گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں، اس جمود کی بنیادی وجہ ملک میں ہونے والی معاشی اصلاحات ہیں جن کی وجہ سے کاروباری افراد جو کہ ٹیکس نہ دینے کے کلچر کا حصہ تھے، انھوں نے اپنے کاروبار روک رکھے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کاروبار کی بندش نے بیروزگاری میں اضافہ کر دیا ہے چونکہ فیکٹریوں میں مستقل ملازمین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، ان ملازمین میں زیادہ تردیہاڑی دار ہوتے ہیں جو روز انہ کی بنیاد پر اجرت وصول کرتے ہیں۔
فیکٹریوں کی بندش سے ان کا روزگار بھی بند ہو گیا ہے۔ ملک میں کاروباری بندش میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے ملک کے بڑے کاروباری افراد نے آرمی چیف سے ملاقات کی جہاں پر حکومتی معاشی ٹیم کے نمائندے بھی موجود تھے۔ دونوں طرف سے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ آرمی چیف کے بعد کاروباری افراد کی ملاقات وزیر اعظم سے ہوئی اس ملاقات میں ملک میں کاروباری جمود کو توڑنے کے لیے کاروباری افراد کی ہی ایک کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا یعنی تاجروں کے مسائل کے حل کے لیے ان کے اپنے نمائندے ہی تجاویز مرتب کریں جو کہ نہایت خوش آئند اَمر ہے، امید کی جا رہی ہے کہ اس کمیٹی کی سفارشات کے بعد ملک میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہو جائیں گی۔
جہاں تک ٹیکس وصولی کی بات ہے تو ٹیکس نہ دینے والوں اور ایف بی آر کے اہلکاروں کے درمیان روائتی جنگ جاری ہے۔ تالی جن دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ان میں سے ایک ہاتھ تاجروں کا ہے دوسرا ایف بی آر والوں کا۔ تاجر ٹیکس دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں جب کہ ایف بی آر کے اہلکار بھی کچھ زیادہ دلجمعی سے کام نہیں کر رہے، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس کی وصولی خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔
نئے پاکستان میں بھی ایف بی آر کے نمائندے پرانے پاکستان والے ہی ہیں۔ ٹیکس وصولی کرنے والا یہ پیشکش کرتا ہے کہ میں تم پر اتنا ٹیکس لگا سکتا ہوں اس لیے اب یوں کرو کہ اس میں سے اتنا مجھے دے دو، اتنا خود کھا جائو اور باقی ماندہ قومی خزانے میں جمع کرا دو، اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر پورا ٹیکس جو تمہاری حیثیت سے بہت زیاد ہے وہ حکومت کو ادا کرو۔
فیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
چنانچہ ظاہر ہے کہ شکم جیت جاتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک زمانے میں حکم ہوا تھا کہ دفاتر میں علامہ اقبال کے اشعار جلی حروف میں لکھ کر لگائے جائیں۔ میں نے ایک دفتر میں بڑے صاحب کے سر کے اوپر قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ علامہ اقبال کا مذکورہ شعر لکھا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ باذوق صاحب نے جواب دیا کہ آپ جیسے لوگوں کی سہولت کے لیے ہم نے اپنا فیصلہ اس شعر کے پیچھے لکھ دیا ہے۔ میں نے کاغذ الٹایا تو اس کے پیچھے جلی حروف میں شکم لکھا ہوا تھا چنانچہ یہی فیصلہ آگے چل کر سرکاری محکموں کا ماٹو قرار پایا۔ میں جہاں سے سودا سلف خریدتا ہوں ان کا مجھے فون آیا کہ کاروبار شدید مندے کا شکار ہے میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے وہ حکومت کی پالیسیوں کا رونا رونے لگ گیا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے اس سال کتنا ٹیکس دیا ہے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور کہنے لگا کہ حکومتی نمائندوں کی مہربانی سے ابھی تک ٹیکس دینے سے بچا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ دیدہ دلیری نہیں تو اور کیا ہے اس پر تاجر نے کہا کہ اس سے اندازہ کر لیں کہ حکومت اور عوام میں کیا فرق ہوتا ہے۔ عوام بہر حال عوام ہیں جن پر ہر قانون لاگو ہوتا ہے لیکن ہمارا دوسرا فریق چونکہ حکمران ہے عوام نہیں ہے اس لیے وہ ہماری گوشمالی میں لگا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کا گزارا کیسے ہو گا یعنی آیندہ جب آپ لوگ ٹیکس دیں گے تو اس کا حصہ کون نکالے گا۔ اس پر اس تاجر نے جواب دیا کہ
ہمارے یہ مہربان وہی کرینگے جو اس رشوت خور سرکاری ملازم نے کیا تھا جسے سزا کے طور پر دریا کی لہریں گننے کے بیکار کام پر لگا دیا گیا تھا کہ اب رشوت کہاں سے لیگا لیکن اس نے جب دریا کے کنارے جا کر ڈیوٹی سنبھالی اور لہریں گننی شروع کیں تو کہیں سے ایک بد قسمت کشتی آ گئی جس سے لہریں ٹوٹ گئیں اس پر اس نے ملاح کو پکڑ لیا کہ تم نے میری گنتی خراب کر دی ہے، سرکاری کام میں مداخلت کی ہے اس لیے ادھر آئو جواب دو۔ ملاح نے کچھ دے دلا کر جان چھڑائی اور اس طرح سزا کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ حکومت عوام کی فلاح اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے منصوبے بناتی ہے مگر بیوروکریسی اس کا راستہ روک دیتی ہے۔ بیورو کریسی کے ہتھکنڈوں کی بے رحمانہ داستان بڑی طویل ہے۔
حکومت نے ملک کے معاشی حالات سے گھبرا کر جو اقدامات شروع کیے ہیں ان کے جواز میں کوئی شک نہیں مگر ان کی حکمت عملی مشکوک ہے چومکھی لڑائی شروع کر دی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کاروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور اس قدر وسیع پیمانے پر کہ ملک کے بہت ہی قلیل لوگ ان کاروائیوں کی زد سے باہر ہیں۔ اس قدر ہمہ گیر باز پرس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ستر برسوں کی خرابیاں یکا یک درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پیغمبروں کو بھی جب اقتدار ملا ہے تو انھوں نے بگڑے ہوئے معاشرے کو رفتہ رفتہ اور اس کی برداشت کو سامنے رکھ کر اصلاحات کی ہیں۔ بیک قلم خرابیوں کو دور کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ کیا ہمارے حکمران پیغمبروں سے بھی بڑھ کر ہیں جو چشم زدن میں سب کچھ درست کر دینا چاہتے ہیں۔ میں حکومت کے معاشی اقدامات کو تسلیم کرتا ہوں ان کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے یہ معاشی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں لیکن اقدامات کی کامیابی کے لیے اس قدر جلدی قطعاً نامناسب ہے۔ عجلت اور سب کچھ ٹھیک کر دینے کی خواہش سے شدید بے چینی پیدا ہو رہی ہے ملک کی معاشی زندگی ٹھپ ہو گئی ہے۔
اسٹاک ایکسچینج نچلی سطح تک پہنچ گیا ہے عوام کے اربوں ڈوب گئے ہیں۔ پورا ملک معاشی قحط کا شکار ہو رہا ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ ہم پاکستانی غیر منظم لوگ ہیں اس لیے غیر منظم لوگوں کے مزاج کے مطابق اصلاحات کیجیے۔ حکمت اور مستحکم عزم کے ساتھ یہ ملک اصلاحات کا پیاسا ہے اس کی پیاس بجھائیے سب کچھ یک بارگی انڈیل کر گلا بند نہ کیجیے۔