ہم کن تضادات کا شکار ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے ملک میں جس کے منہ اور جی میں جو آئے وہ بول دے اس بولنے کو شخصی آزادی تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ آزادی ہمارے اسلامی ملک کے شایان شان نہیں ہے ایک ایسا ملک جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر حاصل کیا گیا جس کے قیام کی بنیاد ہی اسلام تھا ایک ایسا ملک جہاں پر ہم آزادی سے اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں اور اس واحد و لاشریک کی عبادت کر سکیں جس کے قبضے میں ہماری جان ہے۔
اس ملک کی اصل اساس ہی اسلام اور اس کے پیرو کار ہیں ورنہ اس خطے میں اسلام تو پہلے سے موجود تھا اور مختلف مذاہب اور عقیدوں سے تعلق رکھنے والے لوگ زندگی بسر کر رہے تھے لیکن جب اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ برصغیر کی دو بڑی قومیں مسلمان اور ہندوؤں کے لیے ایک ملک میں اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے، اس بات کے ادراک کے بعد انگریز سے آزادی کے ساتھ دو علیحدہ ملکوں کے قیام کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر کی بڑی سیاسی جماعت کانگریس کے سر گرم رکن تھے جب انھوں نے دیکھا کہ کانگریسی رہنما انگریز سے تو چھٹکارا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کو وہ اپنا محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تو انھوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک علیحدہ وطن پاکستان کے لیے اپنی جدوجہد شروع کر دی۔
اس جدوجہد کے آغاز میں ان کو ان چند مسلمان رہنماؤں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا جو برصغیر کی تقسیم کے خلاف تھے لیکن دور اندیش محمد علی جناح نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ اگر انگریز برصغیر سے اپنا قبضہ ختم کر کے اس کو ہندوؤں کے حوالے کر جاتا ہے تو ہندوؤں کی محکومیت میں مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہو جائے گی اس لیے ایک آزاد ملک کے قیام کا خواب تو علامہ محمد اقبال نے دیکھا لیکن اس کو تعبیر دینے والے محمد علی جناح ہی تھے جو اپنی بصیرت سے ہر اس مشکل مرحلہ سے کامیابی سے نکل آئے جو ایک آزاد ریاست کے قیام میں رکاوٹ تھا۔
برصغیر کے مسلمانوں کوایک علیحدہ وطن تو مل گیا لیکن کیا ہم اس علیحدہ وطن کے حق دار تھے، یہ وہ سوال ہے جو آج ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے، ہم اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کے عوام تو اپنے ملک کے لیے جان تک قربان کر دینے کو تیار نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کے قیام کے ساتھ ایک طبقہ ایسا بھی ہمیں ورثہ میں مل گیا جو شروع دن سے پاکستان کا مخالف تھا، مخالف ہے اور مخالف رہے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ طبقہ پاکستان کی اشرافیہ کا حصہ ہے یعنی وہ طبقہ جو پاکستان میں بااثربھی ہے اور باحیثیت بھی۔ اس لیے اس طبقہ کی آواز نہ صرف بڑے غور سے سنی جاتی ہے بلکہ اس کی باتوں کو اہمیت بھی دی جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہ لوگ دھڑلے سے پاکستان کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور ڈھٹائی سے اپنے اس موقف کی تائید بھی چاہتے ہیں۔
میں عرض کرتا ہوں کہ جس طرح کسی زمانے میں مارکسٹ یعنی کمیونسٹ یا ترقی پسند ہونا ایک فیشن بن گیا تھا اسی طرح آج اسلام دشمن اور مسلمان دشمن ہونا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ اب یہ نیا فیشن حدوں سے گزرتا جا رہا ہے اور اس میں وہ ہوشیار لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں جو کسی خاص وجہ سے پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں اور چونکہ پاکستان کا وجود اسلام اور مسلمانوں کا مرہون منت ہے اور یہی اس کے قیام کا بنیادی سبب ہے اس لیے پاکستان پر سے ایمان کمزور کرنے کے لیے اسلام اور مسلمان دشمن اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس سے پاکستان کی بنیاد پر چوٹ پڑتی ہے اور اس ملک کا قیام بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب کسی شے کے وجود کے اصل سبب کی ہی نفی ہو جاتی ہے تو اس شے کے باقی اور سلامت رہنے کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اسلام، مسلمان اور پاکستان کے خلاف اس ٹیم میں ماشاء اللہ خود پاکستانیوں کے بعض روشن خیال بھی شامل ہو گئے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ان سے دب گئے ہیں جو ان سے اتفاق تو نہیں کرتے مگر ان کے جواب میں بولنے سے گریز کرتے ہیں۔ مصالحت اور امن کے اس دور میں یہی بہتر سمجھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ کر لیا جائے کہ ان اسلام اور مسلمان دشمن لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملائی جائے خاموشی اختیار کر لی جائے یعنی ایمان باقی رکھنے کی کوشش کی جائے خواہ وہ کمزور ترین سطح کا ہی کیوں نہ ہو۔ ایک حدیث کے مطابق کمزور ترین (اضعف الایمان) بھی تو ایمان ہی ہوتا ہے۔
مسلمان بطور سپر پاور دنیا میں ہزار سال تک حکومت کرتے رہے مسلمانوں کی یہ طاقت ان کی سائنسی علوم میں ترقی کے علاوہ ایک اور طاقت کے بھی مرہون منت تھی اور وہ طاقت اخلاقی قوت کی طاقت تھی اور ایمان و یقین کی ایسی حرارت بھی کہ گئے گزرے وقت میں بھی انسانی تاریخ کا پہلا نظریاتی ملک پاکستان کے نام سے قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
میں صحیح فکر رکھنے والے مسلمان دانشوروں سے اپیل کروں گا کہ وہ تعصبات سے بالاتر ہو کر اور حقائق کو سامنے رکھ کر ان روشن خیال لوگوں کا پردہ چاک کریں جو غیر اسلامی بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کے دانستہ یا غیر دانستہ آلہ کار بن گئے ہیں اور اپنی اسی آلہ کاری میں معصوم پاکستانیوں کو بھی گمراہ کرنے کی اپنی مذموم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان روشن خیالوں کی غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان کا وجود ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے، ہمارے ہمسائے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے شب و روز ہمارے سامنے ہیں اس سے سبق حاصل کریں۔