حیرت اس بات کی ہے کہ پاکستان اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سقوط ڈھاکا کے بعد یہ دوسرا امتحان ہے جس سے پاکستان نبرد آزما ہے مگر آفرین ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں پر جو ان حالات میں بھی اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھو رہے ہیں یعنی اس مشکل گھڑی میں کشمیر پر کوئی ٹھوس حکمت عملی اور مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔
حکومتی رہنما ہوں یا اپوزیشن کے سرکردہ لیڈر حضرات دونوں طرف آگ برابر کی لگی ہوئی ہے اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میںپہلے روز وزیر اعظم کی تقریر کے علاوہ سب نے کشمیر کے اہم ترین ایشو پر سیاست کرنے کی کوشش کی ہے، حکومت کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس مقصد کے لیے بلایا گیا وہ مقصد تو کہیں دور چلا گیا اور ایک دوسرے پر تنقید کو فوقیت دی گئی۔ ٹیلی ویژن کی مہربانی سے پوری قوم اپنے رہنماؤں اور منتخب نمایندوں کی ہلڑ بازی پر افسوس کا اظہار کر رہی ہے وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا کر سکتی ہے کیونکہ اس نے تو اپنے ووٹ سے ان کو منتخب کر کے ایوان میں بھیج دیا ہے اب یہ ان نمایندوں پر منحصر ہے کہ وہ قوم کی آواز کہاں تک پہنچاتے ہیں۔
ہندوستان میں ہندو بنیاد پرست اور دہشت گردوں کی جماعت دوسری دفعہ الیکشن جیت گئی۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے بھارت سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کردینے کا نعرہ بلند کر رکھا ہے اور دوسری دفعہ الیکشن میں اسی نعرے پر اس کو کامیابی بھی ملی ہے جس کے بعد وہ اب اپنے نعرے پر عمل درآمد کر رہی ہے جس کا آغاز اس نے مقبوضہ کشمیر سے کیا ہے جو عالمی سطح پر ایک تسلیم تشدہ متنارع علاقہ ہے جس کے پاکستان اور بھارت دونوں دعویدار ہیں۔
بھارت کے کشمیر پرظالمانہ قبضے سے مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ کشمیر میں پچھلے کئی روز سے زندگی جمود کا شکار ہے اور جو جہاں ہے وہیں پر مقید ہے۔ ذرایع ابلاغ اور آج کے زمانے کی انٹرنیٹ وغیرہ جیسی دوسری سہولیات کو بھی زبردستی بند کر دیا گیا ہے یعنی کشمیر کے عوام کو بھارت نے دنیا بھر سے کاٹ دیا ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتیںکشمیر کے حالات سے پوری طرح باخبر ہیں مگر ابھی تک اس اہم مسئلے پر کسی کے سر پر جوں بھی نہیں رینگی۔ سوائے چین کے جس نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اور اس نے بھارت کے کشمیر پر قبضے کو ناجائز قرار دیا ہے اور خاص طور پر لداخ کو بھارتی عملداری میں شامل کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ چین جو کہ اس وقت دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے اس نے ماضی میں بھی پاکستان سے دوستی کا حق ادا کیا ہے اور اس مرتبہ بھی چین کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت پر کمر بستہ نظر آرہا ہے۔
دوسری طرف اگر مسلمان ممالک کی بات کی جائے تو ابھی تک مسلم اُمہ کی جانب سے پاکستان کی حمایت میں کسی قسم کا کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا حالانکہ او آئی سی کے جدہ میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میںہمارے وزیر خارجہ نے پاکستان کا موقف بڑی وضاحت سے پیش کیا مگر کوئی متفقہ اعلان سامنے نہیں آسکا اس کے علاوہ مسلمان ممالک نے اس گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی پاکستان کو توقع تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم اُ مہ نے پاکستان کو مایوس کیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
آج کی سرمایہ دار دنیا میں ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں اور یہ مفادات زیادہ تر دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ساتھ وابستہ ہیں اور امریکا کی وابستگی ہر لحاظ سے بھارت کے ساتھ ہے۔ امریکا اپنے مفاد کے لیے تو پاکستان کا ساتھ دیتا ہے لیکن جب بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کی بات ہو تو امریکا کا پلڑا ہمیشہ بھارت کی جانب جھک جاتا ہے اور وہ پاکستانی مفادات پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر ہمارے وزیر اعظم نے دوٹوک موقف کا اظہار کیا ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ ان کی ترجیح ہو گی کہ ٹیپو سلطان کی طرح جیا جائے جس نے انگریزوں کے ہندوستان میں قبضے کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔ ٹیپو سلطان کہتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ٹیپو سلطان کی مثال دے کر ہمارے وزیر اعظم نے اپنے ارادوں کا واضح اعلان کیا ہے۔
عمران خان کی اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان بھارت کو ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکی نہیں دے رہا وہ جانتے ہیں کہ دونوں حریف طاقتوں کے پاس دنیا کا مہلک ترین ہتھیار موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کے توازن کو قائم رکھنے میں پاکستان کے ایٹم بم کا سب سے اہم کردار ہے ورنہ متعصب ہندو ہمیں کب کا ختم کر چکے ہوتے۔ اس سے پہلے بھی کشمیر پر کئی مرتبہ جنگ ہو چکی ہے کارگل کے محاذ پرآخری جنگ جو کشمیر کے لیے لڑی گئی وہ ہم جیت چکے تھے لیکن ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف بھاگم بھاگ امریکا پہنچے اور اپنے کئی فوجی جوانوں کی شہادت کا صدمہ اٹھا کر ہم نے کارگل سے اپنا محاصرہ اٹھا دیا یوں دشمن جو ہمارے شکنجے میں آچکا تھا اپنی مکاری سے ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کر گیا۔
بہر حال کشمیر کا محاذ پاکستان کو ایک دفعہ پھر بلا رہا ہے ایٹمی طاقت پاکستان کے رہنماؤں کو نہایت دانشمندی سے فیصلہ کرنا ہے کہ کشمیر کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دینی ہے۔ بھارت نے تو جو کرنا تھا کر لیا اب اس نے گیند ہمارے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم نے دشمن کی پھینکی ہوئی اس گیند کو اٹھانا ہے اور اس کو واپس کس طرح پھینکنا ہے۔ حکومت کے ساتھ کوئی کھڑا ہو یا نہ ہو پاکستانی قوم اپنی حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ پاکستانی قوم کا نعرہ وطن کشمیر ہے۔