ادھر چند برس پہلے سے جب مہنگائی اور بے روزگاری دونوں ایک ساتھ بڑھنی شروع ہوئی ہیں تو میں ایک بڑی تبدیلی دیکھ رہا ہوں وہ یہ کہ رفتہ رفتہ ہماری خواتین کاروباری اور دفتری زندگی میں چلی آ رہی ہیں اور اب ہر دفتر خصوصاً غیر سرکاری دفاتر میں کسی نہ کسی سیٹ پر آپ کو کوئی خاتون بیٹھی دکھائی دے گی جو ذرا احتیاط اور رکھ رکھائو کے ساتھ آپ کا کام کسی مرد ساتھی سے بہتر انداز میں کر دے گی۔ میں بینک میں جاتا ہوں تو وہاں جس شعبے کو بھی دیکھوں وہاں کوئی لڑکی ضرور دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے میڈیا میں ایک بہت بڑی تعداد کارکن خواتین کی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ الیکڑانک میڈیا تو گویا چلا ہی خواتین رہی ہیں۔ اسی طرح کئی دوسرے کاروباری شعبے بڑی حد تک خواتین کے سپرد ہیں۔
حکومت کے اہم اور کلیدی عہدوں پر خواتین براجمان ہیں دور کیوں جائیں ہماری اطلاعات کی مشیر بھی ایک خاتون ہیں۔ کارکن خواتین کے خلاف اگر کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ ان کی تخلیق و تجسیم میں واقعی جبلی اور فطری کمزوری ہے ایک کام جو مرد کر سکتا ہے وہ سخت ہونے کی وجہ سے شاید ایک عورت نہ کر سکے لیکن کئی دوسرے کام ایسے ہیں جو مرد سے بہتر انداز میں کوئی عورت کر سکتی ہے۔ میں جو عرض کر رہا ہوں یہ شہری زندگی کے بارے میں ہے جہاں تک ہماری دیہی زندگی کا تعلق ہے وہ تو آباد ہی عورت کی محنت اور فرض شناسی پر ہے۔
میں ایک دیہاتی ہوں اور جانتا ہوں کہ گائوں کی عورت کتنی محنت کرتی ہے اس کی زندگی کس قدر مشقتوں سے بھری ہوتی ہے۔ گھر کے مرد جب صبح بیدار ہوتے ہیں تو اس سے پہلے خاتون خانہ گھر کا صحن صاف کر چکی ہوتی ہے اور صبح کا ناشتہ قریب قریب تیار ہوتا ہے اس طرح اس کا دن مرد سے پہلے شروع ہوتا ہے اور مرد کے بعد ختم ہوتا ہے۔ میں گائوں کی زندگی میں عورت کے شب و روز کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں پاتا جو رات کے وقت مردوں کے سو جانے کے بعد چکی بھی پیستی تھی۔
مرد اور عورت زندگی کے دو پہیئے اگر کہا جاتا ہے تو وہ گائوں کی زندگی کی گاڑی ہے جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ دونوں میں سے زیادہ کار گر اور مضبوط پہیہ کون سا ہے۔ گائوں کی زندگی میں مہنگائی ہو یا نہ ہو ایک عورت زندگی بھر مسلسل کام کرتی رہتی ہے لیکن شہروں میں اب جا کر عورتوں نے عملی زندگی میں شرکت اور گھروں کے مردوں کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اب شہری زندگی کی گاڑی رکنے لگی تھی اور اکیلے مرد کے لیے اس گاڑی کو چلانا اب مشکل ہو گیا ہے۔
بہن، بیٹی اور بعض صورتوں میں بیوی بھی مردکا ہاتھ بٹا رہی ہے اور ہر خاندان کے ایک سے زیادہ افراد اس گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پھر بھی مہنگائی کا بوجھ ان سے اٹھانا مشکل ہو رہا ہے لیکن کوشش جاری ہے۔
اس صورتحال اورخاص طور پر شہری خواتین کی اس بدلتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ خصوصاً ہمارے معاشرے میں عورت کا اس طرح گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر مردوں کے دوش بدوش کام کرنا ایک نئی بات ہے۔ یوں تو اس ملک کی ایک وزیر اعظم بھی ایک خاتون رہی ہیں لیکن اس طبقہ کا عوام کے طبقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ ایک دوسری زندگی والے لوگ ہیں جن کی زندگی میں معاشی مشکلات کا کوئی تصور موجود نہیں۔
بات عوام کی ہو رہی ہے جن کی خواتین نے گھروں سے نکلنا شروع کر دیا ہے اور ایک انتہائی مجبوری کے عالم میں اس خاتون کے گھر والوں نے نظریں جھکا کر اپنی بیٹی بہن کو باہر جا کر ملازمت کرنے کی اجازت دی ہے اور اس کے لیے اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لیے کئی بہانے تراشے ہیں کہ اتنی تعلیم کے بعد گھر فارغ بیٹھ کر کیا کرے۔ کسی ماں نے کہا کہ اپنا جہیز ہی بنا لے، کسی نے سوچا کہ گھر کے حالات ذرا بہتر ہوں تو نوکری ختم کرا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ معاشی حالات نے پاکستانی خاتون کو گھر سے باہر نکالا نہیں گھر سے باہر پھینک دیا ہے۔
میں نہیں سمجھتاکہ ہمارے باہر کے حالات اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی اتنے روشن ہو گئے ہیں جن میں ایک خاتون سکون کے ساتھ کام کر سکے۔ ایسے حالات تو دنیا میں کہیں بھی نہیں کہ ایک خاتون گھر سے باہر اپنی مرضی کے ماحول میں کام کر سکے لیکن پاکستان میں اب جب خواتین کے کام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ممکن ہے کہ آگے چل کر خواتین کے سامنے اتنی مجبوریاں باقی نہ رہیں ورنہ اب تک تو ایسی کوئی ملازمت خواتین کو قبول نہیں جس میں انھیں رات گئے تک کام کرنا پڑے جب تک کہ ان کو گھر واپس پہنچانے کا دفتر کی طرف سے معقول بندوبست نہ ہو۔ خود ہمارے میڈیا میں جہاں خواتین کارکنوں کی تعداد بہت بڑھ رہی ہے وہاں بھی انھیں رات کی ڈیوٹی نہیں دی جاتی جب کہ میڈیا میں دن رات کام جاری رہتا ہے۔
ہمارے ہاں اعداد و شمار چونکہ قابل اعتماد نہیں ہوتے پھر بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے کچھ زیادہ ہی ہے جیسا کہ عرض کیا ہے آپ دیہی خواتین سے تو بے فکر رہیں جہاں وہ زندگی میں اپنی جگہ پیدا کر چکی ہیں یا حالات نے پیدا کر دی ہے اور ان کے بغیر دیہی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بات شہری خواتین کی ہے جن کا شہری زندگی میں داخل ہونا اورکام کرنا ایک خوشگوار عمل ہے۔ اگر ہم مردوں نے خواتین کو زیادہ پریشان نہ کیا تو وہ پاکستان کے مسلمان معاشرے میں اپنی کارآمد جگہ اور مقام بنا لیں گی اور مرد کے رحم وکرم پر نہیں رہیں گی۔