Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Gandum Ki Fasal Aur Hamara Kashtkaar

Gandum Ki Fasal Aur Hamara Kashtkaar

موجودہ حالات کے متعلق تو خدا ہی جانتا ہے کہ کب تک اس وباء سے ہماری جان چھوٹے گی اور زندگی دوبارہ معمول کی جانب لوٹ سکے گی۔ یہ دن گندم کی کٹائی کے ہیں، پاکستان کے بیشتر علاقوں میں گندم کی کٹائی انھی دنوں میں شروع ہوجاتی ہے لیکن میرے بارانی علاقے میں جسے میں صبر اور توکل کی آخری سرحد کہتا ہوں جہاں روزی کا دارومدار مکمل طور پر آسمان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور زمین پر بسنے والے بے اختیار انسان عجیب بے چارگی اور امید کی نظروں سے آسمان کو دیکھتے رہتے ہیں، کبھی بارش کے لیے اور کبھی دھوپ کے لیے۔ اس سال گندم کی فصل بہت اچھی ہے اور امید یہ کی جارہی ہے کہ گندم کی پیداوار اتنی ہو جائے گی کہ ہم اس کو اپنے ہمسایہ ممالک کو اسمگل بھی کر سکیں گے۔

پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے سال بھر کی گندم اگا لینا کچھ مشکل نہیں لیکن عملاً ہمیں اپنے پڑوسیوں کا پیٹ بھی بھرنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ اپنے اسمگلر وں کا بھی۔ گاؤں سے خبر آئی ہے کہ فصل بہت اچھی ہے چونکہ وادیٔ سون نسبتاً ایک ٹھنڈا قطعہ زمین ہے اس لیے وہاں پر گندم کی فصل مئی میں پک کر تیار ہوتی ہے۔ اﷲ تبار ک و تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی انتہاء نہیں مگر بارانی کاشتکاروں کو اندیشہ رہتا ہے کہ گندم کی عین تیاری کے وقت موسم مہربان نہیں رہے گا اور اس کی ایک جھلک موسم نے گزشتہ دنوں وادیٔ سون کے قرب و جوار میں دکھا دی اور ضلع خوشاب کے میدانی علاقوں میں اتنی زیادہ ژالہ باری ہوئی کہ میلوں دور تک گندم کے کھیت فصل کی عین تیاری کے وقت برباد ہو گئے۔

ہماری پڑوسی تحصیلیں جو پہاڑ ی زمینوں پر مشتمل نہیں میدانی ہیں، اس سال ژالہ باری سے تباہ و برباد ہو گئی ہیں، یہ نور پور تھل اور قائد آباد کی تحصیلیں ہیں جن کے بیشتر دیہات میں ژالہ باری سے گندم کی فصل ختم ہو گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس تباہی کے متعلق مکمل خاموشی ہے سوائے ان علاقوں کے منتخب نمائندوں کے جو میرے بھتیجے ہیں، ملک فتح خالق بندیال صوبائی اسمبلی کے میرے حلقہ کے منتخب ممبر ہیں اوردوسرے ممبر صوبائی اسمبلی ملک وارث کلو میرے عزیز ازجان بھتیجے کے دوست ہیں، اس نسبت سے ان کا شمار بھی میرے بھتیجوں میں ہوتا ہے۔

یہ دونوں ممبران مختلف پارٹیوں کے نمائندے ہیں مگر ان کے دل عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ا س لیے یہ روائتی سیاستدانوں کو انتخابی میدان میں شکست دے کر منتخب ہوئے ہیں۔ ان دونوں حضرات نے اپنی بساط کے مطابق کاشتکاروں کی دلجوئی کی ہے، ان کے پاس پہنچے ہیں اور ان کا دکھ بانٹنے کی کوشش کی ہے۔

