Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Musibatoon Ki Maari Qaum

Musibatoon Ki Maari Qaum

دال چاول آٹا زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہیں جن کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے اور انسانی زندگی کی یہ بنیادی ضرورتیں عوام کو فراہم کرنا ریاست کے فرائض میں شامل ہے لیکن ہم ایسے بد قسمت ملک کے باسی ہیں جس کو ہم فخریہ طور پر زراعتی ملک کہتے ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے ہاں موجود ہے مگر یہ نہریں اب سوکھتی جا رہی ہیں کیونکہ ہم نے اپنے پانی کے قدرتی ذخائر کو سیاست کی نظر کر دیا ہے اور نہروں کو پانی فراہم کرنے کے لیے ڈیم بنانے کے بجائے ان ڈیموں کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جس کے نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ ہماری زرعی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے کیونکہ ہم اپنی زرخیز زمینوں کو اپنے ہاتھوں بنجر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کبھی ہمارے ملک میں گندم کی قلت ہو جاتی ہے تو کبھی ہمارے ہاں چینی کا بحران سر اٹھا لیتا ہے دنیا کی بہترین کپاس ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہے مگر اب حالت یہ ہے کہ ہمارے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں شوگر ملیں لگا دی گئی ہیں اور دنیا کی بہترین کپاس پیدا کرنے والی زمینیں اب گنا اگاتی ہیں کیونکہ ہمارے سرمایہ دار اس سے زیادہ نفع حاصل کر لیتے ہیں اس لیے انھوں نے کپاس کی کاشت ختم کر دی ہے۔ کس کا رونا روئیں اور کس کا نہ روئیں، ملک کے دشمن ملک کے اندر ہی موجود ہیں۔

ہماری حکومت ایک سے بڑھ کر ایک بحران پیدا کرنے میں ماہر ہو چکی ہے، حکومت کی بے تدبیری کی وجہ سے ملک میں گندم کا بحران سر اٹھا چکا ہے اور خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ آٹا دگنی قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔ آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافے کا سن کر میں نے فوراً فون اٹھایا اور گاؤں میں اپنے عزیزوں سے بات کی کہ مہربانی فرما کر اس دفعہ گندم کی فصل کی دیکھ بھال اچھی طرح کریں تا کہ میں لاہور میں بیٹھ کر اپنے بارانی علاقے کی گندم کھاتا ہوں، اس کا سلسلہ آیندہ سال بھی جاری رہے۔

میں رہتا تو لاہور میں ہوں لیکن چونکہ میں بنیادی طور پر ایک کاشتکار ہوں اس لیے جب کبھی خوراک کی قلت کا ذکر ہوتا ہے تو میں چونک جاتا ہوں کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں کہ ایک زرعی ملک میں اجناس کی قلت ہو رہی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری زرعی پیداوار اس قدر زیادہ ہوتی کہ ہم ہمسایہ ملکوں کو بھی اپنی اجناس برآمد کرتے لیکن ہوتا اس کے الٹ ہے اور اکثر یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ ہم اپنے دشمن ہمسائیہ ملک سے سبزیاں منگوا رہے ہیں اور اس کو عار نہیں سمجھتے۔ یہ سب ہماری حکومتوں کا کیا دھرا ہے جنھوں نے اپنی بے تدبیری سے زرعی ملک کی زراعت کا بیڑا غرق کر دیا ہے جس کی وجہ سے آئے روز کسی نہ کسی زرعی جنس کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔

