چند روز پہلے شایع ہونے والا اسلم خان کا ہشت پہلو کالم مجھے ماضی کے جھروکوں میں لے گیا۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص کاماضی ایک جیسا ہو بلکہ اگر یہ کہا جا ئے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہر ایک کاماضی یقینا مختلف ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
جہاں تک ہماری خالص سیاسی اور مذہبی نما سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو ان کا ماضی بھی ان کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور کچھ کے ساتھ تو ایسی یادیں جڑیں ہیں کہ وہ پاکستانیوں کے لیے کچھ خوشگوار یادیں نہیں ہیں۔
قیام پاکستان میں حصہ لینے کے گناہ سے محفوظ اور اس پر فخر کرنے والے حضرت مولانا فضل الرحمن جو جمعیت علماء ہند کی پاکستانی وارث جمعیت علمائے اسلام کے کرتا دھرتا ہیں اور پاکستان کی اسمبلیوں میں موجود رہنے کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر حکومت میں کسی نہ کسی اہم عہدے پر فائز بھی رہے ہیں، پاکستان کے بارے میں اپنے عالم فاضل خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں مولانا نے اپنے دورہ بھارت میں پاکستان کا ایک آدھ شہر نہیں بلکہ مبینہ طور پر پورا پاکستان ہی مذاکرات کی میز پر رکھ دینے کی تجویز پیش کر دی تھی۔ اپنے اس بیان کی انھوں نے تردید کی یا نہیں مجھے یاد نہیں کیونکہ سیاست دانوں کا یہ ایک بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی کہی ہوئی کسی بھی بات کی تردید یا وضاحت کر دیں۔ اسی طرح علماء کو یہ شرعی حق بھی حاصل ہے کہ وہ ایک فقہی اصطلاح کے مطابق اپنی کسی رائے اور فتوے سے رجوع کر لیں ان کا یہ رجوع کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔
سیاستدان کسی وقت ضرورت کے تحت یا عوامی جلسوں میں اور خطابت اور زندہ باد کے نعروں میں کئی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو منا سب یا درست نہیں ہوتیں اس لیے ان کی تردید کر دی جاتی ہے۔ اگر کوئی لیڈر سیاستدان جو عالم دین بھی ہو یعنی دو دھاری تلوار ہو تو اسے اپنی بات سے پھر جانے یا اس کے وجود کی تردید کا دہرا حق حاصل ہوتا ہے، سیاسی بھی اور شرعی بھی۔
مرحوم حسین شہید شہروردی نے ایک مرتبہ لاہور پریس کلب میں گفتگو کے دوران جب اپنے سامنے ٹیپ ریکارڈر دیکھا تو حکم دیا کہ اسے اٹھا لیں کیونکہ ہر سیاستدان کی طرح مجھے بھی اپنی کسی بات کی تردید کا حق حاصل ہے جو یہ ٹیپ ریکارڈ مشکل بنا دیتا ہے اور آج کل تو سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن جیسی عفریت کا ہر وقت سامنا رہتا ہے جو کچا چٹھا کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ قیام پاکستان کی مخالف جماعتوں کے لوگ قیام پاکستان کے بعد نجی محفلوں میں اپنے خیالات کا اظہار تو کرتے رہے لیکن کسی کو بر سر منبر مخالفت کی جرات نہیں ہوئی۔
حضرت مولانا فضل الرحمن پاکستان کے شاید واحد مذہبی لیڈر ہوں گے جنھوں نے سب سے زیادہ اقتدار کو قریب سے اور بار بار دیکھا ہے۔ اقتدار سے جدا ہوئے ان کو ابھی بمشکل ایک برس ہی گزرا ہے کہ وہ بے چین ہو گئے ہیں حالانکہ اقتدار کسی نہ کسی صورت میں ابھی بھی ان کے گھر میں موجود ہے۔ مولانا بہت اہم سیاسی لیڈر اور عالم ہیں وہ زیرک سیاستدان بھی ہیں، انھوں نے کبھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں بلکہ ہمیشہ پکے پاؤں چلتے ہیں لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس مرتبہ حضرت مولانا سے شائد کچھ چوک ہو گئی ہے اور وہ پھسل گئے ہیں یا ان کو کسی نادان دوست نے غلط مشورہ دے کر ایسے جال میں پھنسا دیا ہے جس سے نکلنا آئے دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
