Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qaumi Khud Gharzi

Qaumi Khud Gharzi

اگر ہمارا وہ طبقہ جو شروع دن سے ہی اس ملک کا حکمران چلا آ رہا ہے اتنی کمینگی سے کام نہ لیتا اور اس کی جگہ قومی خود غرضی اور کمینگی اختیار کر لیتا تو بے پناہ وسائل والے اس ملک میں جو ترقی ہوتی ظاہر ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ اس طبقے کو ہی ملتا اور اس کی عیش و عشرت میں کوئی کمی نہ آتی بلکہ اس قومی خوشحالی کے ماحول میں یہ طبقہ زیادہ اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتا اور اسے عوام سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوتا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور اب جو کچھ ہو چکا ہے اس پر ر ونے دھونے کا کیا فائدہ۔

ہمارے اس بااختیار اور قومی وسائل کے مالک طبقہ کی حالت آج بھی وہی ہے۔ مہنگائی خود سرکاری اطلاعات کے مطابق بڑھ رہی ہے، روپے کی قدر و قیمت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، یہ بے قدری کہاں پر جا کر رکے گی۔ نقدی کی بے توقیری کا یہ عالم ہے پیسوں کا سکہ مدت ہوئی متروک ہو چکاہے، کم ازکم سکہ ایک روپے کا ہے یعنی جس چیز کی قیمت ایک روپے سے کم تھی تو وہ اب کم از کم ایک روپے کی خود بخود ہو گئی ہے کیونکہ اس کی ادائیگی کے لیے یہاں ٹکسال میں کوئی چھوٹا سکہ ڈھلتا ہی نہیں ہے۔ پٹرول کی قیمت جب بھی بڑھتی ہے تو اس کے ساتھ کچھ پیسے بھی شامل ہوتے ہیں پمپ والے ان پیسوں کو روپے میں بدل دیتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی ہمارے بااختیار طبقے کی۔ اس کی حالت آج بھی وہی ہے اور قومی وسائل کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم کا سلسلہ بدستور چل رہا ہے۔ جیسے سابق حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کا ذکر ان کے چلے جانے کے بعد ہوتا ہے اسی طرح آج کے قصے بھی پھر کبھی زبان زد عام ہوں گے۔ ہماری قومی غربت اور ناداری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں ایک عرصہ سے بھارت کی فوجی طاقت سے تو ڈرایا ہی جاتا تھا اب اس کی معاشی برتری سے بھی دہشت زدہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔

زرعی ترقی کی بات ہو تو بھارت کی مثال دی جاتی ہے اور ہماری سابقہ حکومتیں تو ٹماٹر پیاز اور آلو بھی بھارت سے منگوا رہی تھیں یعنی ہم دنیا کی سب سے بڑی زراعت کے حامل ہونے اور زرخیز زمین کے باوجود بھارت کے مرہون منت ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کسان کوحکومت کی جانب سے وہ سہولتیں اور آسانیاں دستیاب نہیں جو بھارتی کسان کو ہیں اس لیے بھارتی کسان کی پیداواری لاگت کم ہے جب کہ ہماری زیادہ ہے اس لیے بھارتی سبزیاں منڈی میں سستی ملتی رہی ہیں۔

ہم نے پاکستان کی قیمت پربھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم بھارت کی منڈی بن جائو۔ ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ قیام پاکستان کے وقت یہ موقف رکھتے تھے کہ پاکستان کسی نظریئے کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ ہندو کی معاشی لوٹ مار سے بچنے کے لیے بنایا گیا ہے اور جو لوگ اسے اسلامی تہذیب و تمدن اور نظریات کا مرکز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ وہی میڈ ان پاکستان لوگ اسی ہندو کے ساتھ معاشی تعلقات کے داعی رہے ہیں جس کی لوٹ مار سے نجات کو پاکستا ن کا مقصد قرار دیتے تھے۔

ان لوگوں کا نہ تب پاکستان سے کوئی تعلق تھا نہ اب ہے، وہ پاکستان کو جناح اور اقبال کا نہیں نہرو اور پٹیل کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں اور مغل اعظم کے دور کو زندہ کرنے کی کوشش میں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ جلال الدین اکبر جس کی ہندوئوںکے ہاں بہت عزت کی جاتی ہے اپنے دین الہٰی میں مسلمانوں کو تلک لگواتا تھا اور ان سے سورج دیوتا کی پوجا کراتا اور خود بھی کرتا تھا۔ ہندو مسلم دوستی کے اس اسٹائل کا وہ پہلا مبلغ تھا۔

ایک دوست نے آج ہی یاد دلایا ہے کہ جب 1970 میں جماعت اسلامی نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا تو اس سلسلے میں کی گئی پریس کانفرنس میں مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد دونوں موجود تھے۔ ایک ترقی پسند رپورٹر نے پوچھا کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، اس سے پہلے کہ مولانا جواب دیتے میاں صاحب نے فوراً کہا کہ بیوی والا تعلق نہیں ہو گا۔ کئی برس پہلے کی جانے والی بات آج بری طرح یاد آ رہی ہے۔

امریکا میں 9/11 کے بعد ہماری حکومت کا یہ فیصلہ درست تھا کہ ہم مشتعل اور غضب ناک امریکا کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اس سے بچ جانا ہی بہترین حکمت عملی ہے چنانچہ ہم نے آگے بلکہ بہت آگے بڑھ کر امریکا سے تعاون کیا اور خود کو تباہی سے بچا لیا۔ ہم نے اپنی سر زمین تو بچا لی مگر پاکستانی مسلمانوں کی اندر کی دنیا توڑ پھوڑ کر رکھ دی۔

افغانستان میں بری طرح پھنسا ہوا امریکا اب ایران کو کھا جانے والی نظروں سے ہی دیکھ رہا ہے اور اگر وہ بالآخر ایران کے خلاف کارروائی کی حماقت کر گزرا تو پھر دنیا کوئی بہت بڑا تماشہ دیکھے گی لیکن پاکستان کو اب امریکا کی طرف بے تابانہ بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور اس دفعہ معاونت بڑی سوچ سمجھ کے ساتھ کرنی ہو گی۔

روشن خیالی بہت اچھی بات ہے لیکن روشن ضمیری بھی بری نہیں ہے اور ہم نے جو اپنی حالت بنا لی ہے، اس کی بنیادی وجہ ہمارا وہ اونچا برسر اختیار اور بست و کشادہ والا طبقہ ہے جس کے اندر اب کچھ بھی نہیں رہا۔ اس کے دماغ کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ نہ روشن خیال ہے نہ روشن ضمیر ہے اور نہ وہ اعتدال پسند ہے، وہ کچھ بھی نہیں حرص و ہوس نے اس سے سب کچھ چھین لیا ہے، وہ جو ایک کہانی ہے کہ کسی نے خدا سے دعا مانگی کہ یاخدا میں جس چیز کو ہاتھ لگائوں وہ سونا بن جائے تو وہ لالچی بھوک سے مر گیا کہ جس کھانے کو ہاتھ لگاتا وہ سونا بن جاتا۔

عام پاکستانی بہت مشکل میں ہے زندگی ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی پالیسیوں کے مثبت ثمرات کب عوام تک پہنچیں گے۔ کسی اَن دیکھے وقت سے بہت ڈر لگتا ہے۔