علامہ اقبال کے ظریفانہ اور مزاحیہ کلام کی ایک رباعی ہے۔

انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک

چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی

آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے

علامہ نے جو بات مزاحیہ رنگ میں کہی تھی وہ آج ایک تلخ اور دردناک حقیقت بن کر آٹے کی قلت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ہماری حکومت کو بنیادی انسانی ضرورت کی اس جنس کی قلت سے ڈرنا چاہیے جس طرح ماضی میں ایوب خان کی حکومت کو چینی کی قلت نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس دور میں چینی شاید آٹھ آنے فی سیر مہنگی ہو گئی تھی اس پر احتجاج شروع ہو گیا، چینی چور کے نعرے لگے اور اس مضبوط حکومت کے خلاف پہلی بار عوامی احتجاج ہوا۔ عوام کے منہ کھل گئے، جھجک دور ہو گئی اور حکومت وقت کی

مخالفت کی جرات پیدا ہوئی۔ جنگوں اور معاشی مشکلات کی وجہ سے کئی اشیاء کی قلت پیدا ہو جایا کرتی ہے جس کا مقابلہ ان اشیاء کے کم استعمال سے کیا جاتا ہے اور زندہ قومیں بڑی خوشی سے ضروریات کی قربانی دیتی ہیں اور اس میں الٹا سکون محسوس کرتی ہیں کہ پوری قوم قربانی دے رہی ہے اور کسی مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہے۔ مشکلات کو بانٹ کر برداشت کرنے قوموں میں اتحاد یگانگت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔

تعجب ہے کہ حکومت نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی یا پھر اس کو یہ جرات ہی نہیں ہوئی کہ گزشتہ کئی برسوں سے اور خاص طور پر موجودہ دورحکومت میں مسلسل گرانی میں مبتلا قوم کو صبر کی تلقین کر سکے البتہ حکومت کے وزیروں نے گندم کی قلت کا ذمے دار بھی عوام کو ٹھہرایا کہ نومبر دسمبر میں انسان زیادہ روٹی کھاتا ہے، کیا نرالی منطق پیش کی گئی ہے۔ حکومت نے ایک اورکارنامہ یہ کیا ہے کہ مہنگے داموں بیرون ملک سے گندم منگوانے کا اجازت نامہ جاری کر دیا ہے اور شنید یہ ہے کہ جب تک غیر ملکی گندم ہمارے ہاں پہنچے گی تب تک ہماری اپنی گندم کی فصل برداشت ہو رہی ہو گی اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس وقت گندم کا خریدار نہیں ملے گا اور کسان ایک مرتبہ پھر روئیں گے۔

پاکستان میں اس وقت ایک ایسا معاشی بحران اور غیر یقینی کی کیفیت ہے جو دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں اس وقت موجود ہو۔ نیب کی کارروائیوں نے سیاست دانوں کو تو اپنی لپیٹ میں لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ملک کے صنعتکاروں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔ ملک کی صنعت میں بیرونی سرمایہ کاری تو جب آئے گی تب معلوم ہو گا لیکن ہمارے اندرونی سرمایہ کاروں نے اپنا ہاتھ روک لیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ صنعتکاروں نے یہ تحریری خاموش اجتماعی معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ صنعت سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔

عالمی معیاری کرنسی ڈالر ہماری قیمتوں کی طرح بڑھ رہا ہے، ایسے حالات میں ہمیں ایسے حکمران درکار ہیں جو اس گھبرائی ہوئی قوم کو گھبرانا نہیں کے وعظ سے نکل کر قوم میں اپنے اقدامات سے سکون پیدا کریں اور اس کے اعتماد کو واپس لائیں اور قوم کو ایسے لطیفے نہ سنائیں کہ بیرونی سرمایہ کاری شروع ہو گئی ہے جو قوم اپنے ملک میں خود سرمایہ نہیں کرتی اس میں کوئی باہر کا کیسے سرمایہ کاری کرے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے منافع کے لیے آپ کی کوئی چیز خرید لے گا اور اسے کاروبار کے تحفظ کی ضمانت اس کا اپنا طاقت ور ملک دے گا۔ یہی ان دنوں بھی ہو رہا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دکھوں کی ستائی اور مصیبتوں کی ماری قوم کو کم ازکم آٹے کا سکھ تو دے دیں۔