پاکستان بلکہ تیسری دنیا میں شروع سے یہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاسی حکمران حکومت میں تو عوام کی پر جوش حمائیت سے آتا ہے مگر وہ عوام کو شاید بے وقوف سمجھتے ہوئے انھیں بھلا دیتا ہے اور اپنے ہم مشرب سیاسی طبقے کی پرورش میں لگ جاتا ہے جو دراصل اس کے حریف ہوا کرتے ہیں چنانچہ جب اقتدار پر آفت آتی ہے تو اس کے اپنے طبقے کے ساتھی اسے مخالفوں کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور عوام اس سے متنفر ہو چکے ہوتے ہیں۔ تنہائی کے اس عالم میں وہ گلوں شکووں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو ا س سیاسی المیے یا حماقت کی بہترین مثال ہیں۔ ایک ذہین و فطین لیڈر جس نے بہت کچھ توڑ دیا مگر سیاست کی اس آسیب زدہ روایت کو نہ توڑ سکا اور خود اس کا بد قسمت شکار بن گیا چنانچہ ایک بار پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھٹو صاحب نے اپنی سیاست کھیلنے کا فیصلہ کیا اور ہر وڈیرے، رئیس، سردار اور چوہدری کے دروازے پر دستک دی لیکن ایوب خان کے اس معتوب سے سب ڈر رہے تھے چنانچہ کسی نے اس کا ساتھ دینے کا حوصلہ نہ کیا۔ جب اس کے تمام حیلے ناکام ہو گئے تو وہ مایوسی اور برہمی کی کیفیت میں گم سم ہو گیا اور جب غورو فکر کے اس مراقبے سے باہر نکلا تو اس کی زبان پر پاکستان کے درو دیوار ہلا دینے والا روٹی کپڑا مکا ن کا نعرہ تھا۔
اس وقت اس کی پاکستانی قوم ایک نسبتاً خوشحال قوم تھی اور سیاست کی ریڑھ کی ہڈی مڈل کلاس بھی موجود تھی۔ سوشلزم کافیشن تھا اور بھارت کے خلاف بھر پور جنگ کی نفرت انگیز یادیں تازہ تھیں۔ بھٹو نے کہا کہ عوام پاکستان کے مالک ہیں اور اس ملک کا سب کچھ ان کا ہے اور میں یہ سب کچھ چھین کر ان کو دے دوں گا۔ لاڑکانہ نہیں لاہور بھٹو کی سیاست کا مرکز تھا اور یہاں کے فلیٹیز ہو ٹل میں ان کا ڈیرہ جمتا تھا۔ ایک دن میں نے بھٹو صاحب سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ عوام کو اتنا کچھ آپ کہاں سے دیں گے اتنی تو ملک کی زمین بھی نہیں یہ شام کا وقت تھا۔
انھوں نے ایک خاص انداز میں کہا کہ جنت کسی مسلمان نے دیکھی ہے خدا کسی نے دیکھا ہے مگر مسلمان جنت کے وعدے اور خدا کی رحمت کے لیے جان تک قربان کرنے پر تیار رہتا ہے۔ وعدوں پر اعتبار اس قوم کی رگ و پے میں ہے پھر انھوں نے ذرا تن کر کہا لیکن میں بہت سے وعدے پورے کروں گا، میں بہت سوں سے بہت کچھ چھین لوں گا۔ وہ اپنے طبقے کے بڑے زمینداروں اور ملک کے صنعتکاروں سے بہت ناراض تھے جنہوں نے انھیں حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔ مختصراً یہ کہ کسے یاد نہیں کہ بھٹو نے اپنے نامور مخالف سیاستدانوں کو تہس نہس کر تے ہوئے پرانی سیاست کو نابود کر دیا، بہت کچھ اکھاڑ پچھاڑ دیا سیاست کے لاتعداد تاج اور کلاہ اپنے پائوں تلے روند ڈالے۔
اس سیاستدان نے یہ سب کچھ عوام کی مدد سے کیا، کسی سردار، چوہدری، وڈیرے اور نواب کی مدد سے نہیں۔ آج تک اس کا ترکہ اس کے سیاسی جانشین کھا رہے ہیں۔ لیکن بالآخر بھٹو اپنی اس کامیاب سیاست پر قائم نہ رہ سکا۔ اس کے اندر کا وڈیرہ جاگ گیا۔ اقتدار اور حکمرانی کا سحر اس کے حواس کو بے قابو کر گیا اس نے عوام کو چھوڑ کر پھر سے اپنے دشمنوں کو جمع کر لیا۔ یہ لوگ تو کمزور ترین مخلوق تھے اصل طاقت عوام کے پاس تھی جو اس نے گم کر دی، وہ خود بھی گم ہو گیا صرف اس کی یاد باقی رہ گئی۔
یہ باتیں مجھے آج کے حکمرانوں کی حالت زار دیکھ کر یاد آ رہی ہیں جو بھٹو کی طرح نہ سہی لیکن عوام کی تائید کے دعویدار ہیں اور وجہ کچھ بھی ہو عوام نے انھیں بڑے شوق سے اور بڑی امیدوں کے ساتھ اقتدار پر سرفراز کیا ہے۔ مگر عوام کے ساتھ ان کا رابطہ اتنا ہی ہے کہ انھوں نے عوام کے استعمال کی اشیاء ان پر تنگ کر دی ہیں۔ بھٹو صاحب کا تجربہ کوئی پرانے زمانے کی بات نہیں ہے، تاریخ سے سبق اگرچہ بہت کم سیکھا جاتا ہے مگر ماضی قریب کی تاریخ تو فراموش نہیں کرنی چاہیے، خصوصاً جب ہر وقت عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کواس غلط فہمی یا خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ کوئی ایسی طاقت ان کے اقتدار کو بچا سکتی ہے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہ ہو یا ان کے سیاسی اتحادی جن کو پاکستان کے عوام کئی بار بھگت چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عوام سے خوشگوار تعلق نہیں ہے۔ وہ ماضی کی ہر حکومت کے اتحادی رہے ہیں چاہے وہ سیاسی حکومت ہو یا فوج کی مارشل لائی حکومت۔ بس ایک پردہ پڑا ہوا ہے جس کے پیچھے کوئی معشوق نہیں ہے صرف رقیب چھپے ہوئے ہیں۔
عمران خان کو اگر کسی پر انحصار کرنا ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں جنہوں نے ان کو نعروں کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر اقتدار کی مسند پر بڑے چائو سے بٹھایا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں یہ افتادہ خاک لوگ عمران خان کی اصل سیاسی طاقت ہیں جو کسی کرم فرما کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ وہ ان کا حال دل جاننے کی کوشش کریں اور ان کو اپنا حال سنائیں وہ دیکھیں گے کہ زمین کے یہ کمزور لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں۔ وہ ان کو طاقت دیں ان سے اقتدار کے لیے طاقت حاصل کریں۔ یہ وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ صوبوں کا بار بار دورہ کریں، بار بار ان کا حال پوچھیں، ان کو بتائیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں۔
بڑے لوگوں سے ان کی بڑائی اورتکبر چھین لیں اور چھوٹے لوگوں میں ان کی عاجزی اور کمزوری کو ختم کر دیں، اسی کا نام ریاست مدینہ ہے۔ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے فرمایا تھا کہ میں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک ظالم سے مظلوم کا حق نہ چھین لوں۔