آج سے بیس برس قبل برصغیر پاک و ہند کے کباب میں سے پاکستان کی ہڈی نکالنے اور اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب کو شیشے میں اتارنے بلکہ بند کرنے کے بعد امریکا پاکستان اور ہندوستان کے باہمی معاملات سے تو تب ہی فارغ ہو گیا تھا اور اس نے کارگل میں اپنے جگری دوست اور قدرتی حلیف بھارت کی مدد کرنے کے بعد باقی ماندہ معاملات سنبھالنے کے لیے اسے آزاد کر دیا تھا۔ ہم نے محترم شری واجپائی اور مزید محترم جناب بل کلنٹن کے مشترکہ حکم پر کارگل کے مجاہدوں کو ان کی پہاڑیوں کے ساتھ الٹا لٹکا دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اس سے کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی بن گیا ہے۔
یعنی کشمیر کے مسئلہ پر لڑی جانے والی دو سابقہ جنگوں اور اقوام متحدہ کی مشہور قرارداد کے باوجود مسئلہ عالمی سطح پر نمودار نہیں ہو سکا تھا وہ آج سے بیس برس قبل کارگل کے مجاہدین کو واپسی کا حکم دے کر عالمی مسئلہ بن گیا۔
بھارتی جارحیت اور اس کی زبردست فوجی طاقت کو بے بس اور عاجز کر دینے والے مجاہدین نے اپنے تئیں مسئلہ کشمیر اس وقت ہی حل کر لیا تھا جب انھوں نے کارگل پر قبضہ کر کے بھارتیوں کو محصور کر دیا اور ان کی رسد کے تمام راستے کاٹ دئے تھے۔ مگر ہماری اس وقت کی قومی قیادت نے جو فیصلہ کیا اس کے اثرات آج ہم بھگت رہے ہیں اور پاکستانی قوم بے حد دلگیر ہے جس کو کارگل میں فتح کے باوجود اپنے بے عزت ہونے پر بہت دکھ اور ملال ہے۔ دراصل ہم بہت ہی عجلت پسند اور جلد باز واقع ہوئے ہیں، نہ مشورہ کرتے ہیں نہ ہی غوروفکر۔ بس کر گزرتے ہیں خواہ اس کے بعد اس کی کتنی بھی سزا کیوں نہ ملے۔
ہمارے مجاہدین بھی عجیب معجزہ ہیں جس طرح اس جاہل اور زوال پذیرقوم نے ایٹم بم بنا کر نئی دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا اسی طرح اس مردہ قوم کے اندر ابھی تک انسانوں کے ایسے گروہ موجود ہیں جن سے دنیا کی آج کی طاقتیں خوفزدہ اور لرزاں رہتی ہیں اور اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ اس گروہ کے لوگوں کو موت کا کوئی خوف نہیں اور وہ شہادت کی موت کودنیاوی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ دنیا کا کوئی اسلحہ ان کو ڈرا نہیں سکتا۔ جو لوگ موت کو گلے لگا کر میدان میں اترتے ہیں ان کو کس سے ڈرایا جائے۔
کارگل کی جنگ کے بعد اسے ہماری غلطی کہیں کوتاہی کہیں غفلت کہیں یا مصلحت پسندی کہ ہم نے گزشتہ کئی برس سے کشمیریوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے، لفظی بیان بازی کے علاوہ عملاً ہم کشمیر سے کنارہ کش ہی رہے ہیں بلکہ کشمیریوں کے حمایت یافتہ گروہوں کو ہم نے بھارت کے مطالبے پر اور امریکا کے حکم پر پابند سلاسل رکھا جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ بھارت بغیر کسی مزاحمت کے دن دہاڑے کشمیر میں گھس آیا اورہم دیکھتے رہ گئے۔ بھارت کو یہ قدم اٹھانے کی جرات کیوں ہوئی کیونکہ ہم نے اس کے مائی باپ امریکا کے حکم پر کشمیرپر دانستہ چپ سادھ رکھی تھی، بھارت نے موقع اور لوہا گرم دیکھتے ہوئے چوٹ کردی، ہم اب اس چوٹ کے نتیجے میں لگنے والے زخم کو سہلا رہے ہیں اور کشمیر میں بھارتی جارحیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہے ہیں۔
ہماری حکومت نے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ سب امن کی جانب جارہے ہیں۔ ایک ایسا امن جو کہ دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ اس بات کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور جنگ بھی وہ جو دو عالمی ایٹمی طاقتوں کے درمیان متوقع ہو۔ اس بات کا اندازہ دنیا کی وہ طاقتیں لگا سکتی ہیں جو ایٹمی صلاحیت کی حامل ہیں یا جنگ کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہیں۔ دنیا کی دو سپر پاور سوویت یونین اور امریکا ہمارے ہمسائے میںجنگ کر نے کا خمیازہ بھگت چکے ہیں سوویت یونین کا اس جنگ نے شیرازہ بکھیر دیا جب کہ امریکا افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ تلاش کر رہا ہے۔
پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے اس کے لیے ہماری حکومت دنیا کے ہر موثر پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگرکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دنیا بھرمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے جارہے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ جب تک دنیا کی عالمی طاقتیں اور خاص طور پر امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرے گا کشمیر پاکستان کے لیے ایک مسئلہ ہی رہے گا جیسے کہ آزادی کے بعد سے چلا آرہا ہے۔
بات کارگل میں پسپائی سے شروع ہوئی تھی وہی کارگل جس پر ہمارے بہادر قبضہ کر کے بھارت کی رگ و جاں پر قابض ہو گئے اور دنیا حیرت زدہ رہ گئی تھی۔ ہم نے کارگل میں اپنے شہیدوں کی لاشیں اٹھائیں بلکہ ہمارے ایک شہید کیپٹن کرنل شیر خان کی جرات اور بہادری کوتو دشمن بھی سراہنے پر مجبور ہو گیا اور اس نے پاکستان کے اس بہادر سپوت کو پاکستان کا کوئی تمغہ دینے کی سفارش بھی کی۔ لیکن ان بہادروں کی جرات مندانہ کارروائیوں کو سیاسی مصلحت کی آڑ میں قربان کر دیا گیا۔ لیکن جیسے کارگل میں پاکستانی فتح کے ساتھ کھلواڑ کیاگیا ایسا ہر روز تو نہیں ہو سکتا۔
ہمارے بہادروں کی ہمت ہے کہ انھوں نے اپنی فتح کو جانے دیا۔ یہی وہ اصل موقع تھا جب بھارت ہمارے شکنجے میں آگیا تھا اگر پاکستان کی اس وقت کی سیاسی قیادت دانشمندی اورجرات اور حوصلے سے فیصلہ کرتی تو آج بھارت کی کشمیر میں داخلے کی ہمت نہ ہوتی۔ پاکستان کی کارگل کی فتح کو بھارت کی فتح میں تبدیل کر کے کشمیر میں آج ہونے والی جارحیت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
کارگل ایسے موقع اتفاق سے ملتے ہیں۔ کشمیر اب بہت زیادہ قربانیاں مانگ رہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ کارگل کی فتح کو پاکستان اور کشمیر پر قربان کر دیا گیا تو یہ غلط نہ ہو گا۔