Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mubaligh Islam

Mubaligh Islam

وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے بھی پاکستان کے کئی وزرائے اعظم یہ ذمے داری نبھا چکے ہیں مگر جمعہ کی شام جنرل اسمبلی سے عمران خان کا زوردار خطاب ماضی کے ان تما م خطابوں پر بھاری رہا۔

اقوام متحدہ کے ہال میں تالیاں گونجتی رہیں اور اسلامی نظریاتی پاکستان کا وزیر اعظم مدلل انداز میں خطاب کرتا رہا۔ عمران خان کے خطاب سے پہلے تبصرہ نگاروں کے دلوں میں یہ خدشہ موجود تھا کہ چونکہ ہمارے وزیر اعظم فی البدیہہ خطاب کرنے کے شوقین ہیں اس لیے ایک بڑے فورم پر وہ جوش خطاب میں کہیں اِدھر اُدھر نہ ہو جائیں چونکہ جنرل اسمبلی میں وقت کی بھی قلت ہوتی ہے اس لیے ان کے فی البدیہہ خطاب کے بارے میں خدشات موجود تھے لیکن انھوں نے اپنی تقریر سے ان تما م خدشات کو دور کر دیا۔

دنیا بھر میں جہاں پاکستانی اپنے وزیر اعظم کے خطاب کے انتظار میں تھے وہیں پر عالمی رہنما بھی عمران خان کا خطاب سننے کے منتظر تھے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے نہایت باوقار اور نپے تلے انداز میں د نیا کو ماحولیات کے درپیش چیلنج سے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور دنیا کو یہ بتایا کہ ان کا ملک اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے۔

انھوں نے بڑے واضح الفاظ میں دنیا کے امیر ملکوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ غریب ملکوں کی دولت پر عیاشیاں کر رہے ہیں اور غریب ملکوں کی اشرافیہ یہ دولت غریب ملکوں سے لوٹ کر امیر ملکوں میں جمع کرتی ہے جس کا فائدہ امیر ملکوں کی معیشت کو ہوتا ہے لہذا اقوام متحدہ کو غریب ملکوں سے دولت کی منتقلی کے ناجائز ذرائع کی روک تھام کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو کہ ہمارے جیسے غریب ملک کا اصل مسئلہ ہے اور عوام اب یہ جان چکے ہیں کہ ان کے حکمران اور اشرافی طبقہ کس طرح ملکی وسائل کی لوٹ مار کر کے بیرون ملک اپنے اثاثے بناتا ہے اور ملک میں کاروبار کی بجائے بیرون ملک کاروبار کو ترجیح دیتا ہے۔ کاش کہ ہمیں سمجھ آ جاتی اور ہم اپنے نمائندوں کے انتخاب میں سمجھ بوجھ سے کام لیتے اور لوٹ مار سے بچ جاتے لیکن ابھی تک قوم میں شعور کی لہر بیدار نہیں ہو رہی اور ہم واہ واہ اور زندہ باد کی سیاست کے اسیر رہنے کو ہی فوقیت دے رہے ہیں۔

مسلمانوں کی ترجمانی اور اسلام کے بارے میں مغرب کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے عمران خان کے خطاب کا اہم ترین موضوع رہبر کائنات محمد ﷺ کی ناموس کا تحفظ اور امت مسلمہ پر دہشتگردی کے الزام کا دفاع تھا۔

عمران خان نے جیسے ہی اس اہم ترین موضوع پر بولنا شروع کیا تو میرے جیسے گناہ گار کی آنکھیں بھی تر ہو گئیں وہ نبی ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے اہل مغرب کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ مذہب دہشتگردی نہیں سکھاتا بلکہ مذہب تو خود اس کا شکار ہو جاتا ہے انھوں نے یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت کے بارے میں تاریخ عالم کے دلائل اور حوالے دے کر مغربی دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خود کش حملے مسلمان نہیں کرتا بلکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے بھی امریکا کے جنگی جہازوں پر ایسے فدائی حملے کیے تھے۔

عمران خان نے اہل مغرب کو نبیﷺ اور اسلام کے بارے میں مسلمانوں کے احساسات سے آگاہ نہ کرنے پر مسلم لیڈروں کو موردِ الزام ٹھہرایا جن کا فرض تھا کہ وہ دنیا کو بتاتے کہ نبیﷺ ہمارے دل میں رہتے ہیں اور دل کا درد جسم کے درد سے زیادہ ہوتا ہے۔ عمران خان نے امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر جس طرح نبی ﷺ کی شان بیان کی محسوس یوں ہو رہا تھا کہ اسلام کا کوئی مبلغ تقریر کر رہا ہے۔

انھوں نے دنیا کو اسلام کی اصل روح کے مطابق یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام کیا ہے اور دہشتگردی کیا ہے۔ ان کا امریکا سے یہ گلہ بجا ہے کہ جب امریکا کو افغانوں کی ضرورت تھی تو وہ مجاہدین تھے مگر 9/11 کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہی مجاہدین دہشتگردی کی فہرست میں شامل کر دئے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ اسلام کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں حالات ایسے پیدا کر دئے جاتے ہیں جب ان ملکوں کے باشندے ہی ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف ملکوں کی مثالیں بھی دیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ جس وجہ سے آج جنرل اسمبلی میں کھڑے ہیں وہ وجہ کشمیر ہے جہاں پر بھارت کی جانب سے دو ماہ سے کرفیو کا نفاذ ہے۔ بھارت کے مظالم کی المناک داستانیں ہیں۔ وہ دنیا کو یہ بتانے آئے ہیں، وہ دھمکی نہیں دے رہے بلکہ خبردار کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ نے چونکہ کشمیر کے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرایا جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دو ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں اور جنگ کی صورت پیدا ہو گئی ہے، اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ کشمیر میں ظلم ہوتا رہے اور وہ خاموش رہے تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے پر اگر جنگ ہوئی تودنیا کے باقی ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے، سب ہی اس جنگ سے متاثر ہوں گے۔

کشمیر پر امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کا بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا، بھارت کشمیر پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ عمراں خان نے بجا کہا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر پر صلح صفائی کا وقت اب گزر چکا اور کارروائی کا وقت ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہمارے پاس صرف دو ہی راستے ہیں سرنڈر کر لیں یا جنگ کریں اگر ہمیں جنگ میں دھکیل دیا گیا تو یہ جنگ ہم آخر تک لڑیں گے، مسلمان شہادت کے لیے آخری دم تک لڑتا ہے تو ساری دنیا کو یہ بات سوچ اور سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ کے نتائج کیا ہوں گے۔

عمران خان نے پاکستان کے معروضی حالات کے بارے میں گزشتہ دنوں میں نیویارک میں دنیا بھر کے اہم رہنمائوں سے ملاقاتوں میں اپنا موقف بیان کر دیا ہے اور اپنی گیند اقوام متحدہ کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ وہی اقوام متحدہ جو کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ہی کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے قاصر رہی ہے اور قرارداوں سے کام چلانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہماری مدد کو کوئی ملک نہیں آئے گا، ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے، فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ جنگ سے بچ کر کیا کوئی ایسا حل تلاش کیا جا سکتا ہے جو کہ کشمیریوں کو قابل قبول ہو۔

ہمارے وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں دبنگ تقریر کر کے دنیا تک اپنی بات پہنچا دی ہے اب ہمیں دنیا کے رد عمل کا انتظار کرنا ہو گا کہ وہ پاکستان کی تشویش پر کس حد تک سنجیدہ ہیں اور کشمیر میں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں، ہمیں چند روز عالمی طاقتوں کا انتظار کرنا ہو گا۔