Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Lucy

Lucy

انسانی ذہن ایک خوبصورت چیز ہے۔ لیکن اس کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے ایک مدت درکار ہے۔ بہت سارا تجربہ اور بہت سارا علم درکار ہے۔ عرصہ ہوا انگریزی فلم Lucy دیکھی تھی تو انسانی ذہن کی صلاحیت کا اندازہ ہوا تھا۔ اگر درست یاد پڑتا ہے تو اس فلم میں کہا گیا تھا جب سے انسان اس زمین پر آیا ہے اب تک اس کا صرف دس فیصد استمعال ہوا ہے اور ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ نوے فیصد ابھی رہتا ہے۔ انسان سے زیادہ ذہن ڈولفن مچھلی نے استمعال کیا ہے جو شاید بیس فیصد ہے۔

اندازہ کریں اگر انسانی ذہن سو فیصد استمعال ہونے لگے تو پھر کیا سماں ہو۔ کیا منظر ہوں۔

وہ فلم اس تصور پر بنائی گئی ہے جب ایک لڑکی کے پیٹ میں ڈرگز کا پیکٹ پھٹ جاتا ہے تو پھر اس کا ذہن trigger ہو کر دس سے بیس سے تیس اور سو فیصد تک ایکٹو ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے۔ بہت خوبصورت فلم ہے۔ جب بھی مجھے لگتا ہے میرا ذہن کند ہونے لگا ہے، رکنے لگا ہے، سلو ہو رہا ہے تو میں کتاب پڑھنے ساتھ وہ فلم دوبارہ دیکھ لیتا ہوں۔ اب یہ نہ کہیے گا اس کی وجہ اس فلم کے مرکزی خیال سے زیادہ خوبصورت اداکارہ Scarlett Johansson ہوگی۔ وہ بھی یقیناََ ہے لیکن فلم بھی کمال کی ہے۔

میں کچھ لوگوں کو جانتا ہوں جن کے کنٹرول میں ان کا ذہن ہے۔ سیاستدان یا حکمران بننے خواہش مند جنونی کے لیے بھی ضروری ہے ان کا دماغ اس کے کنٹرول میں ہو۔ زبان بولنے سے پہلے دماغ سے اجازت لے۔ ایسے کچھ لوگوں کو میں جانتا ہوں جن میں یہ صلاحتیں ہیں اور وہ لوگوں کو استمعال کرنے کا فن خوب جانتے ہیں۔

خیر بات انسانی دماغ کی ہورہی تھی۔ سیلف کونسلنگ کا تصور یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ خود کو سمجھا سکتے ہیں وہ دوسرا نہیں کرسکتا۔ فرق یہ ہے آپ کو خود علم نہیں ہوتا یہ کام کیسے کرنا ہے۔ خود کو کیسے سمجھانا ہے۔ خود کو کسی مشکل بات پر کیسے قائل کرنا ہے۔ اس لیے لوگ ماہر نفسیات کو پیسے دے کر سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں بتائو ہم خود کو قائل کیسے کریں۔ لیکن آپ خود کو بھی سمجھا سکتے ہیں۔ خود کو قائل کرسکتے ہیں۔

میں نے کچھ دن پہلے ٹوئٹر پر پڑھا کہ انسان کو صبح نیند سے اٹھ کر کوئی ایسا کام ضرور کرنا چاہئے کہ اسے لگے اس نے کچھ اچھا کیا ہے۔ کوئی ٹاسک مکمل کیا ہے۔ اسے خوشی ملے گی۔ اس کا کہنا تھا اور کچھ نہیں آپ صبح اٹھ کر اپنے بستر کو ٹھیک کردیں تو بھی آپ کو اپنے اندر ایک عجیب سا احساس ملے گا۔ چاہے یہ کتنا چھوٹا سا کام ہی کیوں نہیں۔

میں نے بھی آج یہی کیا۔ نیند سے جاگا۔ واش روم گیا۔ ٹوتھ برش کیا۔ مجھے لگا ٹوئلٹ کا فرش اور واش بیسن صاف نہیں ہے۔ سوچا چلیں کچھ دیر بعد ڈومیسٹک ہیپلر صاف کر دے گا۔

ایک لحمے کے لیے رکا۔ اپنے ساتھ ڈائیلاگ کیا۔ وہیں سائیڈ پر رکھا فرش صاف کرنے والا سامان اٹھایا اور فرش دھونے لگا۔ اسے اچھی طرح صاف کیا۔ واش بیسن کو صاف کیا۔ آئینہ کو صاف کیا۔ شیونگ فوم سے شیو کی۔ منہ پر سرد پانی کے چھینٹے مارے اور عجیب راحت محسوس کی۔ پانی کی بوندوں کی تازگی کو اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ ائر فریشنر اٹھا کر سپرے کیا۔ اس کی خوشبو محسوس کی۔

باہر نکلنے سے پہلے مڑ کر دیکھا۔ مجھے یوں لگا جیسے ایک صاف ستھرے چمکتے ٹوائلٹ نے تازہ تازہ غسل لیا ہو۔ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا ہو۔ میرا شکریہ ادا کررہا ہو۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.