات یہ ہے کہ ان بحرانوں کوپیدا کرنے والے بھی ہم خود ہیں اور اس میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کبھی ہم سیاسی بحران کی خبر سنتے ہیں تو کبھی زرعی ملک میں غذائی بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ گندم کے بحران کی ابھی بازگشت مدہم نہیں پڑی کہ چینی کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔
پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ شوگر ملوں کے مالکان کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ہماری تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں میں شامل ہیں اور ہر حکومت کا کرتا دھرتا یہی لوگ ہوتے ہیں جو عوام کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے ہاں چینی کے بحران نے ایک آمر کی حکومت گرا دی تھی۔
ایوب خان حکمران تھے اور چینی کی قیمت آٹھ آنے بڑھ گئی تھی۔ قوم چونکہ تھوڑی سی زندہ تھی اس لیے چینی کا بحران ایک ایسی عوامی ناراضگی کا سبب بن گیا کہ بعد میں اسی کے بطن سے ایک تحریک شروع ہو گئی جو کئی مرحلوں اور صورتوں سے گزرتی ہوئی بالآخر ہمارے پہلے فوجی حکمران کے اقتدار کو لے ڈوبی۔ بعد میں بھی ایک بحران چینی کے سلسلے میں پیدا ہوا یہ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا۔ راشن کارڈ رائج ہوئے اور ان پر چینی ملنے لگی۔
چینی کے ڈپو جیالوں کو مرحمت کیے گئے تھے جو ایک سیاسی اسکینڈل بھی بن گیا تھا۔ نواز شریف کے ایک دور میں بھی چینی مہنگی ہوئی اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت سے چینی منگوائی گئی اگرچہ اس وقت بھی دونوں ملکوں میں سرد جنگ عروج پر تھی مگر منہ میٹھا کرنا بھی ضروری سمجھا گیا لیکن افسوس کہ بھارتی چینی ناقص تھی، بہرحال چینی کی طرح دکھائی دیتی تھی۔
اب ایک بار پھر چینی بحرانی کیفیت پیدا کر رہی ہے اور اب تو خدا جانے اس کی قیمت کتنی ہے کیونکہ ہر روز بدلتی ہے مگر اتنی زیادہ ہے کہ اب منہ میٹھا کرنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ حکومت نے عوام کے لیے اربوں روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت یوٹیلٹی اسٹوروں پر اشیائے خور ونوش عوام کو سستے داموں فراہم کی جائیں گی۔ چینی کی قیمتوں کے علاوہ غذائی اجناس کی قیمتیں انتہائی حد تک پہنچ جانے کے باوجود ابھی وہ عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا کہ عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑیں یعنی عوام ابھی خاموش ہیں لیکن ان کی خاموشی میں بھی غصہ دکھائی دیتا ہے۔
حکمران معیشت کی بہتری کے دعوے کررہے ہیں اور عوام کو مستقبل قریب میں خوشحالی کی نوید سنارہے ہیں۔ اوپر والے طبقے کی آمدنی ان کی انگلیوں کے درمیان فاصلے میں سے نیچے کی طرف گر رہی ہے جو عوام تک پہنچ رہی ہے اس نیچے کی طرف پھیلتی دولت کی ہی وجہ ہے کہ عوام یہ چینی خرید رہے ہیں جو ناقابل تصور حد تک مہنگی ہے۔ اگر عوام غریب ہوتے یا ایوب خان کے دور والے ہوتے تو باہر سڑکوں پر نکل آتے لیکن عوام چونکہ خوشحال ہیں اور چینی کی قیمت ادا کر سکتے ہیں اس لیے کسی تحریک کے جلوس میں نہیں حکومت کے خوش کن اعلانات سن رہے ہیں اور یوٹیلٹی اسٹوروں کے باہر قطاروں میں کھڑے ہونے کے لیے اپنے آپ کو صبرو تحمل کے ساتھ تیار کر رہے ہیں۔
غذائی اجناس کے بحران کے پیچھے جس کا بھی ہاتھ ہے وہ ایک کامیاب ہاتھ ہے۔ حکومت نے چونکہ اس کی طرف توجہ کر لی ہے اور جناب وزیر اعظم نے بذات خود اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس لیے اب یہ بحران یقیناً کمزور پڑ جائے گا۔ ویسے اس نفع بخش بحران کے پیچھے جو ہاتھ تھے وہ اب اتنے بھر چکے ہوں گے کہ اس بحران کو جاری رکھنے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھیں گے۔ اب ہمیں ان ہاتھوں میں سے گرتی دولت کا انتظار کرنا چاہیے اور خوشحال ہونے کے اس نئے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے خواہ اس کے لیے قطاروں میں ہی کیوں نہ لگنا پڑے۔
چینی کی گرانی سے میں بالکل بے فکر ہوں اور میرے ڈاکٹر شہر یار نے اپنی بصیرت سے اس آنے والی صورتحال کو برسوں پہلے محسوس کر لیا تھا چنانچہ ان کی ہدایت پر میں نے چائے میں چینی ملانی ترک کر دی تھی۔ ڈاکٹر شہر یار نے میری آرام طلبی کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ آپ موٹاپا پیدا کرنے والی چیزوں کا استعمال کم کر دیں ان میں چینی سر فہرست ہے دوسرے وہ مشروبات جو بوتلوں میں باافراد پیئے جا رہے ہیں کیونکہ ان میں میٹھا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میرے جیسے تابعدار مریض ڈاکٹروں کو بہت کم نصیب ہوتے ہیں چنانچہ شہر یار کی بروقت طبی اور مشاورتی امداد کے صدقے میں چینی کی قلت اور اس کے بحران سے بے خبر اور لا تعلق ہوں بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے صدر صاحب ملک میں غذائی اجناس کی قیمتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔
ملک میں شوگر کی بیماری عام ہو چکی ہے اگر آ پ کسی سے خیر وعافیت پوچھیں اور وہ خیریت سے ہو تو جواب دے گا کہ اللہ کے فضل سے نہ شوگر ہے نہ بلڈ پریشر کیونکہ یہی دو عام بیماریاں ہیں اور ہماری خوشحالی و آرام طلبی کی دین ہیں۔ میرے خیال میں ملک کی خاصی آبادی چینی کے استعمال سے گریز کرتی ہو گی تا کہ شوگر میں اضافہ نہ ہومگر اس کے باوجود آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ شوگر فری پاکستانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ پھیکی چائے کا فیشن کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ انھی لوگوں کی وجہ سے ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت پریشان ہے۔
اشیائے ضرورت اگر مہنگی ہوں تو معاشیات والے اسے طلب اور رسد میں عدم توازن کا نام دیتے ہیں کہ طلب زیادہ اور رسد کم ہے۔ اس کمی بیشی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نبٹنے کے لیے حکومت اگر چینی کے استعمال کے خلاف اشتہاری مہم شروع کر دے تو عوام کو بھی ایک صحت مند زندگی مل سکے گی اور امیروں کے ہاتھوں سے گرنے والی دولت کی وجہ سے عوام کو حاصل ہونے والی خوشحالی دواؤں اور ڈاکٹروں پر خرچ ہونے کے بجائے صحت مند تفریحات پر خرچ ہو گی۔ نئے پاکستان کے پہلو بہ پہلو ہمیں ایک شوگر فری پاکستان بھی درکار ہے اور وقت کی ضرورت ہے نہ شوگر ہو گی نہ کوئی اسے استعمال کرے گا اور نہ کوئی حکومت بحرانوں کی زد میں آئے گی۔