Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aah Falak Par Jaye To Kaise?

Aah Falak Par Jaye To Kaise?

خیر سے چینی بحران کی رپورٹ جاری ہو گئی ہے۔ ٹوئٹر پر بحث جاری ہے کہ رپورٹ کس نے جاری کروائی۔ حکومت نے یا الحکومت نے۔ دونوں الگ الگ خبریں ہیں اگرچہ ایک معنے میں، فی الحال ایک ہی ہیں۔ بے کار بحث ہے۔ جس نے بھی جاری کی رپورٹ تو بہرحال آ گئی اگرچہ اس میں خاص رعایت سے کام لیا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے، چینی کی مد میں قصور خود حکمران جماعت والوں کا ہے۔ پنجاب حکومت نے کسی کے دبائو میں سبسڈی دی۔ رعایت یہ کی گئی ہے کہ اس کا نام نہیں دیا جس نے دبائو ڈالا۔ پچھلے سے پچھلے مہینے کی پندرہ تاریخ کو ایک خطاب میں بتایا گیا تھا کہ بحران میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا کوئی کردار نہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ مرکزی ذمہ دار یہی دونوں تھے۔ ناطقہ سربہ گریباں ہے کہ کس کی بات پر ہاں کہے۔ خاں صاحب بھی اور تحقیقات کرنے والے بھی۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ نام تو اور بھی ہیں۔ کارروائی کس کے خلاف ہوتی ہے۔ کیسے ہوتی ہے اور کب ہوتی ہے یا ہوتی بھی ہے کہ نہیں۔ افسوس، ڈیم والے والے باباجی اکھاڑے سے تشریف لے گئے ورنہ کچھ تعجب کی بات نہ ہوتی کہ ازخود نوٹس لے کر رپورٹ کو کالعدم کر دیتے۔

چینی بحران کی یہ رپورٹ پوری نہیں ہے۔ ڈکیتی 140 ارب کی ہوئی ہے اور یہ صرف چینی کی رپورٹ ہے۔ آٹے کا بھبھوت کس کس نے ملا اور قوم کو کتنی رقم سے محروم ہونا پڑا، اس کی رپورٹ تو ابھی آئی ہی نہیں۔ اور اس سے پہلے دوائوں کے بحران میں بھی اربوں روپے کی واردات کی گئی۔ اس پر بھی ابھی کسی "نقل و حرکت"کے کوئی آثار نہیں۔ بی آر ٹی(پشاور میٹرو) کی شفافیت کے چرچے اب دنیا بھر میں ہو رہے ہیں۔ الجزیرہ نے بھی ڈاکومنٹریز چلا دی۔ اس کی تحقیقات کا بھی کچھ امکان نہیں۔ چند ماہ پہلے یوٹیلیٹی سٹورز کے لئے کئی ارب کی رقم جاری فرمائی گئی۔ وہ کہاں گئی اس کا بھی کچھ اتا پتا نہیں۔ بعض بھولے میاں پوچھ رہے ہیں کہ چینی کی رپورٹ تو آ گئی، فارن فنڈنگ کی رپورٹ کب آئے گی۔ ان بھولے میائوں سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ منہ دھو رکھیے صاحب۔

وبا کے دنوں میں محبت کا سنا تھا۔ وبا کے دنوں میں ایمنسٹی کا کبھی نہیں سنا تھا، وہ بھی یوں سن لیا کہ کالے دھن کو رئیل سٹیٹ کاروبار میں لگانے کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کسی انصاف پسند سے پوچھئے تو وہی یہی کہے گا، بہت اچھی بات ہوئی ہے۔ ، جی ہاں، کالے کو گورا کرنا اچھا ہی تو ہے اور پتے کی بات ہے کہ اس کالے دھن کے تانے بانے تین باتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک تو فارن فنڈنگ سے اور دوسرے حالیہ بحران میں 140ارب سے اور تیسرے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے۔ بہرحال، زلفی بخاری سے لے کر انیل مسرت تک اور جہانگیر ترین سے لے کر واڈولے میاں تک سبھی لاڈلوں کے وارے نیارے ہیں۔ پنجابی میں اسے لہراں بحراں ہونا کہتے ہیں۔

شوگر کی صنعت کو سبسڈی دی گئی، تیس ارب کی، پھر قیمت بڑھانے کی اجازت دے کر ان گنت اربوں کی ایسی دریا دلی چشم فلک نے کبھی دیکھی نہ گوش فلک نے سنی۔ اب کنسٹرکشن کی صنعت کے لئے سبسڈی کے در کھول دیے گئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس شے کی کنسٹرکیشن ہونی ہے۔ بہرحال "تعمیری" سرگرمی ہے۔ خیر مقدم تو کرنا ہی پڑے گا۔

خان صاحب نے پارٹی رہنمائوں کے لئے ایک اور اجازت کا بگل بجا دیا ہے۔ فرمایا ہے۔ سرکاری فنڈ استعمال کرو، اپنے حلقے پکے کرو۔ چنانچہ فنڈ استعمال ہوں گے اور بے محابا ہوں گے یہ پتہ پھر بھی نہیں چلے گا کہ کہاں استعمال ہوں گے۔ رہی حلقے پکے ہونے کی بات تو لگتا ہے کہ خاں صاحب کو رپورٹ نہیں پہنچی اس لئے کہ حلقے تو پہلے ہی اتنے پکے ہو چکے کہ "پکی تھاں" بن چکے کبھی خود دورہ فرما کر بالمشافہ معائنہ فرما لیجیے، بنا کسی پروٹوکول کے تشریف لانا ہو گا۔ ایک "اینکر پرسن" نے دو اڑھائی ماہ پہلے مایوسی اور افسردگی کے عالم میں فرمایا تھا کہ صادقوں اور امینوں کی جماعت پنجاب کے شاید ہی کسی حلقے سے جیت سکے۔

کرونا وہ ہے کہ جس کے بھاگوں حکومت کے کئی چھینکے ٹوٹے۔ ریلیف ورک تو جیسا ہو رہا ہے، ہو رہا ہے اور ایسا کہ داد دینی مشکل، کرونا فورس البتہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھاری فنڈ بھی رکھوا دیے گئے ہیں۔"ٹائیگر" حضرات مستحقین کی فہرستیں بنائیں گے۔ واللہ، کیا سنہرا اصول دریافت ہوا ہےسرکاری فنڈ، تحریک انصاف کے کارکنوں کے ذریعے، تحریک انصاف والوں کے لئے۔ عوام تو دال کا شوربہ بنانے کے قابل بھی نہیں رہے کہ اسی ہفتے فی کلو پچاس روپے اور مہنگی ہو گئی ہے۔ بجلی گیس کے بل دس پندرہ دن میں آنے والے ہیں، سنا ہے کہ کرونا فنڈ کی وصولی بھی ہو گی۔ رستے میں ایک پیج کا گھنا بادل ہے، آہ فلک پر رحم لانے کے لئے جائے بھی تو کیسے؟ نالہ کردم، گریہ کردم کی مشق بھی بے سود رہی۔