حضرت مولانا گزشتہ دنوں لاہور تشریف لائے جہاں پر انھوں نے اپنے مجوزہ آزادی مارچ کے لیے مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی جنھوں نے ان کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں مولانا کے آزادی مارچ کی بھر پور حمایت کا اعلان بھی کیا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف جو افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اپنے بڑے بھائی کے حکم پر مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں آزادی مارچ کا اعلان کرنا پڑگیا جب کہ دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی آزادی مارچ کی مشروط حمایت پر کمر بستہ نظر آتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن اپنے مارچ کی حمایت کے لیے ہر طبقہ فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، وہ لاہور میں ہمارے دوست امتیاز عالم کی مشہور و معروف تنظیم سفما کے دفتر میں بھی تشریف لے گئے جہاں پر اخبارنویسوں سے ان کی ملاقات میں بائیں بازو کے دانشوروں کے علاوہ اپوزیشن کے رہنما بھی موجود تھے۔ مولانا نے بائیں بازو کے حلقوں میں ان کے مارچ سے سر اٹھانے والے خدشات کے بارے میں مطمئن کرنے کی کوشش بھی کی۔
ماضی میں سفما کے دفتر میں ایک سیمینار سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جس کو ہندو پوجتے ہیں جس پر بڑا واویلا مچا تھا۔ مولانا مذہبی کارڈ سے مشہور ہونے والے مارچ کو اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی سے متحدہ اپوزیشن کے مارچ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی جا رہے ہیں۔
دوسرے فریق یعنی حکومت کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح اب عیاں ہو چکی ہے کہ حکومت مارچ کو تضحیک کا نشانہ بناتے بناتے خود مارچ والوں کے نشانے پر آ چکی ہے۔ حکومتی کار پرداز جو کل تک مولانا پر غیر پارلیمانی لفظوں کی پھبتیاں کس رہے تھے آج انھی مولانا سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا چکے ہیں لیکن جمعیت علمائے اسلام کی قیادت نے تادم تحریر حکومت سے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کو مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے بارے اختیار سونپ دیا گیا ہے۔
یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ کے مجوزہ اعلان کو حکومت کی جانب سے پہلے پہل سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور کوشش یہ کی گئی کہ مولانا کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا جائے لیکن مولانا کی سیاسی فہم کی داد دینی پڑے گی کہ وہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو اپنے مارچ کی حمایت پر آمادہ کرنے میں مسلسل مصروف رہے اور بالآخر اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے جب کہ حکومت اپوزیشن کے اکٹھ کو دیکھ کراپنی ڈولتی بیساکھیوں کے ساتھ مولاناسے مذاکرات کا ڈول ڈال رہی ہے۔
وزیر اعظم اپنی مذاکراتی کمیٹی پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، ان کی تمام تر امیدیں اپنی مذاکراتی ٹیم سے وابستہ ہیں جب کہ وہ خود ابھی بھی مولانا کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں، نازک ملکی حالات میں ان کے کھلنڈرانہ بیانات عوامی حلقوں میں خوشگوار تاثر پیدا نہیں کر رہے، ملک کے وزیر اعظم سے اس قسم کے بیانات کی توقع نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات سے معذرت کی ہے۔
جمعیت علمائے ہند کے مرکزسے حضرت مولانا فضل الرحمن کی پاکستانی جمعیت علمائے اسلام کا شروع ہونے والا سفر کیا اسلام آباد میں اختتام پذیر ہو گا، معاملہ غور طلب ہے۔