میں جب اپنے نئے حکمرانوں کو دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں کیونکہ ان کی اکثریت سے میں واقف نہیں ہوں سوائے اس کے کہ ان کے انداز بود و باش کو کچھ جانتا ہوں کیونکہ میں ایک طویل عرصے سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہوں اور اسی نسبت سے ان میں سے کچھ سے یاد اللہ ہے لیکن کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے البتہ ان کے ساتھ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین و حضرات اعلیٰ سطح پر کام کر رہے ہیں۔
ان سے براہ راست یا غائبانہ خاصی واقفیت ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی کی تقریباً ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے اگر ہے تو اسی طرح جیسے ڈیڑھ دو سو سال تک انگریزوں کا رہا ہے۔ مگر انگریز ہندوستان کو خوب جانتے تھے جب کہ یہ لوگ افسوس کہ پاکستان کو نہیں جانتے۔ انھوں نے زیادہ سے زیادہ پاکستان کو کتابوں میں پڑھا ہے، اس کی مٹی سے ان کے پاؤں آلودہ نہیں ہوئے اور نہ ہی اس کی گرم سرد ہواؤں نے ان کے ملوک جسموں کو چھوا ہے۔ ان میں سے اکثر وہ ماہرین ہیں جو کسی بھی ملک کے باشندے کہے جا سکتے ہیں۔
ان کا کوئی وطن نہیں، اقوام متحدہ، آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک ان کی کہیں بھی ڈیوٹی لگا دے یہ وہاں جا کر کام شروع کر دیں گے۔ ان سے پہلے کئی ایسے ماہرین وقتاً فوقتاً پاکستان تشریف لاتے رہے بلکہ ان میں سے ایک دو تو شناختی کارڈ بنوا کر پاکستان کے وزیر اعظم بھی بن گئے اور جب ان کی ڈیوٹی ختم ہو گئی تو ان میں سے زیادہ تر امریکا میں جا کر آباد ہو گئے۔ بہر حال عرض کر رہا ہوں کہ یہ لوگ چونکہ پاکستان کو نہیں جانتے اس لیے مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے کہ یہ کہیں کوئی ایسا گھپلا نہ کر دیں اور ہماری راہوں میں اتنے کانٹے نہ بکھیر دیں کہ ہمیں یہ کانٹے اپنی پلکوں سے چننے پڑیں۔
ان سے پہلے یہاں "میڈ اِن پاکستان" حکمران تھے یعنی ان کے برعکس لیکن افسوس کہ وہ ذاتی دوستیوں کو نبھانے میں ایسے مصروف ہو گئے کہ قوم ان سے ناراض ہو گئی مگر وہ کچھ ایسے فیصلے کر گئے کہ وہ تو چلے گئے مگر ہمیں ان میں پھنسا گئے اور برملاء یہ کہہ گئے کہ آنے والے حکمرانوں کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اب ان کے ساتھ کوئی سلوک بھی ہو مگر ان کے ملک چلانے کے عارضی فیصلے قوم بھگت رہی ہے انھوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا اور بیرونی ساہوکاروںسے ریکارڈ قرضے حاصل کر کے قوم کو سبسڈی پر لگا دیا جب کہ خود براہ راست مستفید ہو تے رہے۔
حکومت جو بھی فیصلے کرتی ہے اور جو بین الاقوامی معاہدے کرتی ہے، وہ کسی حکومت کے نہیں ملک کے کھاتے میں جاتے ہیں مثلاً ماضی میں بجلی والوں سے جو معاہدے کیے گئے، ان کے نتیجے میں بجلی کی کمی تو کسی حد تک پور ی ہو گئی مگر قوم اب بجلی کے ہوشرباء بلوں کی صورت میں ان معاہدوں کو بھگت رہی ہے اور اس کی سزا قوم کو مل رہی ہے۔ کوئی حکومت منتخب ہو یا غیر منتخب جب تک دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے تب تک اس کے فیصلوں کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایوب خان دریا بیچ گئے اب کون واپس لے سکتا ہے۔
میری ان معروضات کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے ان حکمرانوں سے کسی پاکستان دشمن اقدام کا خدشہ ہے بلکہ یہ ملک کی معاشی اصلاحات کا جو پروگرام رکھتے ہیں اس میں وہ کوئی ایسا اقدام نہ کر دیں جس سے لینے کے دینے پڑ جائیں۔ موجودہ حکومت نے سچی اور شفاف انتظامیہ بپا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے بھی تقریباً ہر شعبے میں اپنے مدد کے لیے مشیر منتخب کر رکھے ہیں۔ خدا کرے یہ مشیر صاحبان اپنے صاحب کے عزم کو سامنے رکھ کر اپنے فارمولے بنائیں اور غالب کے اس شعر کو اپنی تقریر و تحریر کی بنیاد نہ بنائیںکہ:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
حکمت شناسی کے دعویدار مشیروں نے ماضی میں کئی حکمرانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے۔ ہمارے نئے حاکموں کو ان ارادہ شناسوں اور فارمولا تراشوں سے بہت ہوشیار رہنا پڑے گا۔ ہم نے ان فارمولا تراشوں کو اکثر کامیاب ہوتے دیکھا ہے اور مشورہ گیر کو غمگین ہوتے دیکھا ہے۔ اس سے قبل بھی اس ملک میں ہم نے امپورٹڈ مشورہ دان بہت دیکھے ہیں جو آئے اور چھا گئے اور ایسے چھائے کہ اپنی جیبیں بھر کر اور اپنے آقاؤں کے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے ہمارے پا س جو کچھ موجود تھا وہ قرض کی مد میں وصول کر گئے اور ہمیں مزید قرضوںکے جال میں پھنسا گئے۔ ہمیں ایسے مشیروں اور خاص طور پر معاشی مشیروں سے خبردار اور ہوشیار رہنا ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران کی نیت ٹھیک ہے اور وہ مملکت پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتا ہے مگر اس کے ارد گرد جو لوگ موجود ہیں وہ اس کی نیت کو جانتے تو ہیں مگر اس کی خواہشات کے مطابق عمل سے انکاری نظر آتے ہیں اور میں یہ بات دہراتا ہوں کہ نتائج اعمال سے برآمد ہوتے ہیں نیت سے نہیں اچھی نیت اپنی جگہ اور حکمت و تدبر اور سیاسی فہم و فراست اپنی جگہ۔