Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Charwahe Ki Bakri Aur Adil Hukmaran

Charwahe Ki Bakri Aur Adil Hukmaran

آپ سب کی طرح میں بھی وزیر اعظم کی تقریریں سنتا ہوں کبھی وہ ملک سے باہر پاکستانیوں سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی ملک میں مقیم ان کے مخاطب پاکستانی ہوتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان سے باہر مقیم پاکستانی خوشحال ہیں ان کو اپنے روز گار کی فکر نہیں ہے اس لیے وزیر اعظم کی گفتگو ان کے دلوں میں پاکستانیت کا جوش و جذبہ مزید گرما دیتی ہے جب کہ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے وزیر اعظم کی تقریریں خوشحال مستقبل کے وعدے لیے ہوتی ہیں۔ ایسی تقریریں ہم گزشتہ ستر برسوں سے سنتے آرہے ہیں لیکن ان پر عمل کم کیا گیا ہے۔

عمران خان کی تقریروں پر قوم اب عمل کے انتظار میں ہے اور امید ہے کہ وہ قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ ان کی تقریریں ایک مہذب اور شریف ملک میں معمول کی باتیں ہیں لیکن ہم چونکہ معمول سے ہٹ چکے ہیں بے راہروی مادر پدر آزادی اور قانون شکنی کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے ہمیں یہ سب کچھ عجیب سا نظر آرہا ہے۔ عمران خان ابھی قوم سے مانگ رہے ہیں اور دینے کے لیے مستقبل کی بات کر رہے ہیں وہ ایک اچھی حکومت کی ذمے داری نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ان انتظامی اصلاحات کو برداشت کرلیں۔ عمران خان خلوص نیت سے پاکستانیوں کے لیے زندگی آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقہ نے عام پاکستانی کے لیے زندگی میں جو مشکلات پیدا کر دی تھیں ان کو ختم کرنے کا ابھی آغاز کیا گیا ہے اور پاکستانیوں کو رعایا کی غلامانہ حیثیت سے نکال کر انھیں ایک آزاد ملک کا شہری بنانے کی عملی کوشش کی جارہی ہے۔

خلافت راشدہ کے بعد جب بادشاہت اور آمریت شروع ہوئی تو مسلمان رعایا بنا دیے گئے۔ ان سے یہ حق چھین لیا گیا کہ وہ کسی سربراہ مملکت سے باز پرس کر سکیں اور اسے بھرے مجمع میں ٹوک سکیں کہ مجھے تو جو کپڑا ملا ہے وہ چھوٹا ہے لیکن تمہیں جو ملا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ مجھ سے بڑا ہے اور ملک کے سربراہ کو اس کی وضاحت کرنی پڑے۔ پاکستانی عوام کو ان کی کھوئی ہوئی عزت اور وقار دینے کا جو عزم وزیر اعظم نے ظاہر کیا ہے اور اس کے لیے جن عملی اقدامات کا اعلان وہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں وہ سب ایک مسلمان ریاست کی بنیاد ہیں۔ پاکستانی دعا بھی کررہے ہیں اور عملاً بھی وہ سب کچھ کرنے کی کوشش میں ہیں جو وزیر اعظم کی خواہش ہے کیونکہ یہی خواہش ہر پاکستانی کی بھی ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جو کوئی ایک فرد خواہ وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو مکمل نہیں کر سکتا۔ یہ ہم سب کے مل جل کر کرنے کا کام ہے لیکن ستر برس کی تاخیر سے ہی سہی اس کا آغاز ہو گیا ہے۔

وزیر اعظم کی باتوں میں ہم آنے والے دور کی ایک تصویر دیکھ رہے ہیں خواب وخیال کی دنیا سے نکل کر حقیقتوں میں داخل ہو رہے ہیں عوام وزیر اعظم کا دنیا کے دوسرے سرے تک ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن کیا وزیر اعظم کے گردو پیش موجود ان کے ساتھی بھی وزیر اعظم کی تقریروں کو ــ"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" کہنے اور ماننے پر تیار ہیں۔ اس کا علم سب سے زیادہ خود وزیر اعظم کو ہوگا لیکن ایک سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم کی نیت صاف ہے جس کا اقرار ان کے سیاسی حریف بھی کرتے ہیں۔ وہ عوام کے غیر معمولی اعتماد کو نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ انھیں لوٹانے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہر مسئلہ کا حل ہمارے پاس موجود ہے اس حل کو تلاش تو کر لیا گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ مراعات یافتہ طبقہ رکاوٹوں کا باعث بن رہا ہے یہ وہی طبقہ ہے جو عوام کی مشکلات کا اصل ذمے دار ہے۔ عوام مشکل دن گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں یہ مشکل دن بھی گزر جائیں گے کیونکہ یہ مشکل دن ہمارے نہیں اس مراعات یافتہ طبقہ کے ہیں جس کونئی زندگی دکھائی دے رہی ہے۔ جیسا عرض کیا ہے کہ ہم عوام تو مشکلات کے عادی ہیں ہمیں تو دو وقت کی روٹی کے لیے روزگار مل جائے اور بازار میں روز مرہ زندگی گزارنے کی اشیاء سستی ہو جائیں تو ہمارے وارے نیارے ہیں لیکن برائی کی اصل جڑ وہ لوگ ہیں جو ملک کو جونک کی طرح چپک کر خون پی رہے ہیں ان کی بیخ کنی اگر ہو جائے گی تودال روٹی کا معاملہ چل پڑے گا۔

مسلمانوں کے عقیدے اور ان کے سیاسی کلچر میں یہ بات موجود ہے کہ حکمرانوں کی نیکی یا بدی نیچے تک سرایت کرتی ہے وہ اقتدار کے ایوانوں کی چار دیواری میں بند نہیں رہتی۔ حکمران اچھا خدا ترس اورنیک ہوتا ہے تو عوام بھی اس کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں اگر حکمران برا اور ظالم ہوتا ہے تو عوام کا مزاج بدل جاتا ہے۔

ظالم شیر ہوجاتے ہیں اور مظلوم سہم جاتے ہیں۔ ہم مسلمانوں نے جب انسانی تاریخ کی پہلی فلاحی ریاست قائم کی تھی تو اس کی بنیاد حکمران کی نیکی اور نیکی کے قاعدوں ضابطوں اوراصولوں پر رکھی تھی۔ دمشق کے قریب ایک چراگاہ میں بھیڑیئے نے ایک بکری مار ڈالی۔ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے لیکن جب ریوڑ کے چرواہے کو اس کے بیٹے نے خبر دی کہ ہماری ایک بکری بھیڑیا کھا گیا ہے تو وہ چرواہا جو ایک عرصے سے جنگلی بھیڑیوں سے محفوظ چلا آرہا تھا رونے چلانے لگ گیا۔ بیٹے کو تعجب ہوا اور اس نے کہا کہ ایسے حادثے تو ہو ہی جاتے ہیں بابا تم اس قدر پریشان کیوں ہو گئے ہو۔ بوڑھے چرواہے نے بیٹے سے کہا کہ میں بکری کو نہیں رو رہا۔ میرا عادل اور عوام کا غمگسار حکمران مر گیا ہے۔ جن مورخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ عین اس وقت دمشق میں عمر بن عبدالعزیز مسلمانوں سے جدا ہو گئے تھے۔