کئی بار عرض کیا ہے اور یہ کوئی انکشاف نہیں کہ آج کی طاقتوں کے لیے چیلنج صرف اور صرف مسلمان مجاہدین ہیں۔ یہ گوریلے کسی سے ڈرتے نہیں ہیں اور انسان کی سب سے ڈراؤنی چیز موت کے طلبگار رہتے ہیں جس چیز سے دنیا ڈرتی ہے وہ ان سے ڈرتی ہے کیونکہ وہ ان کو مار نہیں سکتی۔
وہ شہادت کی موت کے بعد زندہ رہتے ہیں۔ کسی بھی دوسری وجہ سے موت آئے تو وہ مر سکتے ہیں مگر میدان جہاد میں وہ نہیں مر سکتے۔ امریکا ہو یا یورپ کی کوئی اور طاقت ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے اسی لیے وہ اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ ان مسلمان مجاہدین کو سمجھتے ہیں۔
ان مجاہدین کا سب سے بڑا مرکز افغانستان ہے اور امریکا کی بدقسمتی کہ افغانستان کو مجاہدین کا بڑا مرکز بنانے میں اس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فرعون کے گھر موسیٰ نے پرورش پائی ہے اسی طرح پاکستان تمام مسلمان ممالک میں اسلام کے سب سے زیادہ قریب ملک ہے اور قدیم طرز کی اسلامی تعلیم کے سب مراکز اور مدارس پاکستان میں ہیں، اور پاکستان کے ان علاقوں میں جو افغانستان کے قریب ہیں۔ چنانچہ افغانستان میں جب روس کے قبضہ کے خلاف جہاد شروع ہوا تو زیادہ تر مجاہدین کے لشکر ان مدرسوں کے طالبان پر مشتمل تھے اس سے کوئی تین برس کے بعد جب امریکا اپنے حریف روس کے خلاف اس جنگ میں شامل ہوا تو اس نے نہتے مجاہدین کو جدید اسلحہ بھی دیا اور ان کی ہر طرح سے مدد کی۔
چنانچہ اس امریکی امداد سے ان مجاہدین اور طالبان نے ایک مستقل جہاد اور مجاہد کی شکل اختیار کر لی جو جہاد افغانستان کے بعد ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید صیقل ہو کر جہاد کے نئے میدانوں میں اتری اور جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو انھی مجاہدین نے ایک زبردست فوج کو بے بس کر دیا۔ مجاہدین کے اس لشکر کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے جنگ کے میدانوں اور محاذوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔
ان کے ساتھ معاملہ کسی دوسرے طریقے سے کیا جا سکتا ہے جس کو طاقت کے نشے میں دھت امریکا مجبوراً اختیار کرنے جا رہا ہے۔ امریکی صدر رعونت زدہ لہجے میں کہتے ہیں کہ وہ اگر چاہئیں تو یہ جنگ دو دنوں میں جیت سکتے ہیں مگر لاکھوں جانیں جائیں گی۔ امریکا تقریباً دو دہائیوں سے افغانستان میں براہ راست جنگ میں ملوث ہے مگر وہ بے پناہ طاقت کے باوجود ان سر پھرے اور سرفروش مجاہدین سے معاملہ طے کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
امریکی سیاست کے پیچھے دانشوروں کا ہاتھ ہوتا ہے اور طویل اور گہری منصوبہ بندی بھی، کم از کم ہم کمزور لوگوں کو یہی بتایا جاتا ہے لیکن ان دانشوروں اور پالیسی سازوں کو مزید گہرائی میں جا کر یہ سوچنا چاہیے کہ اگر وہ زمین پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے امریکا کی کوئی پالیسی بنا سکتے ہیں تو ان کا بہت سارا درد سر ختم ہو سکتا ہے۔
آخر امریکی اتنے درد سر پیدا کیوں کرتے ہیں جن کو دور کرنے کے لیے انھیں اس قدر زحمت کرنی پڑتی ہے۔ یہ مجاہدین کشور کشائی کے بھوکے نہیں ہیں اور دنیا کو فتح نہیں کرنا چاہتے جہاں ان کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے وہاں اس کے خلاف آواز اور ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ امریکا جو بار بار کہتا ہے کہ آج کی دنیا کی ذمے داری اس پر ہے وہ دنیا سے نا انصافی کو کیوں ختم نہیں کرتا۔ کیا یہ اس کی ذمے داری نہیں ہے۔ وہ مجاہدین کو کیوں پیدا ہونے دیتا ہے۔
وہ ایسے جنوں کو بوتل سے کیوں باہر نکالتا ہے جن کو وہ دوبارہ کسی بوتل میں بند نہیں کر سکتا۔ دنیا کو امریکا سے کوئی پرخاش نہیں ہے اس نے طاقت اپنی محنت اور ہمت سے حاصل کی ہے یہ اس کو مبارک ہو یہ اس کا حق ہے وہ اس طاقت کے شوق کے ساتھ مزے لوٹے۔ اگر کوئی اس وجہ سے کوئی امریکا کی مخالفت کرتا ہے تو وہ حسد کرتا ہے لیکن امریکا جیسے طاقت ور کو زیب نہیں دیتا کہ وہ صرف اپنی پسند کے مظلوموں کی مدد کرے اور ناپسند مظلوم انسانوں کو ظلم سے بچانے کی بجائے الٹا ان کے ظالموں کی مدد کرے۔
مجاہدین کا خدا جو سب سے بڑی طاقت ہے تکبر اور ظلم کو پسند نہیں کرتا اور اس کے سزا دینے کے عجیب و غریب طریقے ہیں وہ طریقے جو انسانی دانشوروںکے خواب و خیال میں بھی نہیں آتے۔ روسیوں کے تکبر کی مثال ہمارے سامنے ہے ان کی طاقت کے تکبر نے ان کے دماغ بھی بند کر دیے تھے۔ انھی افغان مجاہدین نے روس کے تکبر کو خاک میں ملا دیا تھا۔ یہ افغانی اپنی معلوم تاریخ میں کبھی کسی کے غلام نہیں رہے اور روس جیسی بے رحم سپر پاور کو عبرت کا نمونہ بنا کر انھوں نے خالی ہاتھوں فتح کا اعتماد بھی حاصل کر لیا۔
امریکا چاہے تو انھیں تہس نہیں کر سکتا ہے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے ان کے کھنڈروں کو ہواؤں میں اڑا سکتا ہے۔ غرض وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو کوئی زبردست طاقت کسی کمزور کے ساتھ کر سکتی ہے مگر افغانستان پر حکومت نہیں کر سکتا اور نہ ہی مجاہدین کے عزم و ہمت کو توڑ سکتا ہے یہ طاقت وروں کی بے بسی ہے۔
ظلم اور بر بریت کے باوجود امریکا افغانیوں کو شکست دینے اور افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عملاً آج بھی افغانستان کے غالب حصہ پر طالبان کی حکومت ہے۔ درویشوں اور قلندروں کی یہ حکومت نہ امریکا اور اس کے کسی مالیاتی ادارے کی مقروض ہے اور نہ ہی کسی بیرونی امداد کی آرزو مند ہے ان کو آرزو ہے تو صرف یہ کہ وہ اپنے آزاد ملک میں آزادی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگیاں گزار سکیں لیکن ان کی یہ آرزو کسی امریکا کو پسند نہیں ہے۔