ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک ہڑتال پر چل رہا ہے۔ ہر طرف سے ہڑتال کی خبریں ہیں تاجر ہڑتال پر ہیں، ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں، آئل ٹینکر والے ملک میں تیل کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں اور سب سے بڑے ہڑتالی مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پہنچ کر وفاقی دارالحکومت کو حکومت کے ہاتھوں بند کر کے ہڑتال کرا چکے ہیں۔
تادم تحریر مولانا فضل الرحمن کے دو اہم اتحادی بلاول بھٹو اور اسفندیار ولی اسلام آباد کے ادھورے جلسے سے تقریر کر کے اپنے اپنے حلقوں میں واپس جا چکے ہیں جب کہ نواز لیگ کے میاں شہباز شریف نے لاہور میں فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے خطاب کے بجائے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کو ترجیح دی ہے۔
جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تب تک مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا نتیجہ سامنے آچکا ہو گا اس لیے اس پر فی الحال تبصرے کو موخر کرتے ہوئے ملک میں ہڑتالی تاجروں کا ذکر زیادہ اہم ہے جن کی وجہ سے ملک کی معیشت کا پہیہ گھومتا ہے۔ تاجروں اور حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت حکومت کی جانب سے تاجروں پرلاگو کردہ کچھ شرائط ایک مخصوص وقت تک کے لیے موخر کر دی گئی ہیں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ دونوں فریقین کی عزت بچ گئی ہے۔
اگرچہ ہڑتال سے تاجروں اور حکومت دونوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن عوام تاجروں اور حکومت دونوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں کیونکہ ہماری کاری گر بیوروکریسی نے حکومت کو جس بند گلی میں لاکر کھڑا کر دیا ہے اس سے نکلنے کا باعزت راستہ درکار ہے جو کہ وقتی طور پر باہمی مذاکرات سے نکال لیا گیا ہے لیکن حکومت کے سر پر کچھ وقت کے بعد دوبارہ تاجروں کی ہڑتال کا خدشہ ابھی منڈلا رہا ہے۔ ہڑتال کے مکمل خاتمے اورملک کی دگرگوں معیشت پر اس کے بھیانک اثرات کے ازالے کے لیے ہمیں مل جل کر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ یہ ایک بہت مشکل کام ہے جو افہام و تفہیم سے سر انجام پا سکتا ہے احکامات سے نہیں۔
تاجروں کی ہڑتال حکومت کی اپوزیشن کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے اپوزیشن عوام کو یہ باور کرا رہی ہے کہ حکومت عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے ان کو بڑھا رہی ہے۔ تاجر حکومت چپقلش سے ملک کی معیشت کو جو نقصان ہورہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو اس صورت حال سے خوش ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک ٹیکس دینے کا سوال ہے تو پوری قوم اس پر متفق ہے کہ تاجروں کو ٹیکس دینا چاہیے۔ دنیا میں ہمیشہ سب سے زیادہ ٹیکس تاجر اور صنعتکار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے لیکن یہاں پاکستان میں معاملہ الٹ ہے تنخواہ دار ملازم ٹیکس زیادہ اداکرتے ہیں اور تاجر ان سے بہت کم۔ میں جو اپنے ملازمانہ حصے کا پورا ٹیکس ادا کرتا ہوں بلکہ زرعی آمدنی پر مجھ سے میرے حصے سے زیادہ ٹیکس اینٹھ لیا جاتا ہے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ میرے ساتھ یہ زیادتی کیوں کی جاتی ہے اور ایک تاجر اور صنعتکار سے خصوصی رعایت کیوں برتی جاتی ہے۔
میں اپنی مثال کے ساتھ ان لاکھوں کاشتکاروں کی نمایندگی کر رہا ہوں جو میری طرح بہت زیادہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ مجھے ٹیکس وصول کرنے والوں کے ساتھ مک مکا کا موقع نہیں ملتا کیونکہ مجھ جیسے حقیر آمدنی والے آدمی سے انھیں کیا مل سکتا ہے وہ تو ان لوگوں کے ساتھ مک مکا کرتے ہیں جن سے وہ لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔
حکومت نے بالکل درست طور پرسرمایہ داروں سے ٹیکس کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ سب کام اس قدر ناسمجھی اور عجلت میں کیا گیا ہے کہ تاجروں نے ٹیکس کی رقم صارفین پر منتقل کر دی جس سے یکایک مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اور عام آدمی اس سے براہ راست متاثر ہوا ہے۔ ٹیکسوں کی وجہ سے ملک کی معاشی زندگی میں بھونچال آیا ہوا ہے اور وہ معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی جس میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ قومی زندگی کی اس بحرانی کیفیت پر ہر محب وطن پریشان ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے مختلف طبقات آئے دن کی ہڑتالوں کی وجہ سے پریشان ہیں وہاں حکومت شاید ان سے زیادہ پریشان ہے۔
فریقین اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ ہڑتالی کاروباری زندگی کو رواں دواں رکھنا چاہتے ہیں حکومت بھی یہی چاہتی ہے مگر دونوں کے درمیان اعتماد کی خلیج پیدا ہو گئی ہے جو دن بدن وسیع ہوتی جارہی ہے۔ فریقین اس خلیج کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں کی ضد اس کے آڑے آرہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بقاء کے اس مشکل وقت میں ہمیں اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا کرنا پڑے گا کوئی باہر سے آکر ہمارے مسائل حل نہیں کرے گا بلکہ اگر کوئی باہر سے آیا بھی تو ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہی کرے گا۔ ہمیں خود ہی اس معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی موثر تدبیر کرنا ہو گی۔
ملک میں ہڑتالی کلچر کوئی معمولی بات نہیں دراصل ہماری حکومتوں نے اپنے عوام کی بات نہ سننے کی جو روایت ڈالی ہے اس روایت کے بعد ملک کے پسے ہوئے طبقات کے پاس ہڑتال کے سوا کوئی حل نہیں رہا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہڑتال ہی ان کے مسائل کا حل ہے۔ ہڑتالوں کی وجہ سے پاکستان کا ہر شہری متاثر ہوتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی روزگار کی انتہائی قلت ہے ان ہڑتالوں کی وجہ سے روزگار بند ہو جاتاہے اور ہزارہا لوگوں کی توجان پر بن آتی ہے وہ روزگار کی بندش کے باعث فاقوں پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان ہڑتالوں سے جو ملک کا نقصان ہوتا ہے اس کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ تاجروں پر ایسے ٹیکسوں کا نفاذ کریں جس سے عوام کم سے کم متاثر ہوں اور تاجروں کو بھی اپنی بے تحاشہ آمدن میں سے کچھ حصہ حکومتی خزانے میں جمع کرانے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا تا کہ اس نڈھال ملک میں زندگی کا پہیہ چلتا رہے ورنہ پورا ملک ایک نڈھال اور خستہ حال قوم کا ملک بن جائے گا۔ بیرونی خطرات تو بڑی بات ہے اندرونی خطرات کے مقابلے کا متحمل بھی نہ ہو سکے گا۔ اپنوں سے کیا ضد مصالحت کا راستہ اختیار کریں۔