جو بھی، جس طرح کا بھی، ردعمل ہو سکتا تھا وہ میاں نواز شریف کی قید میں بیماری پر ظاہر کیا جا چکا ہے، اس میں اضافے کی گنجائش بہت کم ہے۔ میڈیا اور سیاستدانوں نے اپنے اپنے مزاج اور مفاد کے تحت رائے زنی کی ہے۔ پاکستان میں ایک قومی لیڈر کی بیماری کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا ہے کیونکہ پاکستانی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے اور ملک کسی ایسے ایڈوینچر کا متحمل نہیں ہو سکتا جو ملک کو آگے کی بجائے پیچھے لے جائے۔
سیاسی ذہن رکھنے والے بھی اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ہر دفعہ ہی ایسا موقع کیوں آ جاتا ہے کہ کسی منتخب وزیر اعظم کو کرسی سے اتر کر سخت سزا کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ موقع بھی ہمارے سیاسی لیڈر خود ہی فراہم کرتے ہیں، اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے ان کو ایسے دن دیکھنے پڑتے ہیں جن کے اثرات بعد میں قوم بھگتتی ہے۔
میاں نواز شریف کے اہل خانہ اور خاص طور پر ان کی بیٹی مریم نواز، عزیز و اقارب اور دوست احباب کو سیاست کی جگہ میاں صاحب کی ذاتی سلامتی درکار ہے کیونکہ قید میں ان کی صحت بگڑ گئی جس کی وجہ سے عدالت میں ان کی ضمانت کا ڈول ڈالا گیا جس کو عدالت نے منظور کر لیا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی عدالت نے حکومت سے ایسے قیدیوں کی فہرست بھی مانگ لی ہے جو قید میں بیمار ہیں، اب باقی ماندہ بیمار قیدی بھی زمینی عدالت سے اپنے کیسوں میں عدل اور آسمانی عدالت سے رحم کے طلبگار ہیں۔
جن لوگوں کو میاں صاحب کی ذات اور ان کی سیاست سے دلچسپی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جیل اور قید و بند میں کسی سیاست دان کی شخصیت کی صحیح تعمیر ہوتی ہے اور میاں صاحب پہلے کے بعض سیاستدانوں کی طرح جیل کی خصوصی تربیت پا کر ایک جید سیاستدان بن کر ظہور کریں گے۔
ان کی سیاسی کمزوریاں بہت کم اور سیاسی خوبیاں بہت بڑھ چکی ہوں گی اور اب جب کہ وہ نظریاتی بھی ہو چکے ہیں اس لیے وہ جمہوریت اور ووٹ کو عزت کے نعرے کے اصل پاسدار ہوں گے لیکن ان کا ماضی اس بات کی گواہی سے انکاری ہے۔ دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو اور بعد میں میاں نواز شریف کے سیاست میں آنے سے پہلے تک جو روایات تھیں ان میں کسی بڑے لیڈر کے لیے جیل ایک عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھتی تھی اور قید وبند کی مدت اور سختیاں اس کا حقیقی سیاسی تعارف بن جاتی تھیں لیکن میاں صاحب اور ان کی طرزکے سیاستدانوں نے سیاست کی پرانی روایات سے ہٹ کر نئی روایات متعارف کراوئیں جن میں سرمایہ داروں اور طاقتوروں کی مدد کو سیاست میں آنے اور پھر کامیابی کی کلید قرار دیا گیا۔
بھٹو صاحب ایک فوجی حکومت میں فوج کے تحفظ اور سر پرستی میں سیاسی دنیا سے متعارف ہوئے اور پھر الیکشن کے ذریعے کلی اقتدارحاصل کر لیا، بالکل اسی طرح میاں نواز شریف بھی فوج کی سر پرستی میں سیاست میں داخل ہوئے اور بعد میں بذریعہ الیکشن اقتدار حاصل کیا۔ دونوں بڑے لیڈر فوج کی سر پرستی اور کرم فرمائی سے اقتدار تک پہنچے اور اسی فوج کے ذریعے اقتدار سے محروم بھی ہو گئے۔ بھٹو صاحب کی سزا کے زمانے میں پاکستان کی دنیا میں حیثیت بہتر تھی چنانچہ پوری دنیا کے دباؤکے باوجود پاکستان کے حکمران نے ان کو بچانے سے انکار کر دیا، اس وقت میاں صاحب کی خوش قسمتی سے پاکستان اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہے چنانچہ ان کے لیے حالات مختلف ہیں۔
میاں نواز شریف خوش قسمت انسان ہیں جو اقتدار کو انجوائے کرتے رہے جن کی راتیں شب براتیں اور دن عید کے رہے لیکن جنرل مشرف کے مارشل لاء نے ان کی آنکھیں کھول دیں، وہ سیاست اور ملک سے باہر رہے۔ اس عرصے میں محسوس یوں ہوتا تھا کہ میاں نواز شریف کو اگر پھر اقتدار ملا تو وہ ایک مختلف حکمران ثابت ہوں گے کیونکہ اقتدار سے معزولی کے بعد بے رحم ہاتھوں سے ذہنی اور جسمانی زحمت محسوس کی اور ایسی پابندیوں کا مزا چکھا جس کی وہ آج بھی شکایت کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے وہ بھی روایتی سیاستدانوں کی طرح اپنے آپ کو بدل نہ سکے اور اب انھیں ایک اور سخت مرحلہ درپیش ہے۔ وہ قید میں بھی ہیں، آزاد بھی ہیں اور بیمار بھی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائیں۔ میاں صاحب پر یہ آزمائش کا وقت ہے، وقت یہ بتائے گا کہ وہ اس آزمائش کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور کس قدر خوش قسمت ہیں۔
جیل خواہ کتنی بھی آسودہ اور آراستہ کیوں نہ ہو جیل ہی ہوتی ہے اور یہ ہر وقت ایک غیر مرئی حرارت اور تپش کو چھوڑتی رہتی ہے، اس آگ کی تپش اتفاق فونڈری کی بھٹیوں کی طرح دہکتی نہیں، آہستہ آہستہ سلگتی ہے۔ ڈھلتی عمر میں میاں صاحب بڑی ہمت کے ساتھ جیل کاٹ رہے تھے۔ جیل کی تنہائی کو کسی صوفی کا تخلیہ اور اس کی خاموشی کو مراقبہ سمجھ لیا جائے تو یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں کسی انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے۔
میاں صاحب کو ایک بار پھر اپنی کایا پلٹنے کا موقع ملا ہے، وہ اپنی ماضی کی سیاست سے فوجی ملاوٹ کو ختم کر سکتے ہیں اور اپنا نام سیاسی رہنماؤں کی تاریخ میں شامل کر سکتے ہیں، وہ یہ بھول گئے ہیں کہ طاقت کا اصل منبع ابھی وہیں ہے جہاں سے انھوں نے اس سیڑھی پر قدم رکھا تھا، ان کواپنے اندر کھولتے انتقامی جذبات کو میٹھی نیند سلا دینا چاہیے لیکن اگر اس آزمائش میں بھی وہ انتقام کے جذبات کی پرورش کرتے رہے اور اس مہلت میں نیا نواز شریف تلاش نہ کر سکے تو پھر ان کی قید و بند ایک طویل سزا کے سوا کچھ نہ ہو گی اور ان کا نظریاتی بیانیہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