جماعت اسلامی کے قائدین کو معلوم ہے کہ ان کے ساتھی جس حال میں بھی ہوں وہ جنگل ہوں یا صحرا یا کوئی ویرانہ ان کے ساتھی ہر حال میں جماعت کا ساتھ دیں گے۔ ان ساتھیوں کی تربیت میں یہ جوہر شامل ہے کہ قائد جہاں سے بھی آواز دے اس پرلبیک کہا جائے یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔
یہ راہ حق کے وہ مسافر ہیں جو ہر حال میں صبر شکر کرتے ہیں ان کے اس جذبے کو دیکھ کر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن جماعت کے لوگوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ افغانستان میں روسی سامراج کے پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے ناپاک قدموں کو روکنا ہو، کشمیر میں کفار کے قبضہ کے خلاف جہاد ہو، دنیا کے کسی بھی حصے میں مظلوم مسلمانوں کی مدد ہو، پاکستان کے شہریوں کی زندگیوں میں کوئی آسانی پیدا کرنے کا کوئی موقعہ ہو وہ ہر جگہ پہنچتے ہیں، ان کا ہر قدم اس راستے کی جانب اٹھتا ہے جو فلاح کا راستہ ہو۔
واضح سمت، واضح ذہن اور واضح نصب العین اور اس کی طرف پیش قدمی کے لیے واضح قیادت اس کانام نعمت اللہ خان تھا جنھوں نے جب کراچی کی باگ ڈور سنبھالی تو اس لٹے پٹے شہر کو نئی زندگی دے دی۔ پاکستان کے اس شہرعظیم کو برباد کرنے والوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے بعد وہ کراچی کے شہریوں کے لیے نجات دہندہ بن کر سامنے آئے۔ کراچی کے عوام اپنے سابقہ قائدین سے دھوکا کھانے کے بعد اگر کسی کی ذات پر متفق ہوئے تو وہ نعمت اللہ خان تھے جنھوں نے اپنے عمل اور کردار سے اپنے انتخاب کا حق ادا کیا۔ انھوں نے قربانی اور جانثاری کی ایسی مثالیں قائم کیں جن سے کراچی کے شہری نا بلد تھے۔
ان کا ماضی کراچی والوں کے سامنے تھا اس لیے انھوں نے اپنے مستقبل کی ضمانت کے طور پر اپنی قیادت نعمت صاحب کے حوالے کی۔ ان کو یہ معلوم تھا کہ جماعت کے لوگ وفا کرنے والے لوگ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی دنیاوی ڈر سے نہیں بلکہ اپنے اللہ سے خوفزدہ رہتے ہیں جس کے سامنے انھیں جوابدہ ہونا ہے۔ انھوں نے کراچی کے لوگوں کی خدمت کر کے یہ پیغام دیا کہ اس ملک کو بچانے، اسے اس کا اصل مقام دلانے کے لیے اور اس کی قوت کو سلامت رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ سیاست کے ان خداؤں سے نجات پائیں اور خدا کے بندوں کے سپرد اپنی قیادت کر دیں اور کراچی کے عوام نے یہی کیا تھا وہ گوشت پوست کھانے کے بعد ہڈیاں تک چبا جانے والے لٹیروں کو پہچان چکے تھے اس لیے انھوں نے اپنی قیادت نعمت صاحب کے سپرد کی تھی۔
نعمت اللہ خان اپنے انتخاب کے بعد دو ٹوک اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے رہے۔ ڈر اور خوف تو ان کے اندر کبھی تھا ہی نہیں بس وقت کے تقاضے تھے کہ کس وقت کیا کہنا اور کیا کرنا ہے۔ نعمت صاحب نے کراچی کا اقتدار سنبھالتے ہی اپنی تلوار میان سے نکال لی اور روشنیوں کے اس خوبصورت شہر کی بربادی میں حصہ ڈالنے والوں کے خلاف کھڑے ہو گئے وہ کراچی کے باسیوں کے لیے ترقیاتی کاموں میں جت گئے اور پوری طاقت اور زور شور سے اجڑے شہر کو دوبارہ بسانے کی منصوبہ بندی کر لی۔ انھوں نے بطور ناظم جتنے کام کراچی کے لیے کیے اس کی مثالیں ہی دی جا سکتی ہیں ان کے بعد آنے والے ان کی ہمعصری کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے ترقیاتی کاموں کی آواز پورے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سنائی دیتی رہی اور کراچی کے باشندے حیرت بھری آنکھوں سے اس کرشماتی شخصیت کو دیکھتے رہے۔
میرے مرشد سید مودودی نے نہ جانے کس مبارک لمحے میں اس جماعت کی بنیاد ڈالی تھی کہ آج اس کی گھن گرج دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ اس جماعت کے کارکنان نے اپنے عمل سے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ ان کی جماعت کی طاقت کیا ہے اس کا جذبہ کیا ہے وہ کہاں کھڑی ہے کن جدید تقاضوں کو لبیک کہنے کی صلاحیتوں سے آراستہ ہے اس کے ساتھیوں اور حامیوں میں کیا جذبہ موجزن ہے وہ اپنے مقصد کے لیے کتنی قربانی دے سکتے ہیں یہ معتدل اور متوازن مزاج کے اسلامی انقلابی ہیں، آج کی دنیا میں زندہ رہنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں پاکستان کے اندر ان کی کتنی سیاسی طاقت ہے اور وہ اس طاقت کو کس دانش و حکمت اور سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں کیا اس جماعت کے کارکنان کو ٹھکرایا جا سکتا ہے یا اسے کوئی دوسرا مقام دیا جا سکتا ہے مگر دنیا کچھ بھی کہہ لے کچھ بھی اندازے قائم کرے لیکن جو طاقت اور وفاداری جماعت کے کارکنوں کا خاصہ ہے وہ آج کی اس مادی دنیا میں ندارد ہے۔
بات بڑی واضح ہے کہ پاکستانیوں کو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ کیا وہ اپنے حال اور مستقبل کو پھر انھی لوگوں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں جنھوں نے ان کے ملک کو کمزور اور فقیر بنا دیا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کی توہین کی جاتی ہے عالمی ادارے کے اہلکار اس ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔
ایسے حالات میں نعمت اللہ خان جیسے جماعتی کارکنان غنیمت ہیں جو اپنے پاکستانی مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں دن رات ایک کیے رکھتے ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم پھر اپنے آپ کوانھی چور ڈاکوؤں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے خود کشیاں کی جارہی ہیں ہمیں اپنے ارد گرد دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہے لیکن جو بھی فیصلہ کریں اب اس ملک کو دکھ دینے والوں سے جان چھڑا لیں اور سکھ دینے والوں کا ساتھ دیں۔ اس میں برکت ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی زندگی تیاگ دیتے ہیں اور اللہ کی راہ پر چلتے ہیں تو وہ جھوٹ اور باطل کو پامال کر دیتے ہیں۔ نعمت صاحب انھی لوگوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ آمین۔