بھارت نے پاکستان کی کمزورحکومتوں سے شہ پاکر مقبوضہ کشمیر پر باضابطہ طور پر قبضہ جما لیا ہے اور ایک انتہائی متنارعہ قانون کے تحت اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنانے کی مذموم کوشش کی ہے۔ بھارت کی اس جارحیت نے پاکستان کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
بھارتیوں کو خوب علم ہے کہ کشمیر ان کا نہیں ہے اور کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل یہاں استصواب رائے ہے اور یہ بھی صرف اس فیصلے کے لیے ہے کہ کشمیری پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ کوئی تیسری صورت استصواب میں موجود نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی یہی قرارداد تھی۔ بھارت نے جارحیت کرتے ہوئے جس کشمیر کو باضابطہ طور پر اٹوٹ انگ بنایا ہے اس کے بارے میں بھارتی قوم کویہ یقین دلایا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور اس کا جوحصہ پاکستان کے پاس ہے اسے بھی واپس لینا ہے۔ اس طرح کی ہرزہ رسائی بھارت کی جانب سے وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے جس کا پاکستان کی طرف سے موثر جواب بھی دیا جاتا ہے۔
بھارت کے ہندو کشمیر کے معاملے پر اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں اور ہندو بنیا یوں تو جان جائے پر دمڑی نہ جائے کا قائل ہے لیکن کشمیر پر جتنا خرچ بھی کیا جائے بھارتی اس پر اعتراض نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی یاسازش کتنی بھی مہنگی کیوں نہ ہو بھارتی قوم اسے قبول اور برداشت پر ہمیشہ تیار ہوتی ہے۔ کشمیر اور سیاچن میں بھارتی جنگجوئی پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ لاکھوں کی فوج کو برسوں تک حالت جنگ میں رکھنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ اسی طرح سیاچن میں مہم جوئی دنیا کی گراں ترین عیاشی ہے لیکن یہ جنگی کارروائیاں چونکہ پاکستان کے خلاف ہوتی ہیں اسی لیے دمڑی اور جان دونوں چلی جائیں تو پروا نہیں ہے۔
کشمیر پرماضی کی دونوں جنگوں کے نتائج ہمارے خلاف رہے پہلی جنگ پاکستان کے انگریزی جرنیلوں نے جان بوجھ کر ہار دی دوسری جنگ ہم تاشقند میں جا کر میز پر ہارگئے۔ بھارت میں اور ہم میں بنیادی فرق یہ رہا ہے کہ ہندوئوں کی ڈپلومیسی نے اپنے وقت کی دونوں سپر طاقتوں روس اور امریکا کو اپنے حق میں استعمال کیا، دونوں کو جی بھر کر لوٹا لیکن پاکستان امریکا کی فرمانبرداری میں لگا رہا۔
ہماری کسی حکومت نے یہ نہ سوچا کہ امریکا ہندو اور یہودی کی پالیسی مسلمان ملکوں اور خصوصاً پاکستان کے خلاف ہے کیونکہ پاکستان میں ایک نظریاتی طاقت بھی کام کر رہی ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ دوسرے مسلمانوں سے مختلف رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو ایک خطرناک ملک سمجھا گیا ہے۔
آج بھی دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو دہشتگردی کے لبادے میں لپٹا ہوا ملک سمجھتی ہیں اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا کہ جس میں پاکستان کو دبائو میں رکھا جا سکے۔ امریکا اس خطے میں پہلے تو دبے پائوں آگے بڑھتا رہا لیکن اب علانیہ کشمیر پر ثالثی کی بات کر کے امریکا اپنے ذہن میں مرتب کشمیر کے نقشے میں مذاکرات کے ذریعے رنگ بھرنا چاہتا ہے۔ کیا ہم کسی ایسی میز پر بیٹھنے کو تیار ہو چکے ہیں یا نہیں اس کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ہم نے کشمیر پر امریکی ثالثی کا خیر مقدم ضرور کیا ہے۔
پاکستان میں عالمی بینک کے پروردہ نمایندوں اور ہمارے رئوسا سے پوچھیں تو وہ کشمیر کو پاکستان کی ایک حماقت سمجھتے ہیں جس طرح وہ آج سے بیس برس قبل پاکستان کے ایٹمی دھماکے کو ایک بیوقوفی اور جذباتی حرکت سمجھتے تھے، اسی طرح وہ ہر اس حرکت کو احمقانہ سمجھتے ہیں جو ان کے استحصالی منصوبوں میں خلل انداز ہوتی ہو اور اس کو درہم برہم کرتی ہولیکن ان کی بدقسمتی سے اس وقت بھی پاک بھارت تعلقات اور تنارعات میں ایک ایسا سرکش عنصر موجود ہے جس کے اندر ایمان کا بھڑکتا ہو اشعلہ کسی مصالحت کا قائل نہیں ہے لیکن ہم نے اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے ایسے کسی شعلہ کو راکھ میں دبا رکھا ہے۔
پاکستان ایک عجیب ملک ہے اس کے دوٹکڑے ہوتے ہیں تو دنیا خوش ہوتی ہے لیکن جو باقی بچا ہے اس کو قائم رکھنے پر پوری دنیا اصرار بھی کرتی ہے کیونکہ پاکستان اگر خاکم بدہن باقی نہیں رہتا تو برصغیر زیادہ نہیں تو ستر برس پیچھے ضرور پہنچ جائے گا اور پھر دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا ہوچین ہویا روس یا کوئی بھی اس خطے کے لیے پاکستان کا وجود مجبوری سمجھتا ہے، اس خطے کے مسلمانوں کو ہندو کے خلاف بغاوت سے صرف پاکستان نے روک رکھا ہے۔
ہندوئوں سے مسلمانوں کی نفرت کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور بھارت کے ہندو اس نفرت کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ مسلسل بر سر پیکار رہتے ہیں کبھی بنگلہ دیش بنواتے ہیں کبھی بابری مسجد کو منہدم کرتے ہیں اور کبھی کشمیر پر مسلمانوں کے خلاف سفاکانہ کارروائی جاری رکھتے ہیں خود بھارت کے اندر مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں وہ اگر بھارتی بننا چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ اس قدر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور ایسے قوانیں بنا دیے جاتے ہیں کہ بھارت میں ان کے وجود کو غیر قانونی قرار دے دیا جاتا ہے اور وہ بھارت کو ایک غیر ملک سمجھنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔
افواج پاکستان اور سیاسی حکمران بھارت کو بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر اس نے کسی مہم جوئی کی کوشش کی تو یہ بھارت کی آخری غلطی ہو گی۔ بھارتی فوج کے کشمیر پر چھ ماہ سے جاری غاصبانہ کرفیو نے کشمیریوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، اطلاعات کے مطابق کشمیری اپنی آزادی کے لیے زندگی کی آخری بازی لگانے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے ہمسائیہ میں جس طرح افغانستان میں روس اور امریکا جیسی بے رحم سپرپاورز ناکام ہوئی ہیں اسی طرح بھارت بھی بہت جلد اپنے غرور سمیت کشمیریوں کے عزم و ہمت اور جد وجہد آزادی کی وجہ سے پاش پاش ہو گا۔ ہمیں کشمیریوں کو صرف حوصلہ دینے کی ضرورت ہے نئے جغرافیہ کی کشیدہ کاری اورتاریخ وہ خود لکھ لیں گے۔