ہم ایک احمق اور کوتاہ نظر قوم ہیں، باربار اپنے لیڈروں کے کھلے فریب کا شکار ہوتے ہیں مگر ووٹ پھر بھی انھی کو دیتے ہیں۔ ایسے قومی حادثوں پر توجہ دینا اور حکومتوں سے مدد حاصل کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہوتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے ضلع کے منتخب نمائندے حکومت سے ان متاثرہ کاشتکاروں کے لیے کچھ امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن میں یہ خود بھی شامل ہیں۔ ہمارے حکمران چونکہ شہروں والے رہے ہیں اس لیے ان کی توجہ شہروں پر زیادہ رہتی تھی، اب ایک دیہاتی حکمران پنجاب کو نصیب ہوا ہے، امید یہ کی جانی چاہیے کہ یہ دیہاتی حکمران اپنے کاشتکار بھائیوں کے مسائل کو حل کرے گا کیونکہ یہ خود ان مسائل سے گزر کر یہاں پہنچا ہے اور ان سے اچھی طرح واقف ہے۔

گاؤں سے آمدہ اطلاع کے مطابق سرد موسم کی وجہ سے ابھی گندم کی کٹائی میں کچھ وقت باقی ہے اور مجھے پرانی گندم جو کہ گزشتہ برس گاؤں سے منگوا کر ذخیرہ کی گئی تھی اس کو احتیاط کے ساتھ استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے کہ ابھی نئی فصل میں کچھ وقت باقی ہے۔ گندم کھیت میں کھڑی ہو یا کٹ رہی ہو اسے دھوپ کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی گہائی آسانی کے ساتھ ہو سکے۔

گاؤں سے جو خبریں آرہی ہیں مجھے امید ہے کہ اس سال لاہور میں بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے خاصی مدد مل جائے گی۔ ہم بارانی علاقے والوں کی سب سے بڑی فصل گندم ہوتی ہے اور جس سال گندم کی فصل لگ جائے اس سال گھر دانوں سے بھر جاتا ہے اور کوئی واردات کرنے کو جی چاہتا ہے یعنی کوئی پرانا بدلہ چکانے کا معاملہ یا کوئی نیا کھاتہ کھولنے کا یہ تو میں نے پرانی بات کہہ دی اب تو لوگ بہت عقلمند اور مہذب ہو گئے ہیں اور گھر میں رہ کر کھانے کو جیل پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن خدا فضل کرے اور فصل موسم کی سختی سے بچی رہے۔

بات میں نے کسی آنے والے خطرے سے شروع کی تھی جو نقصانات کی طرف چلی گئی۔ کاشتکارکہا کرتے ہیں کہ گندم کی فصل کے برادشت کے موسم میں سونے کی بارش بھی قبول نہیں۔ لیکن اطلاعات یہی آرہی ہیں کہ ہلکی پھلی بارش ہو سکتی ہے جس سے وسیع و عریض کھیتوں کو بچانا نا ممکن ہے اس کے لیے تو عزیز مصر یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی دانش چاہیے اور پھر عوام کا اعتماد بھی۔ یوسف علیہ السلام نے گندم کو اسٹاک کرنے کے لیے اسے خوشوں میں ہی رہنے دیا اور قوم سے کہا کہ ایک وقت کا کھانا کھاؤ، یوں قحط کے سات برس گزار لیے۔ اب تو یہ حال ہے کہ نیتوں کی خرابی نے بے برکتی پیدا کر دی ہے، ایک برس بھی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور جہاں ذخیرہ اندوزں کی جانب سے دو وقت کی روٹی کے لیے بھی مصنوعی قلت پیدا کر دی جائے اس ملک میں برکت کہاں سے آئے گی۔ کہیں کچھ بھی ہو ہم بارانی خطوں کے لوگ صبر اور برداشت کی آخری سرحدوں پر آباد رہیں گے۔

آسمان مہربان ہو تو شکر ادا کریں گے نا مہربان رہا تب بھی شکر ادا کریں گے۔ بغاوت نہیں کریں گے، کوئی ہڑتال نہیں ہو گی مگر ایک خواہش ضرور کریں گے کہ چلو غریبی نا بانٹو مگر اتنی امارت بھی حاصل نہ کر لوکہ اکثریت کے لیے غربت مقدر دکھائی دینے لگے۔